عمران خان کیوں ہارے؟


تحریک انصاف 1996 میں بنی اور شروع میں اسے ٹھیک ٹھاک ٹف ٹائم دیکھنا پڑا۔ عمران خان کو نیشنل اسمبلی میں ایک سیٹ حاصل کرنے کے لیے جتنا عرصہ لگا وہ ٹیسٹ کرکٹ سے بھی زیادہ سلو سیاست والا معاملہ تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اتنے برسوں کی محنت ٹھکانے لگی اور چند نئے دوست انہیں 2013 کا الیکشن جتا گئے۔ وہ وکٹری سٹینڈ کے دوسرے پائیدان پر تھے اور اس وقت پوری قوم کے جوان، بوڑھے، بچے، عورتیں سب ان پہ واری صدقے ہوا کرتے تھے۔ ٹھیک بولیں تو وہ ٹائم ان کا ایسا تھا جیسے اردو محاورے میں کسی کے سر پہ ہما بیٹھتا ہے۔ اپنی سیاست کے بہترین وقت میں انہوں نے خیبر پختونخواہ میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی اور مرکز میں اپوزیشن کے طور پر جانے گئے۔ یہ شاہ محمود بیٹھے ہیں، یہ جاوید ہاشمی ہیں، یہ جہانگیر ترین، یہ اسد عمر۔ عمران خان اس وقت ٹھیک ٹھاک سیاسی وزن رکھتے تھے۔ اگر شروع کے دو تین برس وہ اپنی مقبولیت کا وہی معیار قائم رکھ پاتے تو شاید آج کراچی تک میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس کامیابی کے فوراً بعد ان کا زوال اس طرح شروع ہوا کہ نہ انہیں خبر ہوئی نہ دیکھنے والے کو سمجھ آتی تھی لیکن آج 2018 میں بیٹھ کے اگر ان کی تمام ترجیحات کی ٹائم لائن دیکھی جائے تو سب کچھ سامنے آتا جائے گا۔ وہ چونکہ سیاسی بیک گراؤنڈ سے نہیں آئے تھے، کھلاڑی تھے، ایک مشہور نوجوان رہ چکے تھے تو شاید انہیں آئیڈیا نہیں تھا کہ میچ جیتنے، شرط جیتنے اور الیکشن جیتنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ الیکشن جیت کر تو بابا اصل میچ شروع ہوتا ہے جو وہ آج تک نہیں کر پائے۔ اپنی فتح کے بعد بھی دھاندلی کا شور مچانے میں انہیں ایسا مزا آیا کہ اس وقت تک وہی کام کیے جا رہے ہیں۔ وہی لفظ، وہی الزامات، وہی طعنے تشنے اور وہی عمران خان جو 2013 میں تھے۔ اپنا پہلا الیکشن جیتنے کے بعد ایک سیاسی پارٹی عام طور پہ اگلے الیکشن کے لیے راستہ بناتی ہے، ترقیاتی کام کرتی ہے، لابنگ کرتی ہے، عمران خان تو خیبر پختونخواہ کی سیٹ ہی چھوڑ کر سائیڈ پہ ہو گئے تھے۔ اگلا الیکشن اور اس میں کامیابی وہ کس طریقے سے فور سی کر رہے تھے، یا اس بارے میں کبھی انہوں نے سوچا ہی نہیں، یہ بات ہمیں کوئی باہر سے آ کے نہیں بتائے گا، خود ان کی سیاست کا رخ ہی اس بات کا اعلان کرتا ہے۔

وہ بار بار کہتے تھے کہ تحریک انصاف نوجوانوں کی پارٹی ہے، کدھر ہیں نوجوان؟ کتنے جوانوں کو پارٹی ٹکٹ ملے اور کتنوں نے الیکشن لڑا؟ سوائے جہانگیر ترین والے کیس میں کہ جہاں ان کے صاحبزادے کو ایک واضح مجبوری کے تحت ٹکٹ دیا گیا اور تیس ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کیا عمران خان کا سحر انگیز تاثر یوتھ پر سے ختم ہو گیا ہے؟ بھائی دیکھیے وہ اس وقت ختم ہو گیا تھا جب پرجوش نوجوان سردی گرمی سے بے پرواہ ان کے اشاروں پہ دھرنے میں ناچتے تھے، بڑی تبدیلی کی امید میں بیٹھتے تھے اور ایک ڈراؤنی صبح ان کو اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ اے پیا جے دھرنا، اے گیا جے لیڈر۔ دھرنے کے دوران امپائر کی انگلی کا اشارہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جو میڈیا اور نوجوانوں میں ان کی شہرت کو گہن لگانے کا سبب بنا۔ وہ اسی امید پہ تاریخیں بڑھاتے رہے، لوگوں کو لٹکاتے رہے اور پرجوش نوجوان اپنے لیڈر کے ایک اشارے کے منتظر وہاں بیٹھے سوکھتے رہے۔ جب یہ سب اپنے عروج پہ تھا تو پشاور میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ ہو گیا۔ آج بھی ان کے حامی کبھی نہیں مانیں گے لیکن جو صوبہ ان کی گورنمنٹ کا تھا وہاں امن و امان قائم رکھنا اور باقی ترجیحات میں فرق کرنا شاید وہ کبھی نہیں جان پائے۔ پنجاب اور مرکز کے پیچھے دوڑتے رہنا کے پی میں ان کی شہرت کو متاثر کر گیا۔ اے پی ایس کے تھوڑے ہی عرصے بعد جب ابھی دھرنے اور اس سانحے کی یادیں دھندلائی تک نہیں تھیں ان کی شادی کا معاملہ سامنے آ گیا۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت یہ کہتے ہوئے کنارہ کش ہو گئی کہ ہماری دن رات کی قربانیاں کیا اس نتیجے کے لیے تھیں؟

