عاصمہ جہانگیر: اترگئے کئی منزلوں کے چہرے، میر کیا کارواں گیا ہے


کفن چور صف آرا ہیں۔یہ ایک سفاک قبیلہ ہے۔ عین اس وقت کہ جب جنازے کے لیے صفیں ترتیب پارہی ہوتی ہیں یہ آکر تابوت کو لات مار دیتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی ، روتھ فاو اور جنید جمشید کی مرقد ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہیں تو یہ تربت کس قبرستان کی ہے جس میں عاصمہ جہانگیر کا جسدِ خاکی اترنے والا ہے۔

پاکستانی تاریخ کے پنوں میں درست سمت کا اندازہ لگانا ہو تو دو کام کر لیجیے۔ عاصمہ جہانگیر کی زندگی کا ایک ایک ورق پڑھ لیجیے اور عاصمہ کے مخالف لشکر میں شامل ایک ایک گروہ پہ نگاہ ڈال لیجیے۔ جس طرح خدا نے جماعت اسلامی کو سیاست کی دنیا میں کبھی درست سمت میں کھڑے ہونے کی توفیق نہیں دی، عاصمہ جہانگیر کو غلط سمت میں جانے کی اجازت نہیں دی۔ سید مودودی زندہ تھے تو جماعت نے ایک بار درست سمت کا انتخاب بھی کرلیا تھا، مگر عاصمہ جہانگیر نے غلط سمت کا انتخاب ایک بار بھی نہیں کیا۔ عاصمہ جہانگیر ملک غلام جیلانی کی بیٹی تھیں۔ جوبنگلہ دیش میں جاری مظالم کے خلاف لاہور کے مال روڈ پہ تنہا بینر اٹھائے کھڑے تھے۔ ان کی اٹھارہ سالہ بیٹی عاصمہ جہانگیر تنہا پٹیشن اٹھائے جنرل یحیی خان کے مقابل کھڑی تھی۔ کسے کہ کشتہ ناشد از قبیلہ مانیست ۔ اقتدار کی پالکی میں پاوں لٹکائے جرنیل کو عدالت سے غاصب قرار دلوانے کے لیے عمر و سال نہیں چاہیئے ہوتا، عاصمہ جہانگیر کا بانکپن چاہیئے۔

جب میں اور آپ نہیں ہوں گے، عاصمہ جہانگیر نصابوں میں ہوں گی۔استاد پڑھایا کریں گے کہ عاصمہ جہانگیر کا لغوی معنی ہے اصول۔ اور اصطلاحی معنی ہے نتیجے پہ پہنچا ہوا ذہن۔ ہمیں جمہوریت کا درس دینے والے بھی کیسے کیسے ملے۔ ضیا الحق کو گالی دینے والوں نے کہا تھا کہ ہم آمریت کے خلاف تھے۔ مگر جنرل مشرف نے روشن خیالی کا خیمہ گاڑھا توسخن وروں کے لشکر سامنے تھے۔ جنرل مشرف کو گالی دینے والوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم جمہوریت کا احیا چاہتے ہیں۔ مگر یہی تھے جو جنرل ضیا کو زمین پر خدا کی آخری نشانی کہتے تھے۔ اس بیچ ایک سبق عاصمہ جہانگیر نے ہمیں پڑھایا ۔ آمر کی آمریت سے اختلاف اس کے ذاتی رجحانات نہیں ہوتے۔ آمر کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ وہ آمر ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ جنرل ضیا خدا کے منتخب خلیفہ ہیں۔مگرعاصمہ جہانگیر کا سوا ل یہ تھا کہ عوام کے حق انتخاب کو مسترد کرنے والا خدا کیسے ہوسکتا ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ جنرل مشرف روشن خیالی کا استعارہ ہیں۔ مگرعاصمہ جہانگیر کا سوال یہ تھا کہ منتخب نمائندے کی کنپٹی پر بندوق رکھنے والا روشن خیال کیسے ہوسکتا ہے۔ عاصمہ نے کتنا سچ کہا ۔ اقتدار کے سنگھاسن سے اتر کر برج الخلیفہ پہنچنے والے جرنیل نے ابھی پچھلے دنوں ہی ارشاد کیا “حافظ سعید میرا پسندیدہ رہنما ہےاور میں اس سے ملتا بھی رہا ہوں”۔ روشن خیالی کا یہ مظہر اللہ اللہ !

