ایک بار، بارسلونا


پیرینی کے پہاڑوں میں سورج ڈھلنے لگا۔ یورپ کے پہاڑ اور وادیاں ایک منفرد امتزاج تھا۔ ہسپانوی پلاؤ (پائیلہ) نے پیٹ کی بھوک تو مٹا دی تھی مگر جہاں گرد کے دل کی پیاس بھلا کہاں بجھنے کو تھی۔ بارسلونا تک کا سفر چار گھنٹے کا تھا۔ میں نے کیتھرین سے کہا، ہمیں کون سی جلدی ہے، چار گھنٹے کا سفر اگر چھے آٹھ گھنٹے میں بھی کیا جائے تو سفر کا لطف ہی بڑھے گا اور ہم قدرت اور انسان کی تخلیقات کا نظارہ بھی کرتے چلے جائیں گے۔ پیرینی پہاڑ اور جگہ جگہ ان کے درمیان بسی سرسبز وادیاں اور آڑی ترچھی سڑکوں پر دوڑتی ہماری سرخ کار۔ ہم یورپ کی ایک چھوٹی اور دنیا کی ایک قدیم ترین ریاست انڈورا کو چند منٹوں میں عبور کرکے دوبارہ سپین میں داخل ہوگئے۔

ریاست بدلی، مگر سرزمین نہیں بدلی۔ بَل کھاتی سڑک پر آہستہ ڈرائیونگ کا جو لطف آتا ہے، وہ بھلا تیز رفتاری میں کہاں۔ گاڑی میں جپسی کنگ، نورجہاں کے پنجابی گیت، ترک گلوکار ابراہیم تتلشی اور بربرموسیقی میں شہرت پانے والے الجزائری گلوکار شب خالد کی دل پذیر آوازوں اور سازوں میں قدرت کا حُسن دوبالا ہوگیا۔ جہان جہان کی موسیقی سننا میری کس قدر کمزوری ہے، اس سے وہ دوست بخوبی آشنا ہیں جو کبھی کبھی میرے ہمسفر بننے کی ’’سعادت‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ درجنوں نہیں سینکڑوں دوست مجھ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہمسفر بناؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ اُن میں سے ایک فیصد بھی ایسی جہاں گردی کے امتحان میں کامیاب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مجھ جیسے جہاں گردوں کے سفروں کو تحریر میں پڑھنا آسان مگر جہان جہان گرد اٹھانا بہت مشکل ہے۔ خصوصاً پردیس میں۔ اور یہ ایک یوٹوپیائی خواہش ہے ہر حوالے سے۔ میں نے کبھی کبھی تجربہ کیا کہ اپنے بدیسی سفر میں کسی دوست کو ہمسفر بنانے کا، زیادہ لوگ اس کٹھن امتحان میں ناکام ہوئے۔ کیتھرین کامیاب ہمسفر تو تھی ہی، شان دار ڈرائیور بھی ثابت ہوئی۔ سفر مشترکہ اور ایندھن میں شراکت داری۔ اسے کہتے ہیں، اشتراکیت۔

مکانوں کی چھتوں پر کیتالونیا کے جھنڈے اس بات کا ثبوت تھے کہ کیتالونین اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ ہینی بال (تقریباً 247 قبل مسیح تا 181 قبل مسیح ) کی فوج میں شامل ہاتھی اپنے سوار حملہ آوروں کو ان پہاڑوں تک لے آئے۔ مشرق کا یہ سپہ سالار فنیقی تہذیب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس تہذیب کا مرکزی شہر صور تھا جو آج بھی لبنانیوں کے لیے شہرفخر کہلاتا ہے۔ اس شہر میں سکندراعظم کو سب سے بڑی مزاحمت کرنا پڑی۔ تیونس میں جنم لینے والا مشرق کا یہ سپہ سالار ہینی بال، بحیرۂ روم کے گرد پھیلے خطوں کا ہی نامور فاتح نہیں بلکہ اس کی ہاتھیوں پر مشتمل افواج نے پیرینی کے پہاڑ عبور کرکے اٹلی تک اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔ لبنانی آج بھی اپنے فنیقی ہونے پر نازاں ہیں، اُن کی قوم پرستی میں عرب اور فنیقی فخر رچا بسا ہے۔

