ویلنٹائن ڈے اور یوم حیا۔ ۔ ۔ یہاں تو سب ہی منافق ہیں


خلیل جبران نے کہا تھا لوگ مذہب کی خاطر لڑتے ہیں، مرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے اپنے نظریے کی خاطر بحث کرتے ہیں، مخالف سے الجھ جاتے ہیں، ردعمل ظاہر کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ آج بھی ایک ایسا ہی متنازعہ سا دن ہے آج کے دن سوشل میڈیا پر آپ دیکھیں گے کہ آدھا ملک ویلنٹائن ڈے کے حق میں ہے اور اس سے بھی زیادہ اس کا مخالف ہے۔ جو مخالف ہیں وہ یوم حیا منا رہے ہیں لیکن دکھ اور افسوس یہ ہے کہ ہم سب منافق ہیں۔ باہم دست و گریباں ہیں مگر نہ تو محبت والے جذبہ محبت سے واقف ہیں اور نہ ہی حیا والوں کی آنکھ اور کردار میں حیا ہے۔ ہمیں نہ تو لبرلز خالص ملے ہیں اور نہ ہی دائیں بازو والے۔ سب مال ملاوٹ زدہ ہے۔

جس محبت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے یا جس کے لئے لبرلز ہلکان ہورہے ہیں کیا یہ ہے محبت؟ ان میں سے زیادہ تر محبت کی اے بی سی سے بھی واقف نہیں۔ ان کے نزدیک محبت محض ایک کھیل ہے، تماشا ہے۔ جذبات کی تسکین کی خاطر کسی عورت کے دل میں محبت کا بیج بونا اور پھر۔ مناسب وقت پر۔ اکتاہٹ کے بعد نئی عورت کو اس جال میں اتارنا، اس کا نفسیاتی قتل کرنا، اس کے بعد کوئی اور، پھر کوئی اور۔ کیا محبت کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل کا مجموعی چال چلن یہ نہیں ہے؟ ادھر ادھر نہ دیکھیں اپنے گریبان میں جھانکیں ہم سب یہی ہیں۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک ڈنر کے بعد چند دوست اکٹھے بیٹھے تھے۔ وہاں ایک صاحب، جو بہت پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں وہ بہت فخر کے ساتھ باقی دوستوں کو بتارہے تھے کہ ’بھائی کے پاس بہت بچیاں ہیں‘ وہ صاحب بھی آج ویلنٹائن ڈے کے جشن منا رہے ہیں اور اس کے حق میں تقریر کر رہے ہیں۔ اور پھر کیا محبت کا تصور ایک عورت کے گرد گھومتا ہے؟ یہ بڑے بڑے امیر لوگ، اعلیٰ عہدوں پر فائز افسر جو ویلنٹائن ڈے کے پرچم بلند کر رہے ہیں۔ ان کے دفتروں کے باہر غریب، یتیم لوگوں کو دھکے کھاتے دیکھا ہے۔ کہاں ہوتا ہے انسانیت سے محبت کا جذبہ اس وقت؟ ہماری اشرافیہ کے گھروں میں کام کرنے والی چھوٹی چھوٹی بچیاں انسان تو کیا جانور سے بھی بدتر زندگی گزار رہی ہیں۔ کہاں چلی جاتی ہے اس وقت محبت۔ ؟ جناب محبت احترام انسانیت کا نام ہے، برداشت کا نام ہے، دوسرے کے لئے سکھ پیدا کرنے کا نام ہے، دکھی بے سہارا اور لاچار لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ کا سبب بننے کا نام ہے۔ یہ کھیل تماشا اور نفس کی تسکین محبت نہیں ہے۔

اور دوسری طرف یوم حیا والے ہیں۔ ان کے پاس اپنا کوئی منشور نہیں ہے۔ بس ردعمل میں ڈفلی بجا رہے ہیں۔ ایک اور گمان یہ ہے کہ یوم حیا والے اکثریت میں ہیں تو اکثریت کے کرتوت بھی پڑھ لیں۔ کہیں پر چولہا پھٹ رہا ہے، کہیں پر تشدد ہورہا ہے، کہیں پر زیادتی ہو رہی ہے، کہیں چہرے پر تیزاب پھینکا جارہا ہے۔ ایسے واقعات سے متاثرہ عورتوں کو دیکھتا ہو ں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کہاں ہے ان لوگوں کی حیاء؟ عورت کا احترام ایک ایسی چیز ہے جو اس معاشرے سے بالکل ختم ہوگئی ہے۔ بد ترین انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں سے اس وقت فائدہ اٹھاتا ہے جب وہ مجبوری میں ہوتے ہیں۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے۔ سیالکوٹ سے لاہور آنے کے لیے ایک بس میں بیٹھا، جس میں ایک خاتون میزبانی کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روڈ ہوسٹس کا یونیفارم پہنے، ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ ظاہر ہے کسی غریب گھرانے کی ہوگی، روزی روٹی کی خاطر ہی سب کچھ کر رہی تھی۔ جیسے ہی بس چلی لوگوں کو پیاس لگ گئی۔ کبھی کسی سیٹ سے آواز آرہی ہے اور کبھی کسی سیٹ سے۔ میں سوچ رہا تھا کہ نہ تو اتنی گرمی ہے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صحرا کا سفر کرکے آئے ہیں، جو بس میں بیٹھتے ہی سب کو پیاس لگ گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ سبھی چا ہتے تھے کہ لڑکی ان کے پاس آئے۔ داڑھیوں والے بزرگ اور بغیر داڑھیوں والے بزرگ، سب اس کام میں شامل تھے۔

کسی ایک نے بھی نہیں سوچا کہ اگر وہ غریب مجبور ہے، تو چلو ہم ہی آج کے دن اس کا بھرم رکھ لیتے ہیں۔ ہم ہی کسی شرم و حیا سے کام لے لیتے ہیں۔ کہاں جناب، وہاں تو وہ کہہ رہے تھے کہ آج پیسے دیے ہیں تو پورے کرکے جائیں گے اور پھر اس کے علاوہ اس معاشرے میں جو دھوکا ہے، جھوٹ ہے، کام چوری ہے، بددیانتی ہے، ملاوٹ ہے، غیبت چغل خوری۔ یہ سب کرتے ہوئے حیاء کہاں چلی جاتی ہے آپ کی؟ جناب کچھ بھی منائیں ہوم محبت یا یوم حیاء۔ بس جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل بھی کریں۔ یہ سب جذبے بہت اچھے ہیں بس شرط یہ ہے کہ ان کی روح کے مطابق ان پر عمل کیا جائے ورنہ پھر وہی ہوگا۔

شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).