حشر گلفشانی کا بہرہ پن


حشر گلفشانی: بہو! ہر وقت گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہو، کبھی آرام بھی کر لیا کرو۔
سلمیٰ: آرام کہاں ابا جی! میرے لئے گھر کے کاموں کی فراوانی ہے۔
حشر گلفشانی: ہائیں، ضمیروں کی نیلامی ہے، پھر ضمیروں کی نیلامی ہے؟ ہاں بھئی، سینیٹ کے انتخابات جو آ گئے ہیں۔
سلمیٰ: (الماری کھولتے ہوئے) آپ کو سینیٹ کے الیکشن کی پڑی ہے اور مجھے شاہانہ کا پاجامہ نہیں مل رہا۔
حشر گلفشانی: پاناما کا ڈرامہ؟ ارے نہیں بیٹا یہ کوئی ڈرامہ ورامہ نہیں بلکہ شرمناک حقیقت ہے۔
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) شاہانہ کا پاجامہ کہہ رہی ہوں قبلہ! بیٹی کا پاجامہ۔
حشر گلفشانی: ٹوپی ڈرامہ؟ ارے نہیں، بتا تو رہا ہوں کہ یہ کرپشن کی مکروہ داستان ہے میری بچی۔

شاہانہ: (ہوم ورک کرتے ہوئے) دادا جان! قلبی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
حشر گلفشانی: طلبی کا یہ مطلب ہے بچے کہ جب کسی سیاستدان کو نیب یا عدالت میں طلب کیا جاتا ہے توکہتے ہیں کہ اس کی طلبی ہو گئی۔
شاہانہ: سیاستدانوں کو کیوں طلب کیا جاتا ہے دادا جی؟
حشر گلفشانی: بدعنوانوں کو کیوں طلب کیا جاتا ہے؟ شاوش اے… اور کیا پاکبازوں کو طلب کیا جائے گا؟
سلمیٰ: (منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے) ویسے ابا جی! ہمارے ہاں انصاف کا کڑا معیار ہے۔
حشر گلفشانی: انصاف کا دہرا معیار ہے؟ غلط، بالکل غلط۔ انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں بیٹا۔ ایسا نہیں کہتے، تم پر توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے۔
سلمیٰ: میں نے ایساکچھ نہیں کہا اباجی (بیٹے کو آواز دیتی ہے) بلال…
حشر گلفشانی: ہاں جیسے نہال، وہ بھگت رہا ہے توہین عدالت کے جرم کو۔
سلمیٰ: (بیٹے کو دوبارہ آواز دے کر بڑبڑاتی ہے) سن ہی نہیں رہا… بلال کی تو صرف کھلونوں سے یاری ہے۔
حشر گلفشانی: بالکل صحیح‘ اب طلال اوردانیال کی باری ہے۔ سب اندر ہوں گے، دیکھنا تم۔

سلمیٰ: میں بیٹے سے پوچھناچاہ رہی ہوں کہ وہ کیا کھائے گا؟ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ بلال کو نرم غذا دیں۔
حشر گلفشانی: دانیال کو نرم سزا دیں؟ کیوں بھئی، اس نے کوئی چھوٹا موٹا جرم کیا ہے؟ توہین عدالت کی ہے، توہین عدالت۔
بلال: (دوسرے کمرے میں کھلونوں سے کھیلتے ہوئے) دیکھیں امی ٹھیلہ جا رہا ہے۔
حشر گلفشانی: کھیلا جا رہا ہے؟ کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ ارے تم بھی ماں کے ساتھ مل گئے کیا؟ میں بتا رہا ہوں کہ یہاں کوئی کھیل نہیں کھیلا جا رہا۔ مت ذو معنی جملے بول نادان بچے۔
سلمیٰ: آپ جو بھی کہیں ابا جی، مجھے تو اپنے نمائندوں کی ہر کارروائی کا مان ہے۔
حشر گلفشانی: نمائندوں کی رسوائی کا سامان ہے؟ شکر ہے تمہیں عقل تو آئی… اور اپنی رسوائی کا یہ سامان انہوں نے خود کیا ہے بیٹا۔
سلمیٰ: وہ ایساکیوں کریں گے بھلا؟ ہمارے نمائندے پختہ کار ہیں۔
حشر گلفشانی: شتر بے مہار ہیں۔ یہ بھی درست کہا تم نے۔ ہمارے نمائندے شتر بے مہار ہو چکے ہیں۔

سلمیٰ: میں نے شتر بے مہار نہیں کہا ابا جی! میں نے اپنے نمائندوں کو سلام کیا ہے۔
حشر گلفشانی: بدعنوانوں کو لگام دیا ہے؟ بالکل صحیح کہا۔ ا گر یہ لگام نہ ڈالی جاتی تو وہ ملک کا حشر نشرکر دیتے۔ ویسے بیٹا یہ لگام مونث ہے اور اصل جملہ یوں ہو گا کہ قانون نے بدعنوانوں کو لگام دی ہے، سمجھیں؟
سلمیٰ: (ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے) اف ابا جی، آپ نے میری بات کا الٹا مطلب کیوں نکالا؟
حشر گلفشانی: (ہنستے ہوئے) صحیح کہتی ہو۔ اب انصاف کا الٹا ہاتھ پڑا ہے تو پوچھتے پھر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟
سلمیٰ: میں نے کچھ اور کہا ہے حضور والا!
حشر گلفشانی: کس کا منہ کالا؟ ارے سب نے اپنے منہ کالے کر رکھے ہیں کرپشن سے۔

