نفرتوں کی امین قوم


شیکسپئیر ایک خیال بہت مشہور ہے کہ زندگی ایک سٹیج ہے جس پر ہر کردار آکر اپنا کردار نباہتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی انتقال کرگئیں۔ اس راہ سے مفر کس کو ہے؟ ہم جو زندگی کی شاہراہ پر بگٹھٹھ دوڑے جاتے ہیں دراصل اسی طرف ہی جارہے ہیں۔ اس سٹیج پر آکر کون اپنے کردار کی مقصدیت جان پاتا ہے اور کون ہے جو اس سیٹ کی خوبصورتی اور سجاوٹ میں کھوکر اپنا سکرپٹ ہی بھول جاتا ہے اور پھر جب اترنے کا وقت آتا ہے تو کردار بے جان اور بے مقصد ہوتا ہے۔ دیکھنے اور سننے والوں کے لیے اس میں کوئی سبق، کوئی نتیجہ اور کوئی معنی نہیں ہوتی۔ ایسے کردار بہت جلد بھلادیے جاتے ہیں۔ جس کردار میں جان اور مقصدیت ہو اسے برسوں کچھ کو صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ زندگی مقصدیت سے بھرپور ہونی چاہیے۔ عارضی دنیا کی لذتوں اور آسائشوں میں بسر تو جانور بھی کرلیتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے لیے جو راہ چنی اس پرخوب چلیں۔

کچھ باتیں بہت واضح ہوتی ہیں مگر اس پر بے جا کی بحثیں اور کج بحثی اسے الجہادیتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر مذہبی طبقے کا روز اول سے مخالفت اور شدید مخالفت کا نشانہ رہیں۔ اس میں غلطی مذہبی طبقے کی نہیں۔ نقطہ نظر کا اختلاف ہوتا ہے جو کبھی دونوں طرف سے بڑھ کر شدت اختیار کر جاتا ہے۔ آپ اختلاف کریں اور ڈٹ کر کریں کیوں کہ اظہار رائے آپ کاحق ہے۔ عاصمہ جہانگیر سے مذہبی طبقے کا اختلاف ہمیشہ رہا اور انہیں بھی مذہبی طبقہ کبھی بھایا نہیں۔ انہوں نے کچھ گم شدہ افراد اور ماورائے عدالت مارے جانے والے مذہبی افراد کے حق میں بھی آواز اٹھائی مگر یہ مذہب نہیں اپنی انسانی نقطہ نظر کے زاویہ سے۔ مذہبی حوالے سے کبھی کبھی لگتا کہ وہ خاص معاندانہ ذہنیت کا شکار رہیں، اس لیے بھی ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا رہا۔ بہر حال وہ سیکولر خاتون تھیں اور اصول پرست سیکولر تھیں۔ یہ ان کی زندگی میں تھا اور زندگی تک تو معاملہ ٹھیک ہے۔

کج بحثی اور گالم گلوچ جو ہمارا قومی پہچان بن چکا ہے تب سے درآیا ہے جب سے ان کا انتقال ہوا ہے۔ مذہبی طبقے کا بڑا حصہ موت کے بعد ان کے بارے میں زبان درازی کی بجائے احترام اور زبان بندی کو ترجیح دے رہا ہے۔ ان کی سیاسی خدمات اور بہادری کی تعریف کررہا ہے اور ان کی زندگی کے مذہبی پہلو سے صرف نظر کررہا ہے، اس لیے کہ مذہبی عقائد ونظریات ہوں یا اعمال، زندگی میں اس پر اختلاف اور اتفاق رائے کی بحثیں ہوتی ہیں اور یہ علم کا ایک باب بھی ہے۔ موت کے بعد اعمال ہوں یا نظریات اسے یک طرفہ ترازو سے ماپنا اور خود ہی فیصلہ صادر کرنا خدائی اختیارات میں عمل دخل کے مترادف ہے۔ حالانکہ سو میں سے ایک بھی نشانی ایمان کی کسی میں پائی جائے تو اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جانی چاہیے۔ جبکہ کچھ لوگوں نے پس مرگ بھی نفرت کا رویہ باقی رکھا ہے بلکہ بات اس حد تک آگے بڑھادی ہے کہ موت پر باقاعدہ خوشی منانے کے لیے جواز اور دلائل ڈھونڈ لائے ہیں۔ ابوجہل، حجاج اور یزید کی مثالیں لائی گئیں، حد ہے اندھے پن کی۔ ابوجہل بہادر نہیں متکبر تھا، حجاج دین کا وہ دشمن تھا جو ہزاروں انسانوں کا قاتل تھا، یزید تو نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاتل تھا۔ حیرت ہے جس خاتون کی زندگی وقت کے متکبر، ظالم حجاجوں کے خلاف جد وجہد سے عبارت ہے اس کے لیے بھی حجاج کی مثال پیش کی جارہی ہے۔

دوسری طرف بھی کچھ کم طوفان نہیں برپا۔ مولوی کو ساری زندگی عاصمہ جہانگیر سے اختلاف رہا۔ اختلاف رکھنا کیوں غلط ہے؟ بات بس اتنی ہے کہ مولوی اگر ایک تقریر بھی کرتا ہے تو آپ اسے فتوی کہدیتے ہیں۔ اگر اختلاف بھی فتوی بازی ہے تو حضور یہ آپ کا معیار ہے اور یہ شدت پسندی کی ایک اور انتہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد ان کی ہمدردی میں کچھ دوستوں نے دینی طبقہ اور مولوی پر سرعام چڑھائی کردی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ اس طرف کی اندھی جانبداری میں بڑے اچھے اچھے لکھاریوں کے نام آئے ہیں۔ غور کیا جانا چاہیے کہ جس اظہار رائے کی وہ ساری زندگی علمبردار رہیں آپ اسی کو پامال کررہے ہیں۔

سوباتوں کی ایک بات یہ ہے کہ شدت پسندانہ رویہ نفرت میں ہو یا محبت میں یہ ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ اس میں ہم نہ کسی نظریے اور اصول کے پابند ہوتے ہیں نہ مذہبی تعلیمات کے۔ اپنے ہی معیارات اور اصولوں کو روندتے چلے جاتے ہیں اور اس بری خصلت پر ہزار دلائل اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےحق دلوانے والے امر ہوتے ہیںعاصمہ جہانگیر جنت میں رہ کر بھی انصاف کی پکار بنی رہیں گی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).