اقوام متحدہ قومی موومنٹ


جب ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنی جماعت میں اختلافات کو بھائیوں اور گھر کا معاملہ قرار دیا تو ان جیسے معصوم لوگوں نے سمجھا کہ یہ واقعی کوئی عام سا گھریلو تنازعہ ہے، جیسے شادی کے موقع پر تصویر کھنچوانے کے لیے نہ بلانے پر پھوپھی کا ناراض ہوجانا، ولیمے میں تائی کا یہ کہہ کر روٹھ جانا کہ ”اے لو، وِن کے ہاں تو کسی نے سیدھے منہہ بات بھی نہیں کی“، سوئم کی بریانی میں بوٹی نہ ملنے پر خالو کا اینٹھ جانا، بھیا کے ہونٹوں سے بھاوج کے حلوے کی تعریف سُن کر نند کا منہہ پُھلانا۔ قصور لوگوں کا بھی نہیں، ایم کیوایم میں جس طرح ہر ایک بھائی اور باجی ہے، بات بات پر نین چھم چھم برسنے لگتے ہیں اور لپٹ لپٹ کے رونے کے دلہن کی رخصتی جیسے مناظر سامنے آتے ہیں، انھیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت نہیں برادری کی پنچایت ہے۔ چناں چہ اس ٹبر کی تقسیم کے نتیجے میں نوگوایریا بنیں، اپنا مار کے سائے میں ڈالنے کے بہ جائے بوری میں ڈالے، جوتے چلیں یا جوتیوں میں دال بٹے، ساجھے کی ہنڈیا بہادرآباد کی چورنگی پر پھوٹے اور رشتے دار ایک دوسرے پر پھٹ پڑیں تو ہر ایک بڑی حیرانی سے جون ایلیا کا یہ مصرعہ پڑھتا ہےیہی ہوتا ہے خاندان میں کیا۔

دوسری طرف جو حضرات ایم کیوایم کے داخلی انتشار کو بھائیوں کا معاملہ کہنے پر معترض ہیں انھیں فاروق ستار کی بات پر یقین کرنا چاہیے کہ واقعی یہ بھائیوں کا معاملہ ہے۔ ایسے لوگ شاید بھائی بندی کی تاریخ سے واقف نہیں، ورنہ ڈاکٹرفاروق ستار کے اسے دشمنی کہنے پر بھی ایم کیوایم میں ٹھن جانے کو بھائیوں ہی کا معاملہ کہتے۔

ایم کیوایم میں شروع دن سے بھائی چارہ رہا ہے۔ اس جماعت میں غرض اور مفاد کے لیے کسی بھی بھائی کو چارہ بنالینے کی روایت ہے۔ اور جب صورت حال خطرناک ہوجائے تو ”بھائی“ کو بھی گھاس نہیں ڈالی جاتی۔ یہاں برادران یوسف کا قصہ باربار دہرایا گیا ہے، بس اس فرق کے ساتھ کہ ”یوسف“ کو کنویں میں نہیں پھینکا گیا، بل کہ بھائی خود بھیڑیا بن کر اسے کھاگئے، اور پھر بھیڑ بنے اس کی موت پر بھیں بھیں بین کرتے رہے۔

برادران یوسف کی روایت کے ساتھ بادشاہوں کی حکایت بھی یاد رہنی چاہیے۔ ہماری تاریخ میں بادشاہی کی خواہش ہو تو قصائی بن کر بھائی کا خون بہانا لازم تھا۔ شہزادوں میں سے کم زور بھائی کی بھلائی اسی میں ہوتی تھی کہ وہ بادشاہ کی وفات کے فوراً بعد اپنی مدد آپ کے تحت آسان موت مرجائے، ورنہ وہ لاکھ ”چھوڑ دو، بھائی نئیں ہو“ کہتا رہے، بھائی اسے سب سے بڑی بُرائی سمجھ کر بے دردی سے مٹا دیا کرتا تھا۔

ایم کیوایم والے بھائیوں نے تعمیراتی، خیراتی، بلدیاتی اور بھتیاتی مدوں میں کھانے کمانے کے بعد بیرون ملک کھسک لینے کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ ”مہاجر“ رہنا چاہتے ہیں اس لیے اپنے اہل خانہ کو ملک سے باہر بھجوادیتے ہیں اور خود بھی کم ازکم عارضی ہجرتیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس چلن کو دیکھتے ہوئے ان بھائیوں پر یہ مشہور کہاوت چسپاں نہیں کی جاسکتی کہ ”قصائی بھائی کس کے، کھایا پیا کھسکے۔ “ صرف قصائی کے لفظ سے غلط مشابہت دینے کی ضرورت نہیں، یہ بھائی کھسک ضرور جاتے ہیں، لیکن مزید کھانے کے لیے واپس بھی آجاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے یہ تحریکی سبق اچھی طرح پڑھ رکھا ہے، ”اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ۔ ؟ گے (تو کیوں کہ لوٹ مار نہ کرپاؤ۔ ؟ گے، اس لیے) خاک ہوجاؤ۔ ؟ گے، افسانوں میں ڈھل جاؤ۔ ؟ گے۔ “

فارسی کا ایک محاورہ ہے”سگ باش، برادرِخورد مباش“، یعنی کُتے بن جاؤ ، چھوٹے بھائی نہ بنو۔ یوں لگتا ہے کہ یہ محاورہ ایم کیوایم کو دیکھ کر ایجاد ہوا، کیوں کہ اس جماعت میں ”بڑے بھائی“ نے چھوٹے بھائیوں سے کچھ ایسا ہی سلوک کیا کہ وہ بھائی کے علاوہ کچھ بھی بننے پر تیار ہوگئے اور رو رو کر، ہاتھ جوڑ کر، دست دعا دراز کرکے کہہ اُٹھےاب جو کیے ہو داتا ایسا نہ کیجو، اگلے جنم موہے ”بھیا“ نہ کیجو۔

ارے سب چھوڑیے، ایک قوالی میں بیان کردہ یہ حقیقت تو آپ مانتے ہی ہیں ناں کہ ”سب مسلماں ایک ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ “ اور اس بھائی بندی کے مظاہرے افغانستان اور پاکستان سے یمن، عراق اور شام تک ہم سارے بندے دیکھ ہی رہے ہیں۔ پھر ایم کیوایم والوں کے آپس میں بھائی ہونے پر کیا شبہہ رہ جاتا ہے؟

کسے نہیں پتا کہ ایم کیو ایم مظلوموں کی جماعت ہے، اپنے اس دعوے کا ثبوت وہ مظلوموں کی تعداد بڑھا کے دیتی رہی ہے، ہم بھی شوہر، ملازمت پیشہ اور کراچی کے شہری ہونے کی وجہ سے خود کو مظلوم برادری کا حصہ سمجھتے ہیں، چناں چہ ”بھائی لوگ“ کا ہر غم ہمارا غم ہے۔ ہم بھی ان کے ہر بہی خواہ کی طرح چاہتے ہیں کہ وہ باہمی یا بھائی میاں اختلافات ختم کردیں، جس کے لیے ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں، امید ہے کہ ایم کیوایم کے بھائی اسے برادرانہ مشورہ ہی سمجھیں گے۔

بھئی کیوں نہ یہ کیا جائے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا نام ”اقوام متحدہ قومی موومنٹ“ رکھ دیں۔ جس طرح اقوام متحدہ میں اسرائیل، فلسطین، پاکستان اور بھارت، جیسے ایک دوسرے سے دانت کانٹے کا بیر رکھنے والے فریق ایک ساتھ ہیں، اسی طرح اقوام متحدہ قومی موومنٹ کو بھی ایم کیوایم کی ”اقوام“ کا ادارہ بنا دیا جائے۔
ایم کیوایم کا نام ”مخالفت قومی موومنٹ“ رکھ دیا جائے۔ اس طرح آپس کی سرپھٹول اور اختلافات کو جواز مل جائے گا۔
بہادرآباد صوبہ اور پی آئی بی صوبہ بنانے کی تحریک چلائی جائے، تاکہ دونوں گروپ اپنے اپنے صوبے سے سینیٹ کی اپنی اپنی نشستیں حاصل کرلیں۔

فاروق بھائی کو حیدرآباد کی ”بمباٹ“ کے چند گھونٹ (ان کے لیے اتنی خوراک ہی کافی ہوگی) پلادیے جائےں، تاکہ وہ بھی خودکُش تقریر کرکے قیادت، خطابت اور سیاست سے محروم ہوجائیں۔
فاروق بھائی بالمشافہ کے بہ جائے صرف ٹیلی فون پر کارکنوں اور عوام سے خطاب کریں، تقریر کرتے ہوئے ہر لفظ کو شیطان کی آنت کی طرح کھینچیں، لفظوں کی کان پکا دینے اور دماغ سڑا دینے والی تکرار کریں، اور خطاب کے دوران گانا اور ڈانس کرنا نہ بھولیں، اس طرح ان کی بات میں وہ اثر پیدا ہوگا کہ کامران ٹیسوری تو کیا وہ راؤانوار کو بھی ٹکٹ دیں گے تو سارے بھائی سر جھکا کر فیصلہ مان لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).