وزیر داخلہ  کا بلا ناغہ ٹاک شو


\"phmbnail\"حکومت نے ایران کے ساتھ تنازعات اور پنجاب میں فوجی آپریشن کے حوالے سے فوج کے ساتھ سامنے آنے والے اختلافات کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لئے آج وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تفصیلی پریس کانفرنس کی اور کسی بھی قسم کی غیر معمولی صورتحال کی سختی سے تردید کرنے کی کوشش کی۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے اور صحافیوں کے ساتھ قلبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار نے میڈیا کے نمائندوں سے ہلکے پھلکے انداز میں شکوے بھی کئے اور اسلام آباد دھرنے کے معاملہ پر تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اسی طرح انہوں نے طویل سیاسی زندگی میں سیکھے ہوئے سارے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ خواہ ایران کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو یا آرمی چیف سے طویل خفیہ ملاقاتوں کی خبریں ، یہ سب معمول کے مطابق ہے۔ بس صحافیوں نے اس بارے میں وزارت داخلہ سے درست معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن صرف اسی حقیقت سے صورتحال کی سنگینی اور پیچیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نے اس معاملہ پر چوہدری نثار علی خان کو میڈیا کو رام کرنے کا کام سونپا تھا۔

حالانکہ چوہدری نثار علی خان نہ تو اس ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔ نہ وہ وزیر دفاع ہیں۔ نہ صوبوں کے رابطہ کار ہیں اور نہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس کے باوجود وہ خارجہ امور پر بھی بیباکانہ بات کرتے رہے، پنجاب اور فوج کے درمیان ابھرنے والے تنازعہ پر بھی رائے زنی کی اور سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دینے پر بھی اپنا موقف بیان کیا۔ اگر اس طویل پریس کانفرنس کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں کلی اختیارات کے مالک اور معلومات کے حامل ایک شخص نے معاملات پر کھل کر اپنی رائے دی۔ اور اپنے سوا ملک کے سب اداروں کو معاملات خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ یعنی ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اس لئے منفی باتیں سامنے آ رہی ہیں کیونکہ میڈیا کے بعض حلقوں نے صدر حسن روحانی کے دورہ اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے واقعات کے بارے میں غلط تبصرے یا رپورٹنگ کی۔ اسی طرح پنجاب کے معاملات کے حوالے سے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ ان کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے طویل ملاقات دراصل ایک معمول کی ملاقات تھی جو وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہے۔ رپورٹرز نے اس بارے میں خبر تیار کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے رجوع نہیں کیا ورنہ وہ غلط اور گمراہ کن خبر شائع نہ کرتے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کی ذمہ داری بھی سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے برعکس چوہدری نثار علی خان نے برسر اقتدار آتے ہی یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ سابق آمر کا نام ای سی ایل ECL میں ڈال دیا جائے کیونکہ یہی سپریم کورٹ کا حکم ہے۔

بیرون ملک سفر پر قدغن کے حوالے سے فہرست پر نام شامل کرنے کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی آج ہی سامنے آیا ہے۔ اس فیصلہ کے مندرجات چوہدری نثار علی خان کی غلط بیانی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ حیرت ہے ایک طرف تو وہ پیپلز پارٹی پر یہ طعن کرتے ہیں کہ اس نے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں پرویز مشرف کے سفر پر کوئی پابندی نہیں لگائی اور اگلی ہی سانس میں یہ فرماتے ہیں کہ حکومت نے تو سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں پابندی لگائی تھی اور اسی کے حکم پر انہیں سفر کرنے کی اجازت دے دی۔ گویا مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی عملی طور پر تو وہی کرنا چاہتی تھی جو پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کیا۔ بس یہ بیچ میں سپریم کورٹ آ گئی جس کی وجہ سے ای سی ایل پر نام بھی ڈالنا پڑا اور خصوصی عدالت قائم کر کے آئین سے غداری کا مقدمہ بھی دائر کرنا پڑا۔

