سنو ان جاگتی آنکھوں کی حیرانی مجھے دے دو


فہمیدہ ریاض، نیشنل بک کونسل میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئیں تو انہیں کراچی آفس کے لیے ایک ریسرچ آفیسر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہمارے کزن نے ہمارا حوالہ دیا، اور اس ملنگ شاعرہ نے اپائنٹمنٹ لیٹر بھجوا دیا، یہ پیپلز پارٹی کا دوسرا دورحکومت تھا، میری کولیگ نزہت شیریں پہلے سے موجود تھیں، شیریں انتہائی مخلص اور سادہ مزاج خاتون ہیں، مشہور صحافی مجاہد بریلوی کی اہلیہ ہیں، دونوں میاں بیوی حد سے ذیادہ ہمدرد، بہادر اور سچا ئی پسند اور لبرل سوچ کے مالک ہیں۔

احمد نوید کی کتاب ’درِ نیم وا‘ نیشنل بک کونسل نے چھاپی تھی، اس کی رونمائی آرٹس کونس میں ہونا تھی، تقریب میں دو دن رہ گئے تھے۔ بہت سے اہم کام باقی تھے، لیکن صاحبِ کتاب غائب تھے، ہم آفس میں بیٹھے تلملا رہے تھے، کسی نے چِک ہٹائی، ایک خوب صورت لمبا چوڑا، آدمی بڑھی ہوئی شیو اور وحشت زدہ آنکھیں لیے اندر داخل ہو ا، ہم نے پاؤں سے سر تک اسے دیکھا اسپنج کی گھسی ہوئی چپل، بنا بنیان کے ملگجا سفید ململ کا کرتا پاجاما، الجھے ہوئے گھنگر یالے بال، اس نے اپنی ٹیڑھی مسکراہٹ ہم پر ڈالی، اور ہاتھ میں پکڑی کتابیں میز پر رکھ کر کے بے تکلفی سے بیٹھ گیا۔ کتاب کے بیک کور پر موصوف کی بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ تصویر دیکھ کر ہمیں تاؤ آگیا۔ اب آئے ہیں آپ۔ کتنے کام با قی ہیں۔ ہم غصے میں بولتے رہے اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ سے ڈھیٹ بنا ہمیں دیکھتا رہا۔

مہمانِ خصوصی کا کیا ہوا؟ ہم نے پوچھا
ساقی امروہوی ہوں گے۔ پان کا کیبن ہے لیکن شاعری کمال کی کرتے ہیں۔
پرسوں رونمائی ہے کتنا پریشان تھی میں، سمجھتے کیا ہیں خود، میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی
’دی اسٹار‘ میں جون ایلیا کا مضمون شائع ہوا ہے غالبِ ثانی کہا ہے انہوں نے مجھے۔ اس نے فخریہ لب کشا ئی کی۔
کون جون ایلیا؟ میں نے بھی بد تمیزی کی انتہا کر دی۔

پانی تو پلائیں، اس پر تو جیسے کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا۔ میں نے کمرے سے با ہر نکل کر لڑکے سے اسے پانی پلا نے کو کہا اور خود کوبھی پانی پی کر شانت کیا، اور کمرے میں چلی گئی۔ جاتے ہوئے وہ کتاب چھوڑ گیا، یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ گھر جاتے ہوئے میں نے کتاب پرس میں ڈال لی۔ بس میں سفر کے دوران اس کی کتا ب نکال لی۔ اس کی خوب صورت شاعری نے مجھے ایسا گم کیا کہ منزل آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔

میں نے گھر جا کر کتاب پاپا کو دے دی، دوسرے دن جب میں آفس جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی تب پاپا نے کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔ ’’ اچھی کتاب ہے زبان کا شاعر ہے ‘‘ میرا بھی یہ ہی خیال تھا لیکن پاپا کی زبان سے یہ جملہ سن کر جانے کیوں مجھے خوشی ہوئی۔

آفس پہنچ کر ضروری معاملات نبٹا رہی تھی کہ موصوف آگئے، اور بڑی بے تکلفی سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے اور چائے کی فرمائش بھی کر ڈالی، وہی کل والا لبا س زیب تن تھا جو اب باقاعدہ گندا ہو چکا تھا بڑھا ہوا شیو، گھنگر یالے بالو ں کو لگتا تھا کہ کافی دن سے کنگھا نصیب نہیں ہوا، اس کی کتاب میں نے پرس سے نکال کر میز پر رکھ دی۔ پڑھی؟ اس نے کتاب کی طرف اشارہ کیا
ہاں بس میں پڑھی تھی، میں نے سر سری انداز سے کہا کہ کہیں وہ سمجھ نا لے کہ میں اس کی شاعری سے متاثر ہوں، نہیں چا ہتی تھی کہ اس کا دماغ مزید خراب ہو۔

کیا بس میں؟ بس کے شور شرابے میں کیا خاک میری شاعری سمجھ آئی ہو گی، ویسے بھی میری شاعری عام لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ اس نے مذاق اڑانے والے انداز سے کہا میں اسے گھور کر رہ گئی۔

فہمیدہ تقریب میں شرکت کے لئے بطورِ خاص اسلام آباد سے آئی تھیں اور اپنی نگرانی میں انتظامات ترتیب دے رہی تھیں۔ آفس سے اٹھ کر وہ مجاہد بریلوی کے آفس پہنچ گئیں، مجھے اور شیریں کو بھی وہیں بلوا لیا، ہم وہاں پہنچے تو ایک کلین شیو خوبصورت شخص وہاں پہلے سے موجود تھا جانا پہچانا سا لگ رہا تھا، فہمیدہ نے ہما ری آنکھوں میں اجنبیت دیکھ کر اس کا تعارف کرا یا، اوہ وہ احمد نوید تھے، سفید شرٹ اور بلیک پینٹ میں صاف ستھرے لگ رہے تھے۔ شیریں مسکرا دی، لیکن میں نے با قاعدہ مذاق اڑانے والے انداز سے ہنسنا شروع کر دیا، شاید ایسا کر کے میں اس بد دماغ انسان سے انتقام لے رہی تھی۔ مگر یا تو وہ سمجھ نہیں رہا تھا یا میری بد تمیزی نظر انداز کر رہا تھا۔

تقریب میں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے شاعر کی کتاب اور شاعری کے بارے میں اظہارِ خیال کیا، اختتام پر ہم نے اس سے کتاب مانگی۔ تو صاف انکار کر دیا۔ ہماری ایک دوست رعنا اقبال جو اس وقت جنگ اخبار میں کتا بوں پر تبصرے لکھتی تھیں، انہوں نے ہمیں کہا کہ انہیں ایک کتاب دلوا دوں وہ تبصرہ کریں گی۔ ہم انہیں موصوف کے پاس لے گئے، تو بڑی بد تمیزی سے کہا، کون جنگ اخبار؟

پیر پٹختے ہوئے ہم اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کر مہمانوں کا شکریہ ادا کیے بغیر گھر چلے آئے۔ اتوار کی چھٹی گزار کے اگلے روز ہمدرد پرنٹنگ پریس جانے کے لیے گاڑی میں ایک پیر رکھا ہی تھا، کہ موصوف نے آواز دی، اور اپنی کتاب ہماری طرف بڑھا ئی ہم نے بے گانگی سے ان کی طرف دیکھا، اور کتاب لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔

کتاب کھولی تو پہلے صفحے پر لکھا تھا
سنو ان جاگتی آنکھوں کی ویرانی مجھے دے دو
میں اپنے پاس رکھ لوں گا، یہ ویرانی مجھے دے دو
عفّت پیاری کے لیے۔
نیچے اس کے اردو میں دستخط تھے۔

’’ عفّت پیاری کے لیے ‘‘ کیسا مشفق جملہ ہے، ہائے ایسی برادرانہ شفقت! دل سے ساری کدورت دھل گئی۔ ہمارے دل میں اس کے لیے احترام اور عقیدت پیدا ہو گئی۔
اب تک پیش لفظ نہ پڑھ سکے تھے، پیش لفظ ان کے بڑے بھا ئی نے تحریر کیا تھا، جس کی اختتامی سطور کچھ اس طرح تھیں۔

میں نے اس کے تکیے کے نیچے ایک لڑکی کی تصویر دیکھی ہے، اور اسے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے۔ خدا کرے کہ درِ نیم وا سے پھر کوئی اس کی زندگی میں داخل ہو اور وہ پھر ایک ہو کر ایک ہونے کا دعویٰ کر سکے، اور اس سے سرگوشی میں کہے۔
سنو ان جاگتی آنکھوں کی حیرانی مجھے دے دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).