لہو کے چھینٹے


جب بھی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے تو لکھتا ہوں۔ خود نہ بھی لکھنا چاہوں تو بھی مجبور ہو کر لکھنا پڑتا ہے۔ ایسے جیسے لکھے بغیر چین نہیں آئے گا۔ حالیہ دنوں میں کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں انٹرنیشنل لطیف فیسٹیول کا انعقاد ہوا۔ نامی گرامی ادیب۔ شعرا۔ مفکر جن کے صرف نام سنے تھے ان کو پہلی بار دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جس رات میں اس فیسٹیول میں گیا اس رات عابدہ پروین کا کنسرٹ تھا۔ عابدہ پروین نے موقع کی مناسبت سے اپنی آواز کا جادو جگانے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ کلام پیش کر کے وہی سحر قائم کیا جس کی امید میں میرے جیسے کئی اور لوگ ان کو سننے آئے تھے۔ شاید ہر بار ان کو سننے کے بعد میری طرح ہر کوئی اسی طریق سے ہی محظوظ ہوتا ہوگا۔

عابدہ جی کے تقریباً ہر کلام کا بنیادی اور باطنی نکتہ عشق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ اس بنیاد اور باطن کے بیچ میں جتنے بھی دیگر نکتے ہوتے ہیں وہ کسی خزانے کے اوپر پڑے لا متناہی تہ در تہ دبیز کپڑے کی طرح ہیں۔ جس کی ہر سطح کے بعد ایک ایسی سطح ہے جو خود منزل بھی ہے اور سفر بھی۔ کسی کو پہلے قدم پر منزل مل جائے تو کسی کو عمر بھر دھکے کھانے کے بعد خاک بھی میسر نہ ہو۔ عابدہ جی ہمارے ملک میں اولیا کرام کے پیغام کو پھلانے میں شب و روز کوشاں ہیں۔ اللہ ان کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ وہ ایسے ملک میں یہ کام کر رہی ہیں جہاں لوگ ان اولیا کرام کے مزاروں پر کر پھٹنے کے بعد جنت لوٹ لیتے ہیں۔

دوسرے دن جامی چانڈیو صاحب نے شاہ سائیں کی شاعری پر روشنی ڈالی۔ کمال ہی ڈالی۔ اللہ ان کو صحت دے کافی اچھے مقرر ہیں۔ سامعین کو اپنا پیغام کس طرح ذہن نشین کرانا ہے اس فن سے وہ با خوبی واقف ہیں۔ ان کے بعد میری استاد آپا نور نےشاہ سائیں کے بیتوں کا کمال اردو ترجمہ کیا۔ کافی دیر تک تو ان کے اردو ترجمے کے سرور سے چاہ کر بھی باہر آنا ممکن نہیں تھا۔ اللہ ان دونوں کو سلامت رکھے۔ یہ دونوں بھی اپنے قلم سے وہی کام کر رہے ہیں جو عابدہ جی گا کر کر رہی ہیں۔

اس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ اللہ معاف کرے کچھ لوگوں کو مائیک ملنے کی دیر تھی۔ سوال تو گیا جہنم میں ایسا لیکچر پلایا کہ جن سے سوال تھا ان کے چہرے پر سوال تھا کہ سوال کیا تھا۔ میں سوال کرنا چاہتا تھا مگر میں بیان کر چکا کہ چند نہایت ہی شریف سخن وروں کی وجہ سے میں سوال کر نہ پایا اور سوال جواب کا مقرر وقت ختم ہوگیا۔

میں سوچتا ہوں کہ آج کا شاہ عبداللطیف بھٹائی کہاں ہے؟ شاہ سائیں کو گزرے صدیاں بیت گئیں۔ ہم آج ایسی تقریبات منعقد کر کے ان کو صدیوں بعد بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان سے پہلے ان گنت بزرگ آئے ہیں۔ ان کے بعد بھی بزرگ آئے ہیں۔ اس دور کا بزرگ کہاں ہے؟ کہاں ہے ولی اللہ؟ کہاں ہے زندہ درویش؟ پچھلے چالیس پچاس سالوں سے جیسے سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ اب بس مزار ہیں سلسلے منقطع ہوگئے ہیں۔

شاہ سائیں سے پہلے کے دور میں کسی اور کو گایا جاتا ہوگا۔ اس دور کی نور آپا اور جامی چانڈیو اس بزرگ کے پیغام کو یونہی مجھ جیسے لوگوں کو آسان کر کے سمجھاتے ہوں گے۔ اس دور کی عابدہ پروین بھی یونہی کلام سناتی ہوگی۔ پھر کوئی بزرگ۔ اور پھر کوئی اور۔ اور پھر شاہ سائیں تک۔ فکر کی بات یہ ہے کہ آج صدیوں بعد عابدہ جی۔ نور آپا اور جامی چانڈیو جیسے لوگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کو ہمیں سمجھا رہے ہیں مگر ہماری آنے والی نسل اور اس کے بعد آنے والی نسل کس کو گائے گی؟ جب ہمارے دور کا ہی درویش نہیں تو ان کے دور میں درویش۔ صوفی یا بزرگ کہاں سے آئے گا؟ ایسا کیا ہو گیا کہ درویش ہم سے روٹھ گیا؟

اگر دوسری طرف غور سے دیکھا جائے تو زمین تیزی سے جوان بھی کھا رہی ہے۔ میری نظر میں جوان کا تعلق عمر سے نہیں بلکہ سینے میں جوش کھاتے خون سے ہے۔ جوان کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مرد۔ عورت۔ بوڑھا۔ بچہ۔ بس سینے میں جوش کھاتا خون ہو۔ یہ جوش کھاتا خون ان جوانوں کو ہر برائی کے خلاف بولنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ جوان اپنے سامنے موجود سسکتے معاشرے کی غیرت جگانے کے لیے اپنا ہاتھ کاٹ کر اپنے جوش کھاتے خون کے چھینٹے معاشرے کے منہ پر مارتے ہیں۔ مگر آگے بھی ڈھیٹ معاشرہ ہے۔ چند چھینٹوں سے کچھ ہی دیر کے لیے جاگتا ہے۔ اس کو بار بار جوانوں کے لہو کے چھینٹے چاہیں۔ ورنہ یہ وہ بے حس معاشرہ ہے جو بچوں کو زیادتی کے بعد ان کے ہاتھ پاوں توڑ کر۔ گلا دبوچ کر۔ کچرے کے ڈھیر میں چھوڑ جاتا ہے۔ اور اگلے دن اسی کی لاش پر کھڑا خود ہی روتا ملتا ہے۔

بزرگ آ نہیں رہے اور جوان زمین کھاتی جا رہی ہے۔ چند دن پہلے عاصمہ جہانگیر نامی جوان کو زمین کھا گئی۔ آپا نور نے ٹویٹ کیا کہ نامرد ہو چکے معاشرے سے ایک مکمل عورت اٹھ گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اور اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور حقیقت سے فرار ممکن نہیں۔ ایک بڑی عمر کے صحافی جو کہ مجھے ہر وقت عاصمہ جہانگیر پر تنقید کرتے ہی نظر آئے انہوں نے بھی عاصمہ جہانگیر کی موت کی خبر سنتے ہی ٹویٹ کیا کہ میں عاصمہ جہانگیر کے خلاف لکھا اپنا ہر ٹویٹ واپس لیتا ہوں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ دیر آئے درست آئے اور ویسے بھی ہم مرنے کے بعد مرحوم کی بہت عزت کرتے ہیں۔

وزیر اعلی سندھ نے عاصمہ جہانگیر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بے حس معاشرے کے ایک مردار صحافی نے ٹویٹ کیا کہ عاصمہ جہانگیر کا قد اتنا اونچا نہیں کہ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے وہ ایک متنازع شخصیت تھیں۔ یہ صاحب مرنے کے بعد بھی بغض نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کے اس بیان کے بعد پہلے والے صحافی بھی میدان میں دوبارہ کود پڑے ہیں اور اپنے پرانے ٹویٹ مٹانے کے بعد عاصمہ جہانگیر کے خلاف ایک نیا ٹویٹ کر چکے ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی سے لے کر قصور کی زینب تک اور قصور کی زینب سے لے کر عاصمہ جہانگیر تک سب کو اپنے اپنے حصے کا مردار معاشرہ ملا ہے۔ اور ان سب نے معاشرے کے منہ پر اپنے جوش کھاتے خون کے چھینٹے مار کر معاشرے کو جگایا ہے۔

مگر اب یہ وہ معاشرہ بن چکا ہے جہاں لوگ قبروں سے لاشوں کو نکال کر اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔ اس وقت اس معاشرے کے منہ پر شدت سے چھینٹوں کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ لہو دینے والے ہمارے بیچ نہیں رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).