زاویہ محبت


منہ اٹھا کر کہ ظاہر ہے منہ رکھ کر تو فیس بک دیکھنے سے رہا، تو منہ اٹھا کر فیس بک دیکھ رہا تھا کہ اچانک امرتا پریتم سے منسوب ایک بات دکھائی دی۔ لکھا ہوا تھا محبت میں سب طاقتیں ہوتی ہیں بس ایک بولنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ حیرانی تو ہمیشہ ہی ہوتی تھی کہ ایسے جذبے سے کمزوری، خاموشی، گومگو کی حالت میں رہنا اور ہارنا ہی منسوب کیا جاتا ہے اور ایسے تیقن سے یہ اور ایسے مزید زاویے اور رخ نہ صرف دکھاے بلکہ دیکھے جاتے ہیں کہ اس بارے میں ایک ان کہا بیانیہ جیسے مستقل طور پر مرتب ہو چکا ہے۔ اور تو اور ہم اس حد تک یقین کر بیٹھے ہیں کہ مذہب جیسے معاملات میں بھی جہاں محبّت اور نرمی کے جذبے دکھیں، وہاں بھی ہم جیسے بس یہی جانتے ہیں کہ کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا جس میں تکلیف یا پریشانی سہنا ہی نصیب ہو گا۔ حتیٰ کہ انبیا علیھم السلام اور کسی مذہب کی برگزیدہ ترین ہستیوں کے تذکرے میں بھی اکثر ایسے ہی واقعات کا ہی حوالہ ملتا ہے اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم اگر تکلیف اٹھا رہے ہیں تو اچھا ہی ہو رہا ہے-

اب آئیے ایک اور طرف۔ نظریات ہوتے ہیں نظریہ نہیں لیکن ایک نظریہ کو نظریات کی کائنات یا شاید کائناتوں میں با التشدید نہیں بلتشدد شامل رکھنے پر مصر رکھا جائے تو صرف حیرانی نہیں ہونی چاہیے بلکہ سوال کرنے اور پرزور طریقے سے اسی شدت کے یقین کے ساتھ سوال کرنے کی تحریک بھی ہونی چاہیے۔ مگر ہاں میں نے تو ابھی مذہب کا تذکرہ بھی بیچ میں شامل کر دیا۔ پھر تو سوال کرنے کی خواہش پیدا ہونے میں ہی مشکل کا شکار نظر آنے لگ جاتی ہے۔ چلیئے ایک لحظے کو ہم مذہب کا حوالہ ذرا ہٹا کر سوچتے ہیں۔ صرف سوچنے کا لکھ نہیں رہا واقعی سوچنے کا کہ رہا ہوں۔ کیا سوال یا کوئی اور رخ محبّت دیکھنے کی جسارت پیدا ہوئی۔ ارے کہاں. محبّت تو خود ہم نے ایک مذہب کی طرح مستنبط کرنے کی ٹھانی ہوتی ہے جس میں پریشانی اٹھانا اور ایسا سب کچھ کم از کم کسی نہ کسی مقام پر لازم ہے اور ایسا کرنے میں فخر حاصل ہوتا ہے کہ دیکھا قیس میاں آپ ہی نہیں ہیں، یہاں کمی نہیں ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ یہ غلط العوام جیسی ہی بات ہو گئی ہے جس کا تذکرہ جوش ملیح آبادی نے اپنی سوانح عمری میں ایسی ہی غلطیوں کے بارے میں کسی کے تاثرات بیان کرتے ہوے کیا ہے۔ محبّت اور عشق میں تو تکمیل اور ہمیشہ کے ساتھ کے بارے میں ہی سوچا جاتا ہے نہ؟ تو کیا شروع سے ہی سوچ لیا جائے کے اگر قیس دیوانہ ہوا اور اس نے بالفرض پتھر تک کھاے تو ایسا ہونا ہی معراج محبّت ہے۔ میں میراج طیارے یا سراب کی بات نہیں کر رہا، محبّت و عشق کی آخری منزل کی بات کر رہا ہوں۔ ہاں تو مذہب کو ہم نے ذرا سا بحث سے ہٹایا تھا۔ حقیقی معراج جو جناب محمد صل اللہ علیھ وسلم کو نصیب ہوئی اور جسے مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق عشق حقیقی کی وہ منزل سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بعد قرب اور حصول کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی ہو یعنی قاب قوسین یا اس سے بھی کم فاصلہ اور پھر اذان جب بھی سنی جائے تو ایک عام دعا کہ آپ صل الله علیھ وسلّم کو وسیلہ، فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود تک پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور بیشک تو یعنی الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ یعنی اس کے بعد بھی مزید قرب، درجات اور ایک اور ہی مقام کی بات ہے اور اس میں کہیں کوئی تکلیف نہیں بلکہ حصول اور اطمینان کی وہ منازل ہیں جن کے بارے میں کوئی جان بھی نہیں سکتا۔ یہ بالکل مت کہئے گا کہ شعب ابی طالب اور طائف جیسی مشکلات بھی تو رہی تھیں۔ یہ جان لیجئے کہ محمّد صل اللھ علیہ وسلّم نے کبھی ان کا تذکرہ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی حکمت عملی کو بدل کر عمر رضی الله عنہ جیسے بارعب شخص کو مانگا اور اسکے بعد مڑ کر نہیں دیکھا۔ مشکلات ہی سہتے رہنے کو معیار بنایا ہی نہیں بلکہ یثرب کو مدینہ طیبہ بنا دیا اور پھر بغیر ہتھیار استعمال کئے مکہ فتح کر لیا اور اس کے ساتھ ہی معراج جیسی بات اور مزید جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ ایسے ہی کچھ صحابیوں نے تکالیف سہیں مگر پتہ چلتے ہی انہیں مشکلات سے نکالنے کے لئے جنگ جیسے وعدے لے لئے گئے۔ کیا ہم محبّت کے معامله میں اب ان ہستیوں کے مقام پر بحث کرینگے؟ حسین رضی الله عنہ کی بات مت کیجیے گا کیونکہ ان نے کچھ خاص وجوہات کی بنیاد پر خود انتخاب کیا حالانکہ وہ بہت آرام سے رہ سکتے تھے۔ وہ ایک ہی حسین تھے جنہوں نے یہ راستہ چن لیا اور کسی اورکو ایسا امتحان دینا پڑ ہی نہیں سکتا اس لئے ان کا حوالہ صرف زبردستی دکھ ہی کو اختیار کئے رہنے یامحبّت کے سلسلہ میں اس کا شکار بنے رہنے کے شوق کا ہی اظہار کرتا ہے۔ ہم جو دلیل بھی دے لیں معراج اور پھر مسلسل دعا سے برتر اسلام میں بھی کوئی مثال ثابت نہیں ہے-

امرتا پریتم نے بھی کہ دیا ہم نے بھی امین کہنے کا سوچ ہی لیا مگر یہ سوال کون کرے گا کہ کیا نوع انسانی کے بدترین دشمن یعنی شیطان نے صرف ایک ہی زاویے کو معتبر و اعلی بناہے کے لئے ہی تو ایسے واقعیات اور اساطیری کہانیوں کے ساتھ عشق کی فرضی کہانیاں جہاں فرہاد یا قیس کا وجود ہی ثابت کرنا جوے شیر لانے کے برابر ہے، مشہور تو نہیں کر دیے۔ چلے شیطان کے ساتھ ساتھ ہر وقت میں پاے جانے والے ایسے لوگ جو معاشرے میں اپنے اصولوں اور اپنی آسانیوں کی برتری کسی بھی قیمت پر رکھنا چاہتے رہے ہیں اور ان کے نزدیک اربوں ڈالر جنگ میں لگا کر پیسے کمانا اور حالات ٹھیک کرنا ممکن ہے بہ نسبت اسی ملک میں ان تمام ممالک کا اجتماعی جنگی خرچ عوام کی فلاح کے لئے لگا کر اس ملک میں ہمدردیاں اور وہاں جنگجوؤں کا مزید پیدا نہ ہونا ممکن بنانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ جن کے نزدیک مشال خان کو قائل کرنے کی نسبت کئی خاموش مشال جو گمراہ ہو بھی سکتے ہیں، پیدا کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے یا جو کاری قرار دے کر اپنی رشتہ کی بہن سے جنسی زیادتی میں ناکامی کا بدلہ بہیمانہ طریقے سے قتل کر کے لینا افضل تر سمجھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے زیادہ تر ضعیف ترین روایات پر یقین کر کے وہ زاویے ہی فراموش کر دیے ہیں جو موجود ہیں اور حقیقت وہی ہیں جبکہ وہاں اس شجر کے سینچنے پر غور و فکر کرنے والے چند ہی ہوش مند ہیں یا چلئے دل کو خوش رکھنے کو انہیں دیوانہ کہ دیتے ہیں مگر وہ دیوانے نہیں حقیقی محبّت کے داعی ہیں۔ سوچ نہ بھی پائیں ان کے بازو بنئے، یقین رکھیں خیر اور آسانیاں ہی نصیب ہوں گی-

مرزا تموجن خان
Latest posts by مرزا تموجن خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).