ایک ہی پریس کانفرنس میں یہ متضاد بیانی حکومت کی بے بسی اور معاملات پر گرفت نہ ہونے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کیس میں اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہے کہ دو برس کی مدت کے دوران ہر سماعت پر اٹارنی جنرل سے کہا گیا کہ وہ حکومت کا موقف بیان کریں لیکن انہوں نے اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا اور کہا کہ حکومت وہی کرے گی جو سپریم کورٹ کہے گی۔ اس معاملہ پر مختصر حکم سامنے آنے کے ایک روز بعد ہی پرویز مشرف حکومت کی باقاعدہ اجازت سے ملک سے روانہ ہو گئے۔ اب خصوصی عدالت بھی دریافت کرتی ہے کہ حکومت نے انہیں کیوں جانے دیا اور سپریم کورٹ کا حکم بھی واضح کرتا ہے کہ ای سی ایل سے نام ہٹانے کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ حکومت کو اگر متعلقہ شخص کسی دوسرے مقدمہ میں مطلوب ہو تو وہ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ وزیر داخلہ نے ان پیچیدگیوں میں پڑنے کی بجائے سپریم کورٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ بیک فائر کر رہا ہے اور چوہدری نثار علی خان کے پاس آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

ملک کے اخبارات کئی مہینوں سے یہ خبریں دیتے رہے ہیں کہ فوج پنجاب میں بھی سندھ کی طرز کا آپریشن کرنا چاہتی ہے۔ فوج نے متعدد بار پنجاب حکومت سے کہا تھا کہ وہ رینجرز کو بلانے اور اسے پولیس اختیارات دینے کی سمری جاری کرے۔ پنجاب حکومت صوبائی معاملات میں فوج کی مداخلت نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے فوج کی یہ خواہش پوری نہ کی جا سکی۔ اس دوران صوبے میں انتہا پسند گروہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور جنوبی پنجاب میں ان کے ٹھکانے پنجاب حکومت اور پولیس کی موجودگی کے باوجود کام کرتے رہے۔ گزشتہ اتوار کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خودکش حملہ اور اس میں 74 افراد کی شہادت اور 300 سے زائد افراد کے زخمی ہونے جیسے اندوہناک سانحہ کے بعد آرمی چیف نے کور کمانڈر اجلاس میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوج اور رینجرز کو صوبے میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا۔ اس طرح یہ مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوئی کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ صوبے کو محفوظ اور دہشت گردوں سے پاک قرار دیتے رہے اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ نہ فوج طلب کی گئی ہے اور نہ وہ کارروائی کر رہی ہے اور نہ ہی پنجاب حکومت اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ دوسری طرف فوج کے ترجمان بتاتے رہے کہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر فوج صوبے میں کارروائی کر رہی ہے۔ گزشتہ منگل کو وزیر اطلاعات پرویز رشدید اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ISPR کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ تضاد کھل کر سامنے آ گیا۔ ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ جب بھی ہمیں ایسی معلومات ملتی ہیں ہم ان کی روشنی میں فورس متعین کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ آپریشن صوبوں کی تخصیص کے بغیر ملک بھر میں ہو رہا ہے۔ اس موقع پر بات بے بات چہکنے والے پرویز رشید کا چہرہ سُتا ہوا تھا اور انہوں نے صرف یہ کہا کہ یہ فیصلہ کرنا صوبائی حکومت کا استحقاق ہے۔

اس استحقاق کو واضح کرنے کے لئے وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے دوست اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ جمعرات کو آرمی چیف سے ملنے گئے اور تین گھنٹے تک ان سے بات چیت ہوئی۔ اخبارات نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس ملاقات میں اتفاق رائے تو نہیں ہو سکا لیکن فوج کے سربراہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے فوج بلاتخصیص کارروائی کرے گی۔ اس ملاقات میں سامنے آنے والے معاملات کو آگے بڑھانے اور وزیراعظم کا موقف آرمی چیف تک پہنچانے کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کے روز جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔ اگرچہ اس ملاقات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فوج کے بجٹ پر بات کرنے کے لئے کی گئی تھی لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے دراصل پنجاب کے معاملہ پر بات کی اور کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سندھ میں رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات کے حوالے سے مستعدی دکھائی تھی، پنجاب کے معاملہ میں وہ اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ وزیراعظم کے لاڈلے بھائی بااختیار وزیراعلیٰ یا مطلق العنان حکمران کے طور پر کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات آنے والے دنوں میں سامنے آ سکیں گی ۔ اس دوران شاید وزیراعلیٰ ، چوہدری نثار اور اسحاق ڈار کو “روٹین“ کی مزید ملاقاتوں کے لئے جنرل راحیل شریف کے پاس حاضری بھی دینا پڑے۔

ایران کے معاملہ پر تنازعہ کھڑا کرنے کا آغاز وزارت داخلہ کی طرف سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے پاک فوج کے ترجمان نے صدر روحانی کے ساتھ جنرل راحیل کی ملاقات کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف نے انہیں بھارتی جاسوس کی گرفتاری اور ایران سے بھارتی ایجنسی ”را“ کے آپریشن کے بارے میں بتایا ہے۔ صدر روحانی نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔ اس کے بعد وزارت داخلہ کے سیکرٹری عارف احمد خان نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کو ایک خط روانہ کیا۔ اس میں ایرانی حکومت سے چھ مطالبات کئے گئے تھے:

1) چاہ بہار میں کلبھوشن یادیو کے نائب راکیش عرف رضوان کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

2) یادیو کے ایران میں قیام ، مصروفیات اور حرکات و سکنات کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

3) ان معلومات میں واضح کیا جائے کہ کلبھوشن یادیو ایران میں قیام کے دوران کہاں کہاں مقیم رہا اور کیا کرتا رہا۔

4) یہ شخص جن لوگوں سے رابطے میں رہا، ان کی تفصیلات دی جائیں۔

5) ایران میں ”را“ RAW کے نیٹ ورک کی پوری تفصیلات مہیا کی جائیں۔

6) پاکستان کے خلاف کام کرنے والے بھارتی جاسوسی نیٹ ورک کے حوالے سے دیگر متعلقہ معلومات فراہم کی جائیں۔

یہ ایک سخت مراسلہ تھا۔ جس میں دوٹوک الفاظ میں ایران سے ایسے سوالات پوچھے گئے تھے گویا ایران کو بھارت کا معاون قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مراسلہ کے بعد ایران کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر سامنے آنے والی ہتک آمیز اور غلط خبریں دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے بھارتی جاسوس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بے حد ضرری ہے۔ لیکن اس بارے میں لکھے گئے خط کو میڈیا کو جاری کر کے وزارت داخلہ اور حکومت نے خود غلط فہمیاں پیدا کرنے اور ایران کے خلاف فضا تیار کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ ایک دوست ہمسایہ ملک کے بارے میں اس غیر ذمہ داری کی کیا وجہ تھی …. حکومت کو اس کا جواب دینا چاہئے تھا۔ اس کی بجائے وزیر داخلہ آج داخلہ امور میں ناقص کارکردگی کے بعد اب خارجہ امور میں ڈیمیج کنٹرول کے لئے زور و شور سے گرجتے رہے۔

چوہدری نثار علی خان کے اس رویہ سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کسی وزیر کو اپنے دائرہ اختیار اور صورتحال کی خبر نہیں ہے۔ جو جس کے دل میں آتا ہے، وہ کہہ کر قومی فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ان حالات میں سیاسی حکومت کو نااہل اور نالائق نہیں کہا جائے گا اور فوج زیادہ سے زیادہ سے مداخلت نہیں کرے گی تو اور کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments