میں نے عاصمہ آپا کو کیسا پایا؟ (2)


1993  میں ایک بارہ سالہ مسیحی بچے سلامت مسیح پر الزام لگایا گیا کہ اس نے رتہ دھوتراں گاؤں کی مسجد کی دیوار پر گستاخ رسول کلمات لکھے ہیں۔ بچے اور دو مسیحی مردوں کو قید کردیا گیا۔ تین گاؤں والوں کی گواہی پر ان کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس فیصلے اور عدالتی کاروائی نے انصاف اور عقل سلیم دونوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ ہوا یوں کہ مسجد کی دیوار فی الفور دھو دی گئی اور مبینہ گستاخ کلمات سواۓ تین دعویداروں کے کسی نے نہ دیکھے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا لکھا تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر بتانے سے انکار کر دیا کہ کفر کو دہرانا بھی کفر ہے۔ عدالت نے ان کے اس لغو استدلال کو مان کر تین مسیحیوں کو موت کی سزا سنا دی۔ ان میں سے ایک مسیحی آدمی کو عدالت کے باہر قتل کر دیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے سلامت مسیح، جو اس وقت چودہ سال کا ہو چکا تھا، کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے جج عارف اقبال بھٹی نے سلامت مسیح کو بری کردیا۔ سلامت کو جلد جرمنی میں پناہ مل گئی مگر جسٹس عارف بھٹی کو ان کے دفتر میں قتل کردیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ایسے مقدمات کی پیروی سے باز آجائیں مگر وہ ڈٹی رہیں۔ ایسے سینکڑوں مقدموں میں وہ ان ذلتوں کے مارے لوگوں کی داد رسی کو آئیں جنہیں زمانہ اپنی ایڑی تلے کچلنا چاہتا تھا۔ غلامی میں پستےبھٹہ خشت مزدور ہوں یا وہ لڑکیاں جن پر ان کے اپنے اعزاء نام نہاد غیرت کےنام پر ظلم کرتے ہیں، عاصمہ جہانگیر نے ان کی خبر گیری بھی کی اور ڈنکے کی چوٹ پر ان کی وکالت بھی۔

عاصمہ جہانگیر نے اپنی بہن حنا جیلانی، گل رخ اور شہلا ضیا  کے ساتھ مل کر 1987 میں پاکستان کی پہلی خواتین وکلاء فرم قائم کی۔ وہ ضیاء الحق کے بدنامِ زمانہ قانون جس میں عورت کی گواہی آدھی مانی جاتی ہے کے خلاف بھی جدوجہد کرتی رہیں۔ وہ وومین ایکشن فورم کے فعالین میں سے تھیں مگر ان کا عندیہ ہمیشہ یہ تھا کہ خواتین کےحقوق انسانی حقوق ہیں اور اس جُز کو کُل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انیس سو ستاسی میں ہی عاصمہ جہانگیر نے اپنے مربی و مشفق، مشہور لبرل جج جسٹس دوران پٹیل کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی) کی داغ بیل ڈالی۔ ایچ آر سی پی نہ صرف ان کا طرۂ امتیاز بن گیا بلکہ پاکستان میں انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کا سب سے بڑا داعی بھی۔ مرکزی سیکریٹریٹ، صوبائی شاخوں اور متفرق خصوصی ٹاسک کمیٹیوں کے ذریعے ایچ آر سی پی نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باقاعدہ اندراج کیا، انسانی حقوق اور انفرادی اور شہری آزادیوں کی علمبرداری کی اور سب سے بڑھ کر ان مظلوموں کی آواز بنا جن کی نہ آواز تھی نہ شنوائی۔

میں سولہ برس کا تھا جب میں پشاور کے ڈینز ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر سے ملا جہاں وہ بائیں بازو کے دانشور اور کہنہ مشق صحافی آئی اے رحمٰن کے ساتھ ایچ آر سی پی کی صوبائی تنظیمی میٹنگ میں آئی ہوئیں تھیں۔ جب کارِ منصبی ختم ہوا تو کچھ چنیدہ ساتھی عاصمہ جہانگیر اور رحمٰن صاحب کے ساتھ غیر رسمی شخصی نشست کے لیے ان کےکمرے میں چلے گۓ۔ میں واقعتاً عاصمہ جہانگیر کے قدموں میں بیٹھا ان کو سنتا اور ان سے سیکھتا رہا۔ اس بعد سے وہ میرے لیے عاصمہ آپا تھیں، ایک استاد اور کامریڈ جن کی جانب میں رہنمائی اور انسپیریشن کے لیے دیکھتا تھا۔ یہ میٹنگز تواتر سے ہوتی تھیں اور بعد کی مجلس تو ایک سٹڈی سرکل یا علمی حلقے کا رنگ اختیار کر لیتی۔ عاصمہ جہانگیر،رحمٰن صاحب اور مشہور صحافی مرحوم عزیز صدیقی جو ایچ آر سی پی کے سربراہ بھی رہے، سیاست، پالیسی، اور بالخصوص تحریکی فعالیت کی حکمتِ عملی اور داؤ بیچ کے رموز کمال شفقت سے بیان کرتے چلے جاتے۔

عاصمہ جہانگیر ہمیشہ کہا کرتیں کہ کارکن کو اپنی اقدار کی طاقت سے متحرک ہونا چاہیے، اس کے لیے جی داری بھی ضروری ہے اور ایک سوچنے والا دماغ بھی۔ وہ فعالیت کے لیے تنظیم اور آپسی رابطوں پر بہت زور دیتی تھیں۔ چند سال بعد ایک تعلیمی معاملے میں میرا اور میرے ساتھی میڈیکل سٹوڈنٹس کا پشاور یونیورسٹی سے تنازعہ ہوگیا۔ یونیورسٹی نے زبردستی کرنی چاہی مگر ہم بھی کچھ سرد و گرم چشیدہ ہو چکے تھے۔ ہم نے یونیورسٹی پر پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ فیصلہ نہ صرف ہمارے حق میں آیا بلکہ چیف جسٹس نے اسے رپورٹ بھی کروایا۔ یونیورسٹی حکام نے منغض ہو کر ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں وکلاء کی فوج کے ذریعے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپیل کردی۔ میں سیدھا لاہور گیا اور عاصمہ جہانگیر سے کُل معاملہ بیان کیا۔ انہوں نے چشم زدن میں ہمارا، یعنی چند کنگلے طلباء، کا مقدمہ لڑنے کی حامی بھر لی اور وہ بھی بغیر فیس لیے۔ دو اور بلند پایہ وکلاء عابد حسن منٹو اور مرحوم کے ایم اے صمدانی نے بھی ہماری پیروی پر آمادگی ظاہر کی۔ لطف کی بات یہ کہ اس کے بعد یونیورسٹی ہر بار عدالت سے التواء کا تقاضا کرتی رہی۔ خدا جانے ان باوقار، باصفا ناموں سے گھبرا گئی شاید۔

عاصمہ جہانگیر میرے لیے اخلاقی قطب نما تھیں، ایک کسوٹی جس پر میں کسی بھی سیاسی و سماجی معاملے کو پرکھ سکتا تھا۔ اگر کبھی ذہن میں الجھاؤ ہوا تو فقط اتنا دیکھ لینا کافی ہوتا تھا کہ عاصمہ جہانگیر اس مسئلہ پر کہاں کھڑی ہیں کہ جہاں وہ ہوتیں وہی مقام درست ہوتا۔ پچھلے بتیس برس میں میری نظر سے کوئی ایسا سیاسی، سماجی یا قانونی مسئلہ نہیں گزرا جس پر عاصمہ جہانگیر کی پوزیشن اور استدلال غلط ہو۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ چند مرتبہ جب ہمارے دوسرے رہنماء اور اساتذہ اجتہادی غلطیاں کر بیٹھے، عاصمہ جہانگیر اس وقت بھی صحیح سمت میں جا رہی تھیں۔ ایک مرتبہ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے پشاور کی ایک نوجوان خاتون سامیہ سرور، جو کالج میں میری جونیئر رہ چکی تھی، کا کیس لیا۔ واقعہ یوں تھا کہ سامیہ کے والدین نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کردی تھی اور وہ اس سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کی مدد چاہتی تھی۔ لڑکی کے والد متمول بزنس مین تھے اور والدہ ہمارے علاقے کی ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے خلاف قانونی، صحافتی اور سیاسی زعماء کو متحرک کیا۔ بات پاکستان کے سینٹ تک پہنچی جہاں ہمارے مشفق اور محترم بائیں بازو کے قائد و دانشور اجمل خٹک مرحوم نے بھی لڑکی کے والدین کی نام نہاد غیرت کی تھیوری مان لی۔ مگر عاصمہ جہانگیر لڑکی کی قانونی پیروی سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں۔ سامیہ کی والدہ نے اپنی بیٹی سے ملاقات کی اجازت مانگی اور اپنے ہمراہ اپنے ایک گارڈ کو لے کر آئیں جسنے سامیہ کو عاصمہ جہانگیر کے دفتر کے اندر قتل کردیا۔ عاصمہ جہانگیر ہمارے سماج کے ایسے بہیمانہ رویے کے خلاف برسر پیکار رہی جو رواج کے نام پر اپنی اولاد کو خون میں نہلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اگرچہ عاصمہ جہانگیر نے کبھی باقاعدہ سیاست نہیں کی مگر ان کی سیاسی بصارت 20/20 اور بصیرت سیاستدانوں کے لیے بھی قابلِ رشک تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پر چوتھا مارشل لاء مسلط کیا تو عاصمہ جہانگیر ان معدودے چند لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے اس کی فوراً مخالفت و مذمت کی۔ کئی سیاسی قائدین، سماجی دھڑے بلکہ بعضے بائیں بازو کے لوگ بھی مشرف کی آئین شکن بغاوت کو ایک لبرل جنرل کا انقلاب سمجھ رہے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے ببانگ دہل کہا کہ کتے پالنے اور الکوحل کا شوق رکھنے سے کوئی لبرل نہیں ہوجاتا۔ لبرل ازم سیاسی اور شخصی آزادیوں اور اقدار کا نام ہے جن سے مشرف کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔

عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی فوج سے اختلاف شخصی نہیں تھا بلکہ مضبوط اصولوں پر استوار تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے سے لے کر آج تک فوج پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بنانا چاہتی ہے جس کی ماوراء النسلی بنیاد آرمی کے وضع کردہ اسلامی نظریات، ہندوستان دشمنی اور جنگویئت پر ہو اور جہاں حقِ حکمرانی عوام کے ووٹوں کی بجاۓ فوج کی پسند و ناپسند پر مبنی ہو کہ جب جی چاہا مارشل لاء لگا دیا اور جب پسند ہوا تو پس پردہ حکومت کی- اس کے برعکس عاصمہ جہانگیر ایک ایسے پاکستان کی داعی تھیں جو وسیع المشرب اور متنوع قومی ریاست ہو، یعنی ایک ایسا وفاق جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو۔ ایسا نہ تھا کہ وہ بعضے سیاستدانوں کی خامیوں سے آگاہ نہ تھیں اور نہ انہوں نے ایسی کسی چیز کی پردہ پوشی کی۔ ان کا نظریہ یہی تھا کہ جمہوریت کے بگاڑ مزید جمہوریت لانے سےسنورتے ہیں نہ کہ نت نئی آمریتیں مسلط کر کے۔ وہ پنجاب سے تعلق رکھتی تھیں مگر بلوچ، پشتون، سندھی اور کشمیری سب کے حقوق کے لیے سدِ سکندری کی طرح کھڑی رہیں۔ وہ صحیح معنوں میں آفاقیت کی پرچارک تھیں اور بطور انٹرنیشنلسٹ سرحدوں وغیرہ کو خاطر میں نہ لاتی تھیں۔ ان کا عقیدہ انسان دوستی تھا اور اس کی جستجو انہوں بے مثال لگن اور لازوال جرات سے کی۔

عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد تو جاری رکھنا ہی ہو گی مگر گو کہ موت برحق ہے، ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ چل بسیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی وجود کا ایک بہت بڑا ٹکڑا جدا ہو گیا۔ الوداع عاصمہ آپا، “آپ کے چہرے پر مجھے عزت، سچائی اور وفا کا نقشہ نظر آتا تھا”-

اس سیریز کے دیگر حصےدعا کی طالب عاصمہ جہانگیر کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حالسو شیر جوانوں پہ بھاری ایک نہتی لڑکی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).