عاصمہ جہانگیر کی قبر ابھی کھدی نہیں ہے کہ جمعراتیے پہنچ گئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں دل نکال کے ان کی ہتھیلی پہ رکھ دیا جائے۔ یہ جانچ کرکے بتائیں گے کہ خدا اس میں آباد تھا کہ نہیں۔ شکر بھیجنا چاہیئے کہ یہ دل ان کی ہتھیلی پہ دھرنا ممکن نہیں ہے۔ عاصمہ کے نہان خانہِ دل میں نصف صدی تک بسیرا کیے ہوئے درد نے شرمندہ کردیا تو کہاں جائیں گے۔درد کا خمیر عشق سے اٹھتا ہے۔اساں عشق دا کلمہ پڑھ بیٹھے۔ عشق کی آنکھ بڑی ہوتی ہے۔ انسانیت سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسان کی حرمت پر وہ عقیدے کو ترجیح نہیں دیتا۔ معرفت کا یہ رمزاس دل پہ نہیں کھلتا جو قرآن خوانی کی فیس لیتا ہے۔ اسی دل پہ کھلتا ہے جو مہمند ایجنسی کی ایک مسجد کے پیش امام سے اس کے گمشدہ بیٹے کے کیس کی فیس نہیں لیتا ۔ جب فلسطین کے مسلمانوں کی لاشیں بینروں پر لگا کر خداوندانِ منبر ومحراب ووٹ سمیٹ رہے ہوتے تھے ، تب عاصمہ جہانگیر دن بھر اسرائیلی مظالم کے خلاف ثبوت وشواہد اکٹھے کرتیں اور رات بھر رپورٹ لکھ رہی ہوتی تھیں۔جب عطیے میں ملنے والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں گھومنے والے مجاہدین کشمیر کے نام پر سادہ طبعیت ماوں کو اور ان کے معصوم بچوں کو ورغلارہے تھے تب عاصمہ جہانگیر بھارتی مظالم کے دستاویزی ثبوت اقوام متحدہ کے حوالے کرنے جارہی تھیں۔جب مذہبی خیراتی ادارےعافیہ صدیقی کے نام پر چندہ مانگ رہے تھے ، تب عاصمہ جہانگیر عافیہ صدیقی کے لیے پہلی پٹیشن فائل کرنے جارہی تھیں۔ اس پٹیشن میں استعمال ہونے والا قلم، قلم کی روشنائی، ورق ، ورق کا لفافہ کچھ بھی تو مانگے تانگے کا نہیں تھا۔جب حرم کے رکھوالے عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن کے ساتھ اپنے کارکنوں کے لیے فوٹو سیشن کر رہے تھے تب عاصمہ جہانگیر عدالت میں قابض جرنیل سے پوچھ رہی تھیں کہ عافیہ کا معصوم بیٹا کہاں ہے۔ جب پاکستان کے سب سے بڑے دینی ادارے بنوری ٹاون نے ایم اے جناح روڈ پر قتل ہونے والے دوغریب طالب علموں اور مولانا زرولی خان نے مارے جانے والے اپنے چار طالب علموں کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا، تب عاصمہ جہانگیر دارالعلوم سرحد کے لاپتہ ہونے والے دو غریب طلبا کو پشاور اور سوات کے تفتیشی مراکز میں ڈھونڈ رہی تھیں۔ جب مجاہدین فی سبیل اللہ لاہور کے مال روڈ اور کراچی کی یونیورسٹی روڈ پر اسامہ بن لادن کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کر رہے تھے تب عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ کے وکلا کو بتارہی تھیں کہ اسامہ کے اہل خانہ کو زیرحراست رکھنا بین الاقوامی قانونِ انسانیت کی خلاف ورزی ہے۔ سپاہ صحابہ حرکۃ المجاہدین کے قائدین جس وقت جنوبی پنجاب کی روتی ہوئی ماوں کو بتارہے تھے کہ تمہارے بچے راہ خدا میں ماے گئے ہیں اور خدا اس کے بدلے تمہارے خاندان کے ستر افراد کو بہشت میں داخل کرے گا، اس لمحے عاصمہ جہانگیر انہی “شہید” بچوں کو ایک طویل قانونی جدو جہد کے نتیجے میں سیکیورٹی اداروں سے بازیاب کرواکر سپریم کورٹ میں پیش کررہی تھیں۔ ملک اسحق کے ماورائے عدالت قتل پر جب سپاہ صحابہ کی قیادت نے فون بند کر دیے تھے، تب عاصمہ جہانگیر اخبار نویسوں کو سمجھا رہی تھیں کہ ماوارئے عدالت قتل ملک اسحق کا ہی کیوں نہ ہو، غلط ہوتا ہے۔افغان جہاد کے نام پر باجوڑ، بٹ خیلہ، سوات، مینگورہ اور شانگلہ کی غریب ماوں بہنوں کا زیور اتروانے والے اُس عاصمہ جہانگیر کو گالی دے رہے ہیں جس نے اسی باوجوڑ بٹ خیلہ سوات مینگورہ اور شانگلہ کی انہی ماوں کے گمشدہ بچوں کے کیسز بغیر معاوضے کے لڑے۔ جوماوں سے بچے چھین رہے تھے ان کا اصرار ہے کہ ماوں کو بچے واپس دلانے والی عاصمہ پر انہیں فضیلت دی جائے ۔ صرف اس لیے کہ یہ خوش عقیدہ مسلمان ہیں۔ فضیلت تو کجا، کوئی تقابل بھی نہیں بنتا صاحب !

یہ ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر مسلمان نہیں تھیں۔ بھئی مسلمان کیا، وہ تو سیاست دان بھی نہیں تھیں۔ عاصمہ جہانگیر آزاد فضا میں ہواوں کی مخالف سمت میں اڑان بھرنے والی آزاد دانش ور تھیں۔ دانشوری خود کو اپنے لکھے اور کہے میں سجانے کا نام نہیں ہے۔یہ کہے اور لکھے کو جینے کا نام ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے جو کہا ہے اس کو جیا ہے۔ سول بالادستی کے لیے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑی تھیں، مگرباوجود پیشکش کے کبھی کوئی سرکاری منصب نہیں لیا۔میاں نواز شریف منہ بھر کے گالی دیتے تھے ۔مگر آج جاتے جاتے عاصمہ جہانگیر نے انہیں بھی گوارا کیا۔نوے کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر کا “سچ” مسلم لیگ کے لیے ملک دشمنی تھا۔ وقت آن پڑا تو اسی مسلم لیگ نے عاصمہ جہانگیر کے “سچ” میں جاکر پناہ لی۔ایم کیو ایم کی جب بھی زبان کھلی عاصمہ جہانگیر بے طرح برسی۔ زبان بندی کا عرصہ آیا تو عاصمہ جہانگیر کے سوا کسی نے خبر نہ لی۔ ابلاغ کے جن مراکز نے عاصمہ جہانگیر کے دوپٹے پہ خون تھوکا، سر پہ پڑی تو انہی کا دوپٹہ سر پہ باندھ کروہ میدان میں اترے۔

اس ملک میں اشرافیہ دراصل ہے کون؟ جاننا ہو تو دیکھ لیجیے کہ طاقت کے کون سے مراکز نے عاصمہ کو غدار باور کروایا۔ کل اشرافیہ کے ساتھ کون کھڑے تھے، آج اشرافیہ کے ساتھ کون کھڑاے ہیں؟ جاننا ہو تو دیکھ لیجیے کہ کل عاصمہ جہانگیر کو گالی کون دے رہے تھے آج عاصمہ جہانگیر کو گالی کون دے رہے ہیں۔ کون ہے جو اشرافیہ کے ساتھ کل بھی کھڑا تھا اور آج بھی کھڑا ہے۔ جاننا ہو تو دیکھ لیجیے کہ کون ہے جو عاصمہ جہانگیر کو کل بھی گالی دے رہا تھا آج بھی دے رہا ہے۔ اگلے وقتوں میں اشرافیہ کا منحرف کون ہوگا۔ جاننا ہو تو دھیان رکھیے گا کہ کون عاصمہ جہانگیر کو پاکستان کا تابناک ماضی اور مستقبل کے لیے مشعل راہ قرار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوگا، اور ایسا کب ہوگا؟

جب آپ کی رائے کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر لائن ڈراپ کی جائے گی، جب آپ کو غدار باور کرواکر تنہا کردیا جائے گا،جب آپ کے ووٹ کو بوٹ تلے مسل دیا جائے گا،جب آپ کے بچے کو دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلے میں ماردیا جائے گا،جب سردخانہ لاش آپ کےحوالے نہیں کرے گا،جب آپ کو قانونی چارہ جوئی سمجھ نہیں آرہی ہوگی، جب آپ کے پاس وکیل کی فیس بھی نہیں ہوگی، جب آپ کے جذبات کو زبان نہیں ملے گی، جب ریاست آپ کا عقیدہ دیکھ کر آپ سے برتاو کرے گی،جب آئین میں آپ کو اقلیت کہا جائے گا،جب ریاست آپ پر شناخت مسلط کرے گی، جب قانون آپ کا علاقہ دیکھ کر انصاف کرے گا،جب جج ثبوت وشواہد کی بجائے عوامی دباو میں آپ کے خلاف فیصلہ سنائے گا،جب اخبار نویس آپ کا فون نہیں اٹھائے گا، جب آپ کہیں گے میں گستاخ رسول نہیں ہوں اور لوگ پتھر برسائے جائیں گے،جب آپ رات کی خاموشی میں اپنا ملک چھوڑیں گے، جب ، آپ لاپتہ کردیے جائیں گے، جب لامکان میں بنائی گئی کسی اندھیری کال کوٹھری میں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرا قصور کیا ہے، ،جب سلامت مسیح آپ کو بھٹی میں جلادے گا، جب آپ شاگرد ہوں گے جسے استاد اپنا حق سمجھ کر مار دے گا،جب آپ استاد ہوں گے جسے شاگرد گستاخ کہہ کر قتل کردے گا، جب آپ نابینا صفیہ بی بی ہوں گی اور عدالت آپ سے آپ ہی سے ہونے والی زیادتی کا ثبوت مانگے گی، جب سوائے حاملہ ہونے کے اور کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالت آپ کو جیل بھیج دے گی،جب آپ بی بی رحمت ہوں گی جس کی گواہی کو آدھا کہہ کر مسترد کردیا جائے گا، جب آپ بیٹی ہوں گی جس پر رشتہ مسلط کیا جائے گا ،جب آپ بہن ہوں گی جس کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے ،جب آپ بہو ہوں گی جس کو زبردستی طلاق دلوادی جائے گی، جب آپ بیوی ہوں گی جس پر شوہر شرعی حق سمجھ کرہاتھ اٹھائے گا،جب آپ غزہ کے شہری ہوں گے اور اسرائیل خوراک کی رسد بند کردے گا، جب آپ عراقی ہوں گے اور بی باون طیارے آپ کے علاقے مسمار کر رہے ہوں گے،جب آپ بنگالی ہوں گے اور آپ پر فو ج کشی ہو رہی ہوگی، جب آپ بلوچ ہوں گے اور ہیلی کاپٹرسے آپ کی لاش پھینکی جائے گی، جب آپ مہاجر ہوں گے اور آپ کا ب فارم مسترد کردیا جائے گا، جب آپ ہزارہ ہوں گے اور شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کردیا جائے گا، جب آپ پختون ہوں گے اور آپ کے حجرے میں لاشیں رکھی ہوں گی جنہیں میڈیا دہشت گرد کہہ رہا ہوگا،جب آپ فاٹا کے شہری ہوں گے اور پنجاب حکومت آپ کی پروفائلنگ کررہی ہوگی،جب آپ چیخیں گے اور آواز کمرے سے باہر نہیں جائے گی، جب آپ دلیل دیں گے اور مسترد کردی جائے گی اور تھک ہار کے جب آپ کہیں گے کہ بولتے کیوں نہیں میرے حق میں، تب آپ کو عاصمہ جہانگیر بہت یاد آئے گی۔

اگر ایسے میں بھی عاصمہ جہانگیر یاد نہ آئے تو سمجھ جائیے گا کہ مظلوم ہوکربھی آپ اپنے ہی خلاف کھڑے ہیں۔ کیونکہ آپ کسی بھی منظر کو زینب کے والد کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ ایک نعت خواں مسلمان کبھی ریپ نہیں کرسکتا اور ایک احمدی جج کبھی انصاف نہیں کرسکتا۔ آپ منظر کو عاصمہ جہانگیر کی آنکھ سے نہیں دیکھ رہے۔ جن کا یقین تھا کہ علم و اخلاق پر عقیدے کا کوئی اجارہ نہیں ہوتا اور ظلم وعدل کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).