پیرینی کی وادیوں میں بھاگتی ہماری سرخ کار، بربر موسیقی اور میری تاریخ میں لپٹی گفتگو۔ کیتھرین نے کہا کہ کاش یہ جہاں گردی کبھی ختم نہ ہو۔ کیتھرین کو معلوم تھا کہ فرخ کچھ ہی دیر بعد سرپرائز دے گا۔ گاڑی میں ہم دونوں کے سامنے سپین کا نقشہ کھلا تھا اور اِن راہوں کو بہت پہلے نقشے پر نشان زد کرچکا تھا۔ کیتھرین سمجھ گئی کہ جلد ہی کسی مقام پر میں اُسے کہوں گاکہ آؤ دیکھو میرا سپین۔ ہمیں انڈورا سے نکلے آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔ میں نے کیتھرین کو کہا کہ گاڑی کی رفتار آہستہ رکھو اور ہم تقریباً چالیس منٹ بعد اس جہان کے ایک مزید خوب صورت گاؤں کو دیکھیں گے۔ خدا کو منظور ہوا تو سورج کو ڈھلتا وہیں پر دیکھیں گے۔ اس نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا، لگتا ہے تم پہلے اس سڑک پر انہی راستوں پر سفر کرچکے ہو۔ میں نے کہا، ہاں سفر تو کیا ہے مگر صرف نقشوں پر لکیریں ڈالتے، قصبات، مقامات اور شہروں کو کچی پنسل سے نشان زد کرنے کی حد تک۔

جب کوئی آبادی آتی تو سب سے قابل دید منظر وہ ہوتا، جب پیرینی کے پہاڑوں کی وادیوں میں رہنے والے ان کسانوں کا جو اپنے دیہات کی گلیوں، چوراہوں اور گھروں کے باہر بیٹھے شام گئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان میں زیادہ تعداد عمررسیدہ مردوں اور عورتوں کی تھی۔ انہیں کہتے ہیں خوش اور خوش حال قومیں، محنت، خوشی اور زندگی کو منانا Celebrate کرنا اِن پر ختم ہے۔ ابھی سورج کی کرنیں وادیوں کا نظارہ بے نقاب کررہی تھیں۔ اسی کے ساتھ میں نے کیسٹ پلیئر کی آواز بلند کردی۔
بری بری امام بری
میری کھوٹی قسمت کرو کھری

نورجہاں کی دھمک دار پُرسوز آواز پیرینی کی وادیوں میں بَل کھاتی ہوئی چھوٹی سی شاہراہ پر دوڑتی کار کی کھڑکیاں کھلی ہونے کے سبب اس سے باہر گونجنے لگی۔ کیتھرین بے تاب تھی یہ جاننے کے لیے کہ ہم دو جہاں گردوں کا کارواں، بارسلونا سے پہلے کہاں پڑاؤ لے گا۔ رات تک ہمیں بارسلونا بھی پہنچنا تھا۔ دائیں بائیں، پہاڑوں کے اندر دوڑتی کار کو اب تقریباً ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ میں نے اپنے نقشے پر نشان زد مقام کا سڑک پر نیون سائن گزرنے کے چند لمحوں بعد کیتھرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، Coll de Nargó دو کلومیٹر۔ میری اناؤنسمنٹ کے ٹھیک ایک ڈیڑھ منٹ بعد ہم ایک جنت نظیر نظارہ کررہے تھے۔ کول ڈی نارگو کا چھوٹا سا گاؤں۔ آدھا وادی کے اندر اور آدھا ایک چٹان کی طرح ابھری پہاڑی کے اوپر۔ سورج ابھی ڈھلا نہیں تھا۔ کیسٹ پلیئر بند کردیا۔ خاموشی کا اپنا حُسن ہوتا ہے۔ اور جب قدرت کا نظارہ اس قدر حسین ہوتو پھر آوازیں اس حُسن کو مسخ کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ کار کی رفتار کم ہونے لگی۔ کیتھرین اس چھوٹے سے گاؤں اور وادی کے حُسن پر جہاں خوش تھی، وہیں فرانس یا یورپ کا باسی ہونے پر نادم بھی تھی کہ ایک پردیسی اس کو یہاں لے آیا۔

