مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چند شریر یادیں


ایک اور قہقہہ لگا۔ ہم نے کریدنے کی خاطر پوچھا کہ“مرشد! آپ کی کتابوں میں سے کون سی آپ کے دل کے بہت نزدیک ہے؟ “
آنکھوں میں شرارت بھری چمک لیے بولے کہ ”کتابوں کی تو خبر نہیں البتہ کچھ چہرے ضرور دل کے نزدیک ہیں جن کا نام لینے میں ہمیں تکلّف ہے“۔

جملے کی داد دیجے، صاحبو! ایسے جملے بولنے والے اب ایک ہاتھ کی ایک انگلی پر گنے جاسکتے ہیں۔ یوسفی کے معاملے میں ہم ایک سے آگے کی گنتی کے قائل نہیں کیونکہ ان کا کوئی ثانی ہے ہی نہیں۔
ہم نے سگِ زار کا ذکر چھیڑا کہ ماشا اللہ سے بہت صحت مند، چوکس اور ہوشیار کتا ہے۔ اللہ نظرِ بد اور مست ماداؤں سے بچائے۔
سوچ میں پڑ گئے۔ پھر فرمایا: ”ایک فرانسیسی ادیبہ کا قول ہے کہ مَیں مردوں کو جتنا قریب سے دیکھتی ہوں، اتنا ہی مجھے کتے اچھے لگتے ہیں“

اس سے پہلے کہ ہمارا فلک شگاف قہقہہ ان کی سماعت پر گراں گزرتا، بولے: ”مرزا کے ایک دوست ہیں جو کتیا کو کتیا نہیں کہتے، ازراہِ احترام و عقیدت فی میل (Female) کہتے ہیں۔ مرزا کو جب سے اس بات کی خبر ہوئی ہے وہ بھی احتیاطاً اپنی بیگم کو فی میل کہنے لگے ہیں“۔

بلند بانگ قہقہے ذرا تھمے تو یوسفی پینترا بدل کر عنبر سے پوچھنے لگے“ آپ کہاں ہوتی ہیں؟ اور کیا شغل فرماتی ہیں؟ “
عنبر نے بتایا کہ ”ہم کراچی ہی میں ہوتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں“۔ نسیان کے باعث یوسفی بار بار بھول جاتے تھے کہ وہ عنبر سے یہ سوال پہلے پوچھ چکے ہیں لہٰذا اگلے ڈھائی گھنٹے میں بہت معصومیت سے بہتیری بار یہ سوال پوچھا اور ہر بار عنبر نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اور تو اور ”لچّے“ والے جملے سے بھی ہم بارہا شاد کام ہوئے اور یوسفی کے انداز و ادا کچھ ایسے شاداب ہیں کہ ہربار پہلے سے زیادہ ہنسی آئی۔

ایک بار تو ہم نے جی کڑا کر کے پوچھ ہی لیا کہ ”مرشد! جس لڑکی نے آپ کو لچا کہا، آپ اس پر برہم نہیں ہوئے؟ “
معصوم سی شکل بنا کر کہنے لگے: ”نہیں، میاں! کہتی تو وہ ٹھیک ہی تھی“

پھر کمرے کے اطراف و اکناف پر ایک یوسفیانہ نظر ڈال کر بولے کہ ” وہ سامنے راجھستانی آرٹ کے دو نایاب نمونے ہیں۔ راجھستانی راجہ اور رانی کی ایسی انوکھی شبیہیں جو منّے منّے موتیوں سے بنائی گئی ہیں۔ ہماری کتاب آبِ گم کا ہندی میں ترجمہ ہوا۔ پبلشر موصوف ہم سے ملنے آئے تو کہنے لگے کہ یوسفی صاحب! رقم کی صورت میں نذرانہ تو ہم دے نہیں پائیں گے سو یہ دو نادر پینٹگز نذر ہیں۔ گر قبول افتد وغیرہ۔ سو ہم نے رکھ لیں کہ ”نہیں جو مال میسر، مصوّری ہی سہی۔“

ہم نے قریب سے جاکر مصوری کے وہ شاہکار دیکھے۔ واقعی شاہکار تھے۔ واپس آکر صوفے پر بیٹھے تو یوسفی کہنے لگے کہ ”آئل پینٹنگ اور ادھیڑ عمر عورت دور ہی سے دیکھنے پر اچھی لگتی ہیں“

ہم اس جملے کی ادھیڑ بن میں گم تھے کہ عنبر نے پوچھ لیا کہ ”یوسفی صاحب! آج کل آپ انٹرویو دیتے ہیں کیا؟ “
بولے: ”کچھ دن قبل ایک محترمہ انٹرویو لینے آ دھمکیں۔ پہلا سوال ہی یہ کیا کہ یوسفی صاحب! آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟ ہم نے کہا: بی بی! ابھی تو آپ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں اور یہ مطالبہ؟ “
ہنس ہنسا چکنے کے بعد ہماری باری تھی کچھ کہنے اور (کھری کھری) سننے کی۔ سو ہم نے پوچھ لیا کہ آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

