عاصمہ جہانگیر کی موت آئینہ دکھا رہی ہے


نفسیات میرا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی میں اس پر قلم اٹھانے کا اہل ہوں۔ میں صرف اذیت میں ہوں اور اپنی اذیت میں آپ لوگوں کو شامل کرنا چاہ رہا ہوں۔ میری اذیت کا سبب یہ احساس ہے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ہمارے روئیے ناقابل تصور حد تک غیر متوقع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

گیارہ فروری 2018 کا سورج پاکستان کے لیے اچھی خبروں کے ساتھ طلوع نہیں ہوا۔ پہلے پاکستان کے کہنہ مشق اداکار قاضی واجد کی وفات کی اطلاع نشر ہوئی۔ ابھی اس خبر کا یقین ہی نہ ہو پایا تھا کہ دس منٹ کے اندر اندر عاصمہ جہانگیر کی وفات کی خبر ٹی چینلز پر چلنا شروع ہو گئی۔ یہ دونوں خبریں نہایت افسوس ناک تھیں۔ قاضی واجد کی وفات کی خبر عاصمہ جہانگیر کی وفات کے خبر کے ملبے تلے دب کر منظر عام سے تقریباً غائب ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر کی اچانک وفات بہت سوں کو ہلا کر رکھ گئی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی وفات ایک قومی سانحہ ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

عاصمہ جہانگیر کی وفات پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جب بھی انسانی حقوق کی بات ہو گی اس میں سر فہرست عاصمہ جہانگیر کا نام ہو گا۔ پاکستان میں جب بھی جمہوریت کی بات ہو گی اس میں عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد ایک روشن باب کے طور پر بیان کی جائے گی۔ عاصمہ جہانگیر نے وکالت، انسانی حقوق اور جمہوری جد وجہد کے راستوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان پر بے شمار لوگ لکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ مگر ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو عاصمہ جہانگیر کی وفات پر رسمی افسوس بھی کرنے کی توفیق نہیں پا رہے۔ بلکہ عاصمہ جہانگیر کے کردار، اعمال اور افکار پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں ان کو خیال نہیں آتا کہ “دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجنا وی مر جانا۔” اگر خدانخواستہ ان کو اپنی کسی انتہائی قریبی عزیز کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑے اور لوگ بجائے متوفی کی تعزیت کرنے اور محاسن بیان کرنے کے، دشنام طرازی اور کردار کشی پر اتر آئیں تو ان پر کیا بیتے گی۔ اس کا تصور ہی تکلیف دہ ہے۔

ہم کسی بھی انسان کے بارے میں عموماً تین اوصاف کی بنیاد پراندازہ قائم کرتے ہیں۔ پہلا کردار، دوسرا الفاظ اور تیسرا اعمال۔ کسی کے کردار کا تعین کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہمارے شب و روز اس کے ساتھ گذر رہے ہوں یا گذرے ہوئے ہوں اور ہم اس کے کردار کے عینی گواہ ہوں تب کہیں جا کر ہم کسی کے کردار کے بارے میں فتویٰ جاری کر سکتے ہیں۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم اس بنیادی اصول کر فراموش کرتے ہوئے سنی سنائی کی بنیاد پر کسی کے بھی کردار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں اور ہمارے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں آتی۔ ایسے میں اگر کوئی بھلا مانس ہمیں غلط اور صحیح کا فرق سمجھانے کی کوشش کرے تو ہماری آنکھیں اور زبان شعلے اگلنے لگتی ہیں اور جذبات کا الاؤ اس بری طرح بھڑکتا ہے کہ عقل وخرد بھی گھبرا کر داغ مفارقت دے جاتی ہے۔ ہمارے لیے وہی درست ہے جسے ہم درست سمجھتے ہیں۔ باقی سب جائیں بھاڑ میں۔

جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے تو ہمارے ملک کے لوگوں کو بین السطور میں بات کرنے کا ازحد شوق ہے۔ ہماری نوے فیصد آبادی جو کچھ کہتی ہے اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا جسے وہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ چناچہ جب ہم کسی کے کہے ہوئے یا لکھے ہوئے الفاظ کی بنیاد پر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو اکثر اوقات مایوسی کا سامنا کرتا پڑتا ہے کیوں کہ جو کچھ ہم سمجھ بیٹھتے ہیں دراصل ویسا ہوتا نہیں ہے۔ ہمارے بولنے اور لکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والے ذہانت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہیں چناچہ ہمارے الفاظ کی گہرائی تک وہ خود پہنچ جائیں گے اور بالکل وہی نتیجہ اور مطالب اخذ کریں گے جو کہ ہم استعاروں میں بیان کر رہے ہیں۔ درحقیقت ہوتا کچھ ایسے ہے کہ سننے اور پڑھنے والے اپنی عامیانہ ذہنی استعداد کے مطابق اپنی مرضی کے مطالب اور نتائج اخذ کر لیتے ہیں اور اس کے بعد ان کا پرجوش ابلاغ بھی شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں شخصی بت عقیدت کے انتہائی درجوں پر بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ جب کبھی یہ بت عقیدت کی بلندی سے گر کر پاش پاش ہوتے ہیں تو معتقدین کا اعتبار نہ صرف ان شخصیات بلکہ تمام اچھی باتوں سے بھی اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد آتے ہیں اعمال۔ ایک بہت مشہور اور مختصر حدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یعنی جس کی نیت اچھی ہو گی اس کے اعمال اچھے ہوں گے اور جس کے اعمال برے ہوں گے اس کی نیت اچھی نہ ہو گی۔ ہم کسی کو اس کے اعمال کی بنیاد پر بھی پرکھتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہم لوگ برے کاموں کا دفاع یہ کہ کر کرتے ہیں کہ کرنے والے کی نیت تو ٹھیک تھی آگے اللہ کی مرضی۔ اور اگر کوئی اچھا کام کرے تو ہم اچھے کام کی پیچھے اچھی نیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہم اچھے اعمال کرنے والے کو غدار، کافر اور نامعلوم کس کس پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے جو منفی بحث شروع ہو گئی ہے اس میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نہ تو کبھی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ رہے۔ نہ ہی عاصمہ جہانگیر کے دو ٹوک الفاظ اور مؤقف لینے کی صلاحیت سےمکمل طور پر آشنا ہیں اور نہ ہی ان کے ان اعمال سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں جنہوں نے عاصمہ جہانگیر کو صحیح معنوں میں عاصمہ جہانگیر کے مرتبے پر فائز کیا۔ چناچہ وہ بغیر علم رکھے وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو کہ ایک مہذب قوم کے افراد کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔ اسی طرح عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والے بھی اسی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےفکری مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ دونوں طرف سے تلواریں میان سے باہر ہیں اور لفظی گولہ باری سے ایک دوسرے کو گھائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں عاصمہ جہانگیر کا غم اور دکھ نہیں منایا جا رہا بلکہ مخالفین کو کچل دینے کی جنگ چل رہی ہے۔

ایک محاورہ ہے کہ چاند کا تھوکا منہ پر آتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے لائق ہے ہے کہ چاند تھوک کا بدلہ تھوک کر نہیں دیتا بلکہ بلندی پر بیٹھ کرتھوکنے والوں کی بےبسی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں عاصمہ جہانگیر نے بھی یہی صفت اپنائی رکھی۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے وہ دھن کی پکی اپنے کام سے مخلصی کے ساتھ انصاف کرتی رہتی تھی۔ جب ہم کسی کو اس کے کردار، افکار اور اعمال کی بنیاد پر نہیں پرکھ پاتے تو پھر ہم اپنی کم ظرفی ، کمتری اور فطری گھٹیا پن کی روشنی میں دوسروں کو پرکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آئینے میں ہمیشہ اپنا ہی عکس دکھتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی موت بھی ایک آئینہ بن کر سب کو ان کے اپنے کردار، افکار اور اعمال کا آئینہ دکھا رہی ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad