میں نے عاصمہ آپا کو کیسا پایا؟ (1)


1969 ء میں اسکول کی کچھ لڑکیاں مارشل لاء حکام کے خلاف احتجاج کرنے لاہور کی گورنر ہاؤس پر جمع ہوئیں۔ ان میں سےایک دھان پان سی لڑکی اس مینشن کی دیوار پر چڑھ گئی اور اس پر احتجاج کا سیاہ پرچم لہرا دیا۔ اس طالبہ کو اس کےاسکول، کانونٹ آف جیزز اینڈ میری نے اس وقت تو معطل کر دیا مگر آگے چل کر وہ لڑکی جبر کے خلاف ہر محاذ پر جدوجہد، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے انتھک دفاع کانہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں استعارہ بن گئی۔ وہ لڑکی عاصمہ جہانگیر تھی جو پاکستان کا ضمیر اور پنجاب کی وہ شیردل کارکن تھی جس نے انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی ورکروں، وکلاء اور انسان دوستوں کی دو نسلوں کو اپنے فکر و عمل سے متاثر کیا۔

عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی پارلیامان کے رکن تھے اور پاکستان کے فوجی حکمرانوں فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ ان کا تعلق شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ سے تھا اور مجموعی طور پر سات سال قید میں رہے۔ وہ اس وقت بھی قید میں تھے جس کے خلاف عاصمہ جہانگیر و دیگر طالبات احتجاج کر رہی تھیں۔ انہیں فروری یا مارچ 1969 کو رہا کیا گیا۔ ادھر شیخ مجیب کو بھی رہا کردیا گیا اور ایوب خان کی بلائی ہوئی ایک گول میز کانفرنس میں راولپنڈی آنے کی دعوت دی گئی۔ مگر شیخ مجیب راولپنڈی جانے سے پہلے لاہور پہنچے اور ملک غلام جیلانی کے ہاں قیام کیا اور لائحہ عمل طے کیا۔ اس سے تین سال پہلے شیخ مجیب نے ملک غلام جیلانی ہی کی قیام گاہ پر اپنے مشہور چھ نکات کا اعلان کیا تھا۔ گول میز کانفرنس لا حاصل رہی اور پایانِ کار جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیش رو کو ہٹا کر ایک نیا مارشل لاء لگا دیا۔ ملک غلام جیلانی کو 22 دسمبر 1971 کو پہلے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور پھر مارشل لاء قوانین کے تحت قید رکھا گیا۔

عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی غیر قانونی گرفتاری کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے خانوادے کے وکلاء دوستوں میاں محمود علی قصوری، منظور قادر اور محمد انور سے مشاورت کی ۔ انور صاحب نے درخواست دائر کرنے کی حامی بھری مگر کہا کہ اس میں عاصمہ جہانگیر کی والدہ کی مدد اور دستخط درکار ہوں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے انہیں بتایا کہ والدہ تو صدمے کی کیفیت میں ہیں اور پٹیشن تو ان کو مل کر تیار کرنا ہوگی مگر وہ والدہ کے دستخط کروا لائیں گی۔ اس پر انور صاحب نے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ اٹھارہ سال، عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا۔ وکیل صاحب نے کہا بس تو پھر تم خود درخواست گزار بن سکتی ہو اور دستخط کر سکتی ہو۔

مقدمہ ہائی کورٹ میں سنا گیا اور خارج بھی کر دیا گیا مگر عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں میں اپیل دائر کی۔ اسی طرح کی ایک اور درخواست محترمہ زرین الطاف گوہر نے بھی داخل کر رکھی تھی۔ ان کے شوہر مشہور صحافی الطاف گوہر تھے جو ایوب خان کے حواری تھے اور اس پاداش میں اس وقت کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقارعلی بھٹو نے ان کو قید کر رکھا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ان دونوں درخواستوں کی شنوائی ایک ساتھ کی اور اپنا تاریخی فیصلہ دیا جو مس عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب و مرکز کے نام سے آج تک مشہور ہے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف مارشل لاء کو ناجائز اور غیر قانونی ٹھہرایا بلکہ جنرل یحییٰ خان کوغاصب بھی قرار دیا-

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ “ جیسے ہی موقع ملے اور غاصب کے ہاتھ سے ظلم کے ہتھیار گر پڑیں تو اس پر شدید غداری کا مقدمہ قائم کرکے قرار واقعی سزا دی جاۓ کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جو آئندہ طالع آزماؤں کو باز رکھ سکے گا”۔ عاصمہ جیلانی کیس کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے جمہوری اور متفقہ آئین میں شق نمبر چھ شامل کی گئی جو آئین سے بغاوت اور غداری سے متعلق ہے اور اس کے زمرے میں گزشتہ بغاوتیں اور آئین شکنی بھی آتے ہیں۔ گو کہ یحییٰ خان اس فیصلے سے پہلے اقتدار کھو چکا تھا مگر پھر بھی آئین کی بالادستی کے لیے ایسی بے مثال جدوجہد کی بدولت وہ پانچ فِٹ دو انچ قامت کی لڑکی بڑے بڑے جغادری قانونی اور آئینی ماہرین سے میلوں بلند نظر آتی رہے گی۔

عاصمہ جہانگیر نے پنجاب یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری لی اور پھر پریکٹس کرتی رہیں کہ اس اثناء میں پاکستان کا تیسرا اور شاید سب سے خوفناک مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تخت الٹ کر ایک بدترین فوجی آمریت مسلط کردی۔ چونکہ یہ مارشل لاء اسلام ازم کا لبادہ بھی اوڑھے ہوۓ تھا لہٰذا اس کی مسمویت بھی دوچند تھی۔ ضیاء الحق کے خلاف تحریک بحالٸ جمہوریت یا موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی۔ ایم آر ڈی کے صفِ اوّل کے قائدین کو بار بار جیلوں میں قید اور گھروں پر نظربند کیا جاتا رہا۔ ایسے میں قیادت کا ایک دوسرا پرت ابھرا جو وکلاء، دانشوروں، صحافیوں اور طلباء پر مشتمل تھا۔ عدالتوں کے بار روم ضیاء کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کے مراکز بنے۔ عاصمہ جہانگیر ایم آر ڈی کے کارکنوں اور وکلاء کے ہمراہ سڑکوں پر جدوجہد کرتی نظر آئیں پھر انہیں بھی قید کردیا گیا۔

ضیاء الحق کے مسلط کردہ قوانین میں مذموم ترین شاید حدود آرڈیننس1979 تھا، جو زنا، ریپ، ماوراۓ زوجیت جنسی تعلقات سے متعلق تھا۔ اس متعفن قانون نے جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے لیے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیا کیونکہ اس قانون کے تحت زیادتی ثابت کرنے کی ذمہ داری مجروح خاتون پر ڈال دی گئی تھی اور ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں وہ جنسی بے راہروی یا قذف کی مرتکب قرار پاتی۔ عاصمہ جہانگیر نے اس کالے قانون، جس میں رجم اور ہاتھ کاٹنے جیسی بہیمانہ سزائیں بھی تھیں، کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی پرزور مذمت اور مخالفت کی۔

ضیاء الحق کا ایک اور زہریلا قانون بلاسفیمی لاء یا توہین مذہب کا قانون تھا جس کے تحت شعائر اسلام کی شان میں گستاخی یا سب و شتم کرنے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ عاصم جہانگیر نے اس دنیاوی فوجی قانون کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔ انہوں نے خود بتایا کہ اس قانون پر ایک سیمینار میں وہ خطاب کر رہی تھیں اور وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس بھی وہاں تھے۔ اس موقع پر ایک شخص نے اٹھ کر الزام لگا دیا کہ عاصمہ جہانگیر توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے موقف کی وضاحت بھی کی مگر ضیاء الحق کی پالتو پارلیمنٹ نے عاصمہ جہانگیر کے خلاف قرارداد منظور کر کے موت کی سزا مانگی۔ اس وقت تک اس قانون میں موت کی سزا نہ تھی۔ ضیاء الحق نے تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا مگر عاصمہ جہانگیر نے اس کو رد کردیا۔ حسنِ اتفاق سے عاصمہ جہانگیر کی ایک ساتھی نے اس سیمینار کی ٹیپ رکارڈنگ کی ہوئی تھی۔ وہ جیسی ہی منظرِ عام پر آئی عاصمہ کی بے گناہی اور مخالفین کی بدطینتی ظاہر ہو گئی۔ ضیاء الحق نے بہرحال قانون میں ترمیم کر کے اس میں موت کی سزا داخل کر دی۔

(جاری ہے)

اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ: تمہارا سفر جاری رہے گاعاصمہ جہانگیر کے بارے میں لکھی چند سطور ….

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).