’’دیکھو کیتھرین، یہ ہے میرا سپین۔ اس کی آخری منزل غرناطہ ہوگی۔ ‘‘ یہ درحقیقت میرے سفرنامہ سپین کے سکرپٹ کی ابتدا تھی۔ خاموش اور حسین گاؤں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ گاؤں کی وادی میں اترنے سے پہلے پہاڑی پر واقع گاؤں کے آدھے حصے تک پہنچیں اور وہیں سے سورج کو ڈوبتے دیکھیں۔

صدیوں پرانے مکانات اور وہیں پر ایک گیارھویں صدی کا گرجا گھر۔ متعدد عمارتیں جو پتھروں کو چن کر بنائی گئی تھیں، ابھی تک موجود تھیں۔ چند سو، شاید دوسو سے بھی کم لوگوں کی اس بستی، جس پرمیں نے استنبول سے لیے سپین کے نقشے پر اپنے قلم سے سرخ نشان لگالیا تھا۔
کیتھرین تو قدرت اور انسانوں کی اس تخلیق پر ہکابکا تھی اور میں خوشی سے جھوم رہاتھا۔

ہم دونوں نے کول ڈی نارگو کی پہاڑی سے سورج کو ڈھلتے دیکھا اور یوں یہ نظارہ میرے دل ودماغ کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ اس وادی کو ہسپانوی زبان میں Segreکہتے ہیں۔ پیرینی کے مختلف چشموں سے آنے والا پانی اس وادی کے ارد گرد ایسے جمع ہوجاتا ہے جیسے قدرتی سوئمنگ پول۔ گرمیوں میں دن بھر سیاح پتھروں سے پھسل کر اس آتے اس پانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اِن چشموں کے نیلے پانی پر جھلملاتی ڈھلتے سورج کی کرنیں اس کے حُسن کو جِلا بخشنے لگیں۔ یورپ میں رات دیر گئے پھیلتی ہے۔ مگر وادی کے اندر اس بستی میں اندھیرا پہاڑوں کے سایوں کے سبب جلد اترنے لگا۔ گاؤں کی روشنیاں ایک کے بعد ایک جلنے لگیں اور ہم پہاڑی پر واقع آبادی سے وادی کے دل میں موجود گاؤں میں اترنے لگے۔
اب بتاؤ کیتھرین، کیسا ہے سپین!

کیتھرین کے پاس ’’بے مثال، بے مثال‘‘ کہنے کے سوا اور کوئی لفظ ہی نہ تھے۔ شہر کی ایک گلی میں گاڑی پارک کی تاکہ انڈے اور ٹماٹر خرید لیے جائیں کیوں کہ ہم نے رات گئے انجانے بارسلونا پہنچنا تھا۔ ایک ہسپانوی خاتون اپنے گھر کے باہر سبزی بیچ رہی تھی، یقینا وہ سبزی جو اسی کے گھر زمین کے کسی چھوٹے سے قطعے پر اُگی ہوگی۔ سبزی اور انڈے لیے اور کیتھرین سے کہا، اب تمہاری ڈرائیونگ کی تیزرفتاری دیکھتے ہیں۔
کول ڈی نارگو سے نکلنے کے بعد ہمیں بڑی شاہراہ پر جلد پہنچنا تھا۔ سات آٹھ منٹ کے بعد ہم ایک بڑی شاہراہ پر تھے اور ہمارا رخ بطرفِ بارسلونا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).