کہنے لگے کہ ”میاں! انسان اس وقت تک کلچرڈ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی ہی کمپنی سے محظوظ ہونا نہ سیکھ لے۔ ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال“
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ ”مرشد! آپ ہی نے لکھا ہے کہ کلچرڈ آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ مارلین منرو کے سراپا کی گولائیوں کو ہاتھ ہلائے بغیر بیان کرسکے“۔
کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اتنے میں عنبر نے پوچھا کہ ”یوسفی صاحب! پھلوں میں کیا پسند ہے؟ “

بولے: ”ڈرائی فروٹ۔ خاص کر نکاح کا چھوارا۔ ویسے تو مونگ پھلی بھی پسند ہے مگر مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے“
تھوڑا سا ہنس ہنسا کر بولے: ”بھئی آجکل مونگ پھلی پھانکنے کا وقت کس کے پاس؟ اب تو کمپیوٹرائزڈ تیزرفتار دور ہے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ ایک اچھا جملہ تین چار دن تک نہال اور سرشار کیے رکھتا ہے“

ڈیڑھ گھنٹے کی لذت آمیز و قہقہہ آور گفتگو کے بعد ہم اور عنبر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اٹھنے کے اشارے کرنے لگے کہ یوسفی زیادہ دیر بیٹھ کر کہیں تھک نہ جائیں سو ہمیں چلنا چاھئے اب۔
یہی بات ان سے کہی تو بولے: ”بھئی جانے کا کوئی اور بہانہ تلاش کرو“
عنبر بولیں کہ ”یوسفی صاحب! ہم تو جانے کا نام نہیں لیں گے۔ آپ ہی کی تھکان کا خیال ہے“
جواب میں عنبر سے کہنے لگے: ”بھئی آپ کی قمیص بہت خوبصورت ہے۔ (پھر ہلکے سے توقف کے ساتھ) اب ہم قمیص سے دھیرے دھیرے شمال کی جانب جائیں گے۔ (ھلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ) یہ قمیص اتنی خوبصورت ہے کہ ہمارا بھی ایسے کپڑے پہننے کو دل چاہ رہا ہے“۔

یوسفی اب مکمل چارج ہوچکے تھے۔ عنبر نے پوچھا کہ ”اپنی کمپنی انجوائے کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ “
بولے: ”ایسے دوست بنائیے اور ایسی کتابیں پڑھیے کہ جو آپ کو سوچنے کی تحریک دیں“
عنبر بولیں ”اور اگر ایسے دوست نہ ہوں تو؟ “
”ایسی حالت میں عام طور سے لڑکیاں شادی کرلیتی ہیں“

حسیب بھائی کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ ہم نے کہنی سے ٹہوکا دیا کہ کچھ کہیے تو کہنے لگے کہ ”یوسفی صاحب! ہم نے اور عنبر نے شادی تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا“
یوسفی بولے: ”پرانے زمانے میں بھی دلہا دلہن کو ایک دوسرے کے چہرے آئینے میں دکھانے کی رسم (آرسی مصحف) نکاح کے بعد ہوا کرتی تھی۔ نکاح سے پہلے چہرے دکھانے میں کسی ایک یا دونوں فریقوں کے بدکنے اور نکاح کینسل ہوجانے کا ڈر تھا“

ہم نے ہنستے ہوئے کہا“ حالانکہ آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ نکاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“
کہنے لگے: ” بھئی ہمارے ہاں کراچی میں مردِ مومن کو مردِ میمن کہا جاتا ہے“
باتوں باتوں میں انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا اور زبیدہ آپا کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ”زبیدہ آپا کو دال بگھارنے کی رائلٹی ملتی ہےجبکہ ہمیں شیخی بگھارنے کی“

قہقہے لگ چکے تو ہم نے پوچھا کہ ”آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟ “
ھلکے سے تبسم کے ساتھ فرمایا: ”انگریزی ادب زیرِ مطالعہ ہے۔ کیونکہ اردو کا فکشن اور بیشتر ناول ایسے ہیں کہ بندہ بیوی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا“
حسیب بھائی دوبارہ گفتگو میں تشریف لائے: یوسفی صاحب! آپ کو کونسا موسم اچھا لگتا ہے؟ “
فرمایا: ”اپنے اندر کا موسم۔ اس سے جڑ جائیں تو باہر کی گرمی سردی کی کیا فکر! “

پھر عنبر سے کہنے لگے: ”اقبال کا مصرعہ ہے کہ گوہرِ تابدار کو اور بھی تابدار کر۔ اس میں آپ گوہر کے لفظ کو شوہر سے بدل کر اپنے شوہر کو سنا سکتی ہیں“
ھر ہر جملہ ایسا تھا کہ قربان جائیے۔ ہم نے پوچھا کہ ”آپ نے اپنی تمام تصنیفات میں کھانے پینے کا بہت ذکر کیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ “
کہنے لگے: ”لڑکپن اور جوانی میں جب بدمعاشی کے تمام ذرائع بزرگوں نے بند کردیے تو کھانا پینا ہی بچا تھا“

عنبر نے موقع دیکھ کر کہا کہ ”فارس! بہت باکمال شاعر بھی ہیں“
ہمیں دیکھ کر کہنے لگے: ”میاں! کچھ ہوجائے پھر؟ “

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3