سلمیٰ: معاف کیجئے ابا جی! آپ میری باتوں کو غلط معنی پہنا کر خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سراسر خیانت۔
حشر گلفشانی: لعنت؟ میں تم سے سو فیصد متفق ہوں بیٹا، ایسی اسمبلی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ اسی لئے تو میں عمران خان اور شیخ رشید کو سلام کرتا ہوں کہ وہ بہادری کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
سلمیٰ: اور اسی اسمبلی کے ممبر ہیں… ویسے سچ کہوں ابا جی، ہمیں تو یہ مائنس ون فارمولا بالکل بھی قبول نہیں۔
حشر گلفشانی: تمہیںکون سا ہجمولا قبول نہیں؟ ارے ہجمولوں ہی سے تو ہمارا کامیاب علاج ہوتا آیا ہے سدا۔ پھر تمہیں کیوں کوئی ہجمولا قبول نہیں؟
سلمیٰ: آپ قانون کی نظر میں سب کی برابری کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ کیا مشرف کو جیل ہو گی؟
حشر گلفشانی: بالکل دولت کی ریل پیل ہو گی بیٹی، بس ذرا ان سب چوروں کو اندر تو ہو لینے دو۔ لوٹی گئی رقمیں برآمد ہوں گی تو ملک میں دولت کی ریل پیل ہو جائے گی۔

سلمیٰ: آپ جلدی ٹھنڈے ہو جائیں گے سر! یہ جذبات کا وقتی ابال ہے۔
حشر گلفشانی:غلط خیال ہے؟ ارے بھئی کیوں غلط خیال ہے؟ میری تو دعا ہے کہ سب کی طلبیاں ہوں اور وہ اڑیکے لگیں۔
انتظار علی: (گلفشانی کا بیٹا اور سلمیٰ کا خاوند‘ گھر میں داخل ہوتے ہوئے) قبولیت ہو گی، ضرور قبولیت ہو گی۔
حشر گلفشانی: جمہوریت ہو گی؟ پھر جمہوریت ہو گی؟ ارے بھئی کیوں آتے ہی دل جلانے بیٹھ گئے ہو۔ بیڑا غرق کر دیا اس واہیات نظام نے ملک کا، اورتمہارا دل اب بھی نہیں بھرا؟
بلال: دادا جان ! میرا کل مطالعہ پاکستان کا ٹیسٹ ہے۔ آپ مجھے تحریک پاکستان کے بارے میں کچھ بتائیں۔
حشر گلفشانی: کس کے بارے میں بتائوں بیٹا؟
بلال: (اونچی آواز میں) تحریک پاکستان کے بارے میں، کیا آپ اس وقت چھوٹے بچے تھے؟
حشر گلفشانی: کھوٹے سکے تھے؟ ہاں میرے بچے اس تحریک میں قائداعظم کی جیب میں لبرل اور سیکولر کھوٹے سکے تھے، جبھی تو ملک صراط مستقیم پر گامزن نہ ہو سکا۔

انتظارعلی: توبہ توبہ، آپ تو تاریخ کی تدفین پرکمر بستہ ہیں ابا جی!
حشرگلفشانی: تاریخ کی تدوین بہت ضروری ہے بیٹا۔ کم بختوں نے ہماری تاریخ مسخ کر کے رکھ دی ہے۔
سلمیٰ: (ناراضی سے) معاف کیجئے ابا جان! آپ تاریخ کے ساتھ ٹھگی کر رہے ہیں۔
حشرگلفشانی:(غصے سے) تاریخ کے ساتھ ضیاء الحقی؟ ارے میں خوب سمجھتا ہوں طنز تم لوگوں کا، مگر یاد رکھوکہ اگر ان ضیاء الحقیوںکی وساطت سے تمہاری تاریخ درست نہ کی جاتی تو آج اس کا چہرہ پہچانا نہ جاتا۔

انتظارعلی: ایک ہی بات ہے خاتون و حضرت، آپس میں مت جھگڑیں، آپ دونوں ایک ہی بات کر رہے ہیں(سلمیٰ اور انتظارعلی قہقہہ لگاتے ہیں)
بلال: دادا جان میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا قائداعظم پارلیمانی طرزحکومت کے حامی تھے۔
حشر گلفشانی: (ٹھنڈی سانس بھرکر) ارے نہیں بیٹا، یہی تو بدقسمتی ہے کہ وہ طالبانی طرز حکومت کے حامی نہیں تھے… مگر کاش وہ طالبانی طرزحکومت کے حامی ہوتے اور آج کرپٹ، چور اور لٹیرے سیاسی حکمرانوں کی جگہ نیکوکار ہمارے حکمران ہوتے۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).