ایم کیو ایم کے بارے میں سائیں جی ایم سید کی پیش گوئی


ایم کیو ایم پاکستان ہو یا لندن، حقیقی ہو یا پھر پاک سز زمیں پارٹی، ان سب کے قبلے تو الگ ہو سکتے ہیں مگر منزل ایک ہی ہے کہ اردو بولنے والوں کی ترجمانی کر کے سیاست میں اپنا نام اور پیسہ بنایا جا سکے۔ ایم کیو ایم ملک کی واحد سیاسی جماعت نہیں جو لسانی بنیادوں پر سیاست کرتی ہے مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کی وہ واحد سیاسی جماعت ضرور ہے جس کو جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کا آشیر باد حاصل ہونے کے بعد اس کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوا اور وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں اتنی مظبوط ہو گئی کہ اپنے بنانے والے آقاؤں کو بھی آنکھ دکھانی لگی۔

ایم کیو ایم کئی نشیب فراز دیکھنے کے بعد بظاہر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئی نظر آئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان گروپ کے اختلافات میں شدت کو دیکھتے ہوئے یہ لگ رہا ہے کہ اب ایم کیو ایم کا خاتمہ ہو نے جا رہا ہے مگر ایم کیو ایم کی سیاست اور قبلہ تبدیل کرنے پر نظر رکھنے والے راوی ابھی بھی چین لکھتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے، ایم کیو ایم کبھی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوگی کیوں کہ جس طرح انہوں نے ایم کیو ایم کو بچانے کے لیے اپنے مائی باپ قائد الطاف حسین سے علحیدگی کا اعلان کر کے اپنے لیے راستہ نکال کر ایم کیو ایم کو دودھ سے دھلوا لیا تھا اس طرح اب بھی وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔ کچھ لوگ تو ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اختلافات کو ایک طے شدہ اسکرپٹ کا نام دے رہے ہیں کہ جس طرح الطاف حسین کو پارٹی سے نکالا گیا تھا اب اس کے لیے پارٹی میں شمولیت کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح سارے ندی نالے اور دریا جا کے سمندر میں جا ملتے ہیں اسی طرح ایم کیو ایم کے کارکنان اور قائدین کے سمندر الطاف حسین ہیں۔

یاد رہے کہ آفاق حسین، الطاف حسین اور عامر خان کسی دور میں ایک جان ہوا کرتے تھے بعد میں کچھ احتلافات کی بنا پر آفاق اور عامر نے ایم کیو ایم حقیقی بنا ڈالی اور جب عامر خان جیل میں تھے انہوں نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی بیعت کی اور ایم کیو ایم الطاف میں شامل ہوگئے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان ایم این ایز، ایم پی ایز یہ مانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا سربراہ تو کوئی بھی یو سکتا ہے مگر قائد ایک ہی ہے۔ الطاف حسین کے خطابات بھلے پاکستانی میڈیا پر بند ہوں مگر ابھی بھی سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ ایم کیو ایم کے ماضی اور حال پر بوری بند لاشوں، بھتہ خوری، دہشت گردی اور غداری کے کتنے بھی الزامات ہوں مگر یہ سب کو پتہ ہے کہ سیاسی اور فوجی حکومتیں اپنی حکومتوں کو طول دینے کے لیے ایم کیو ایم کو حب الوطنی اور ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ دیتی رہی ہیں۔ ایم کیو ایم وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اور مختلف حکومتوں کا حصہ بن کر اب اتنی مضبوط ہو چکی ہے جس کا خاتمہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

ہم سب نے ایم کیو ایم کو اردو بولنے والوں مہاجروں کی جماعت کے نام پر ابھرنے میں مدد کی ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی جب انہوں نے الطاف حسیں کو لیاقت میڈیل کالج اور لاڑکانہ کے ٹینک چوک پر کلاشنکوف سے سلامی دے کر اور اجرک پہنا کر سندھ کے سچے سپوت کا درجہ دیا تھا۔ جئے سندھ کے ایک دیرینہ کارکن نے چاچا حفیظ قریشی اور سائیں جی ایم سید کے شہر سن سے اپنی سیاست کی شروعات کی تھی۔ بقول اس کارکن کے، سائیں جی ایم سید سندھی اور اردو بولنے والے سندھ کے مستقل رہائشیوں کے اتحاد کے سب سے بڑے حامی تھی۔ اور یہ 80 کی دھائی کا دور تھا جب ایم کیو ایم کے بلدیاتی اتنخابات میں جیت پر جئے سندھ اور ایم کیو ایم نے اکٹھے جشن منائے تھے۔ بقول جئے سندھ کے پرانے کارکن کہ سائیں جی ایم سید نے مہاجروں اور سندھیوں کے اتحاد کی ناکامی پر اس وقت پیش گوئی کر دی تھی کہ ایم کیو ایم کے تین دھڑے ہونگے ایک مستقل طور پر سندھیوں کے ساتھ امن سے رہے گا دوسرا سندھیوں کی مخالفت کرے گا اور تیسرا ملک سے چلا جائے گا۔

تمام قومی سیاست کرنے والی جماعتیں بھی ایم کیو ایم کے ساتھ اس بات میں برابر کی شریک ہیں جنہوں نے سندھ میں اردو بولنے والے لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا اور ان کی احساس محرومی بڑھنے دی اور ایم کیو ایم نے اس احساس محرومی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور یہ باور کرایا کہ ایم کیو ایم ہی پاکستان کی واحد جماعت ہے جو اردو بولنے والے مہاجروں کی احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس جو تنظیمی ڈھانچہ اور رابطے کا نظام ہے شاید ہی وہ پاکستان کی کسی دوسری جماعت کے پاس ہو۔ اس وقت ایم کیو ایم کے پاس پیسہ بھی ہے اور طاقت بھی۔ ایم کیو ایم کی تھنک ٹنیک کو بھی پتہ ہے کہ ایم کیو ایم کی سپورٹ کے بغیر ملک میں کوئی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت نہیں بن سکتی اس لیے ایم کیو ایم صحیح وقت اور موقع کے انتظار میں ہے جیسے ہی وہ اس کو مل جائے گا وہ دوبارہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ ملک میں اردو بولنے والوں کے نام پر سیاست کرتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).