پینتیس پنکچر والا معاملہ اور الیکشن کمیشن پہ مسلسل دھاندلی کا الزام لگاتے رہنا اپنی ذات میں ایک الگ وجہ تھی جو لوگوں کو ان کی پارٹی سے دور کرنے کا سبب بنی۔ وسی بابے نے ٹھیک کہا تھا کہ ووٹر لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جسے وہ تگڑا مانتے ہوں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہو کہ وہ ان کے مسئلے حل کرے گا۔ جو بندہ خود سارا سال دوسروں پہ مقدمے دھرتا رہے کہ تم نے یہ کیا تم نے وہ کیا، ووٹر بیچارہ کس طرح امید رکھے گا کہ ایسا لیڈر کبھی ان کے مسئلے بھی حل کروا سکتا ہے؟ تو دوسروں کے خلاف حد سے زیادہ باتیں کر کے وہ اپنے طاقتور ہونے کا امیج بھی خود ہی تباہ کر چکے ہیں۔

پانامہ کیس میں نواز شریف کو معزول کروا دینا شاید ان کی ڈریم وکٹری تھی لیکن پرنالہ تو بھائی اب بھی وہیں بہہ رہا ہے! کیا ضمنی الیکشن والے دن لوگ انہیں اس لیے ووٹ ڈالنے آتے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم کو اپنی سیٹ سے اتروا دیا تھا؟ یا لوگ انہیں اس لیے ووٹ دیتے کہ وہ مولانا طاہر القادری کے ساتھ بھی اتحاد اتحاد کھیلتے رہے؟ یا ان کے امیدوار کو اس لیے ووٹ دیا جاتا کہ انہوں نے آصف علی زرداری کے ساتھ سٹیج شئیر نہیں کیا؟ یا پھر علی ترین کو اس لیے ووٹ دیا جاتا کہ ان کا لیڈر موروثی سیاست ختم کرنے کا نعرہ مارتے مارتے خود اسی راستے پہ چل پڑا ہے؟ لوگ انہیں منتخب کرتے ہیں جو نظر آتے ہوں کہ حکومت میں آئے تو کچھ کر سکیں گے۔ لوگوں کے مسئلے حل کر سکتے ہوں گے۔ شور مچانے کے بجائے اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کروا سکیں گے۔ اور کچھ نہیں تو اپنے سپورٹروں کے تھانے کچہریوں کے رپھڑ مینیج کر سکتے ہوں گے، ادھر کیا ہے بجز اک نام نامی کے؟

اب ٹریک بدلنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اگلے الیکشنوں کی ہلکی پھلکی جھلک عام آدمی بڑی آسانی سے ان ضمنیوں میں دیکھ سکتا ہے۔ اس وقت بھی پنجاب میں تحریک انصاف دوسری پاپولر موسٹ جماعت ہے، خیبر پختونخواہ میں کیا معاملہ ہوتا ہے یہ اگلی ٹرم میں سامنے آ جائے گا۔ فی الوقت جو حالات ہیں، سندھ اور خیبر پختونخواہ سے تحریک انصاف کو ٹھیک ٹھاک ڈینٹ پڑنے کی امید ہے، پنجاب میں حسب سابق نمبر ٹو رہیں گے، بلوچستان میں بھی کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہیں آتی تو اگلے الیکشن میں ہو گا کیا؟

لبیک تحریک سے ہاتھ ملانا شاید تحریک انصاف کے لیے پنجاب میں چند سیٹیں جیتنے کا آپشن بنا سکے لیکن یہ اتنا رسکی اتحاد ہو گا کہ پی ٹی آئی کا رہا سہا ووٹر بھی شاید بھاگ جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان مذہبی جماعتوں سے پلیٹ فارم شئیر کرتے ہوئے اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنا انہیں کوئی بھی روایتی سیاسی جماعت کھلتی ہے۔

الیکشن سے چند ماہ پہلے اس قسم کی ہار کا ایک محرک ایسا بھی ہے جس پہ بندہ کھل کے اس لیے بات نہیں کر سکتا کہ وہ بہرحال عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کیس میں ہر دو بار پارٹی اس طرح انوالو ہوئی کہ لیڈر کی شادی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں پارٹی لیٹر ہیڈ پہ وضاحتی بیان آئے، قریبی ساتھیوں نے بیان دیے، تو معاملہ نیم سیاسی نیم ذاتی ہو کے رہ گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حالیہ غیر متوقع غیر تصدیق شدہ شادی والی خبر تو شاید پرانی ہو جائے لیکن ریحام خان اپنے کارڈ تھوڑی تھوڑی دیر میں پھینکتی رہیں گی۔ الیکشن کے بعد بھی اگر یہ دو معاملے کسی طرح سیٹل ہو جائیں تو شاید سونامی آ سکے، نہیں ہوتے تو چھوٹی موٹی بوندا باندی پہ گزارا کیجیے اور راہ زن کو دعا دیجیے کہ چوری کا کھٹکا غتربود ہو گیا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain