سندھ کی بیٹی اور فسٹیولا کی بیماری (1)


سندھی لڑکیاں کبھی بھی مجھے اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکیں۔ مجھے وہ خوب صورت لگتی ہی نہیں تھیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت دنوں تک میں یہی سمجھتا رہا کہ سندھی لڑکیوں میں ضرور کوئی خرابی ہوتی ہے۔ ان میں کوئی جسمانی نقص ہے یا یہ کچھ ادھوری سی ہیں۔ میں نے کبھی بھی انہیں مکمل یا حسین نہیں سمجھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سندھ کے بڑے سے بڑے سیاستدان، پیر، وڈیرے یہاں تک کہ متعصب قوم پرستوں نے بھی ایک نہ ایک غیر سندھی عورت گھر میں ضرور رکھی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ میرے پڑھے لکھے سندھی دوستوں میں سے آدھوں کی بیویاں سندھی نہیں تھیں۔

لیکن میں نے موران کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ اتنی خوب صورت عورت، لفظ ’خوب صورت‘ اس کے حسن کا مکمل طور پراحاطہ نہیں کرسکتا تھا۔ میری نظروں کے سامنے سے کلاڈیا شیفرڈ، نومی کیمبل، جیری ہل، یاسمین غوری اور مادھوری ڈکشٹ ایک کے بعد ایک گزرتی چلی گئیں مگر اجرک میں چھپی ہوئی یہ لانبی لڑکی مختلف تھی، بہت مختلف۔ اچھی تھی بہت اچھی۔ میں ساکت ہوکر اسے تکتا رہ گیا۔

لانبے قد کے اوپر طویل سی گردن، اس کے پیچھے سے چپٹے سر اور گھنے بالوں کے ساتھ جو چہرہ تھا اس میں ایک عجب قسم کا سحر تھا۔ اضمحلال زدہ چہرہ، گہری سیاہ آنکھوں کے ساتھ ایک عجیب طرح کی کشش تھی اس میں۔ وہ ٹھٹھہ سے آئی تھی۔

ٹھٹھہ شہر سے 14 میل دور ان لوگوں کا گاﺅں تھا۔ چھوٹا سا، جہاں جنم جنم سے اس کا پریوار رہتا تھا۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو اس کی ماں وہیں پیدا ہوئی تھی۔ اس کی ماں نے بار بار اسے یہی بتایا تھا کہ جب وہ پیدا ہوئی تو موران کی نانی مرگئی تھی۔ پیدا ہونے کے ساتھ اتنا خون بہا تھا کہ گاﺅں کی دائی کو وہ واقعہ کئی سال یاد رہا تھا۔ اس کی ماں دودھ کے لئے روتی رہ گئی تھی اور نانی کے جسم کا خون آہستہ آہستہ بہہ گیا تھا۔ اس کی ماں اَن دیکھی، مری ہوئی اس عورت کو نہیں بھول سکی تھی۔ پھر اس کی بھی شادی ہوگئی اور 1965ء کی جنگ کے فوراً بعد موران پیدا ہوئی۔ اس کا باپ اسے ٹھٹھہ کے ہسپتال لے کر گیا تھا جہاں اس پر بار بار دورے پڑے تھے۔ وہ پانچ دن تک بے ہوش پڑی رہی تھی۔ شاید کئی دفعہ مری تھی۔ گاﺅں آنے کے بعد باپ نے بتایا تھا کہ کئی دنوں تک وہ اچھی نہیں رہی، پھر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ وہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ موران کے علاوہ کوئی اور اس کا بچہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ موران کے پیدا ہونے کے بعد اس کی بچہ دانی میں کوئی خرابی ہوگئی تھی۔ اس کے باپ نے بھی دوسری شادی کرلی تھی۔

موران کی شادی بخش علی سے ہوئی تھی۔ وہ بھی موران کی طرح خوب صورت جوان تھا۔ گاﺅں کی کھلی فضاﺅں کا پلا ہوا تھا اورکھیتوں میں کام کر کر کے مضبوط جسم کا مالک بنا تھا۔ دیوانوں کی طرح چاہتا تھا موران کو اور چاہتا بھی کیوں نہیں، وہ تھی ہی ایسی۔ چاہنے کے قابل اور پوجنے کے قابل۔ اسے پاکر وہ خوش ہوگیا تھا جیسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔ وہ بھی بہت خوش ہوئی تھی بخش علی کو پاکر۔ ان دونوں کو راضی خوشی دیکھ کر موران کی ماں بھی بہت سال کے بعد کھلکھلاکر ہنسی تھی۔ زندگی حسین تھی، دیہات کی تمام تر مشکلات، مجبوریاں، نامحرومیوں کے باوجود صبح ہوتی تھی تو زندہ رہنے کی خواہش کے ساتھ ہوتی تھی اوررات اس امید کے ساتھ کہ کل تو پھر صبح ہونی ہے۔

جیسے ہی موران کے حمل ٹھہرا، چھوٹے سے اس کنبے میں ایسا ہی ہوا تھا جیسے ہزاروں سال کے بعد کسی دیہات میں بجلی آجاتی ہے۔ بخش علی اور موران نے اکٹھے بہت سارے خواب بُنے تھے۔ مستقبل کو دور تک دیکھا تھا، کوکھ میں پلنے والی اس ننھی سی روح کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچ لیا تھا۔ زندگی حسین تھی، خوبصورت تھی، صبح کے سورج کی طرح تازہ دم، اُبھرنے کی تمام طاقتوں کے ساتھ رواں دواں….

موران کی ماں اسے ٹھٹھہ کے ہسپتال لے جانا چاہتی تھی، اسے اپنی ماں کی موت یاد تھی جس کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا کہ کس طرح سے خون بہا تھا اور کیسے وہ مرگئی تھی۔ اسے موران کا پیدا ہونا یاد تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ موران کے ساتھ بھی ایسا ہو، اس کی زندگی میں تو صرف موران تھی، صرف موران۔ شوہر کی دوسری شادی کے بعد تو وہ اسے ہی دیکھ دیکھ کرزندہ رہی تھی۔

مگر دائی خدیجہ کا خیال تھا موران کا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا اور موران کے سسرال والے خدیجہ کے تو جیسے مرید تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر موران شہر گئی توآپریشن ہوجائے گا۔ موران بھی آپریشن نہیں کرانا چاہتی تھی۔ کتنی عورتیں ٹھٹھہ کے ہسپتال میں آپریشن کے دوران یا آپریشن کے بعد مرگئی تھیں۔ خوشی کے اس گھر میں بچے کا جنم دن جیسے جیسے قریب آرہا تھا، ویسے ویسے ایک انجانے خوف کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔

پھر یہی ہوا کہ موران کی ماں کی کوششوں کے باوجود جب موران کے درد اٹھنے شروع ہوئے تو دائی خدیجہ کی ہی بات مانی گئی۔ دو دن تک وہ درد میں تڑپتی رہی اور دائی خدیجہ یہی کہتی رہی کہ بس اب بچہ ہونے والا ہے اور اب بچہ ہوجائے گا۔ مگر بچہ نہ ہوا وہ تڑپتی رہی، سسکتی رہی اور اس کی ماں گھر کے باہر بلکتی رہی اور بخش علی سے الجھتی رہی۔ جب پاکستان بنا تھا تو اس کی ماں مرگئی تھی۔ 65ءکی جنگ کے بعد جب اس نے موران کو جنم دیا تھا تو خود مرتے مرتے بچی تھی۔ بانجھ ہوکر رہ گئی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی بیٹی بھی مر جائے گی۔ اس کا اپنا غم تو اسے یاد بھی نہیں تھا۔ اسے ایسا لگا تھا جیسے زندگی ایک طویل کرب سے بھری کراہ رہی ہے۔ جب سب کو یقین ہوگیا کہ موران مرجائے گی تو اسے موہنجودڑو کے زمانے کی بیل گاڑی پر ڈال کر دھیرے دھیرے ہچکولے کھاتے ہوئے چھ گھنٹے میں وہ لوگ ٹھٹھہ کے سول ہسپتال پہنچے۔ دوپہر کے بارہ بجے، پتھروں کی اس عمارت کو دور سے دیکھ کر انہیں ایک امید سی پیدا ہوئی تھی۔ ایک آسرا سا ہوا، ایسا لگتا تھا جیسے بہت سارے امید کے دیے جل اُٹھے ہیں۔ ہسپتال پہنچ کر بخش علی اور موران کی ماں نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر موران کو زچہ وارڈ میں بچہ جننے کے کمرے میں پہنچایا۔ وہاں کوئی بھی ڈاکٹر نہیں تھا اس گندے سے کمرے میں ٹوٹے ہوئے چار بستر نما میزوں پر عورتیں پڑی ہوئی تھیں۔ دوسرے کمرے میں عورتیں زمین پر لیٹی ہوئی نہ جانے کس کا انتظار کررہی تھیں۔ ڈاکٹر صبح آئی تھی اور گیارہ بجے ایمبولینس لے کر چلی گئی تھی۔ بوڑھی سی نرس جس نے موران کو دیکھا، اس نے موران کی ماں کو سمجھایا کہ موران کو فوراً کراچی کے سول ہسپتال لے کر چلی جائے، کیونکہ اس کا تو آپریشن ہوگا، آپریشن کرنے والی ڈاکٹر آ بھی گئی تو بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر نہیں ہے اور پچھلے ایک ہفتے سے آکسیجن بھی ختم ہوگئی تھی۔ اس ہسپتال میں ہے کیا، انگریزوں کی بنائی ہوئی پتھر کی عمارت، اس عمارت کے پتھر بھی بک جاتے اور سرکاری اہلکار انہیں بھی اپنے گھروں میں لگالیتے اگر ان کا بس چلتا۔ یہ ہسپتال تھوڑی تھا کچھ لوگوں کے پیدا کرنے کے لئے جگہ تھی۔ ہزاروں سال پرانے ٹھٹھہ شہر میں ہزاروں سال سے زمین پر رہنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہی اب تک ہورہا ہے۔ علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے، کونسلر اورسرکاری اہلکار کے وہ مسائل ہیں ہی نہیں جو موران اور اس کی ماں کے تھے۔

موران کی ماں کو ایسا لگا جیسے اب اسے زندگی کا بقیہ سفر موران کے بغیر ہی گزارنا ہوگا۔ اس کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی تھی، ایک درد سا ہوا تھا۔ کھلے ہوئے نیلے آسمان کی طرف دیکھ کر اس کے آنسو نکل آئے تھے۔ گڑگڑا کر اس نے دُعائیں کی تھیں۔ سیہون کا واسطہ دیا تھا۔ ٹھٹھہ کے مزاروں کی قسم دی۔ ان پیروں اور شاہوں کو یاد کیا جن کے پاﺅں پر اس کے گاﺅں کے لوگ سر رکھتے تھے، جن کے کہنے سے ووٹ دیتے تھے، جن کے حکم پر جان دیتے تھے۔ آسمان سے زمین تک سیہون سے ٹھٹھہ کے مزاروں تک سناٹا تھا، خاموشی تھی اورزندگی ایک ایسا سفر تھی جو ختم ہونے سے پہلے چرکے پر چرکا لگارہا تھا۔

منگھی ٹرانسپورٹ کی بس پر درد سے تڑپتی ہوئی موران نے اپنا سفر شروع کیا۔ گھارو، گجوالے جی، دھابے جی، پپری، اسٹیل مل، لانڈھی، ملیر، ڈالمیا، سبزی منڈی، تین ہٹی، لسبیلہ اور گارڈن سے ہوتی ہوئی، جھٹکے کھاتی ہوئی موران کی طرح سے ہی تڑپتی ہوئی بس لی مارکیٹ پہنچی۔ ادھ مری موران کو ٹیکسی میں ڈال کر وہ سول ہسپتال پہنچے۔

ڈاکٹروں نے دیکھا اور اسے آپریشن تھیٹر لے کر گئے۔ بخش علی نے خون دیا، نیچے میڈیکل اسٹور سے بھاگ بھاگ کر دوائیں لایا، بے ہوشی کی دوا، اینٹی بائیوٹک، پیشاب کی نلکی، پیشاب کی تھیلی، روپے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے تھے۔ بخش علی کا چہرہ سوکھتا جارہا تھا اور اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ختم ہوتے جارہے تھے۔ زندگی صحرا کی طرح خشک بھی تھی اور ویران بھی۔

مری ہوئی بچی پیدا ہوئی تھی۔ موران کی ماں نے سوچا اچھا ہوا مرگئی۔ بچی کے لئے سندھ میں رکھا ہی کیا ہے۔ اسے صرف موران کی فکر تھی۔ جب وہ آپریشن تھیٹر سے نکلی تو اسے ایسا لگا کہ وہ مرچکی ہے۔ اس کے منھ، ہاتھ، پیٹ اور نہ جانے کہاں کہاں ٹیوب لگے ہوئے تھے۔ خون جارہا تھا، خون آرہا تھا۔ بہت دیر تک اس کے خشک حلق میں سانس اٹکی رہ گئی۔

دو دن بعد موران کو ہوش آیا۔ بخار سے تپا ہوا چہرہ اوربدن۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ اس کی ماں کو لگا جیسے خود اس نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ جیسے دنیا دوبارہ خودبخود وجود میں آگئی ہے۔ کائنات رقص کررہی ہے اورسندھ کے صحرا بارش سے جل تھل ہوگئے ہیں۔

موران کو دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔ دسویں دن جب ڈاکٹروں نے پیشاب کی نالی نکالی تو پیشاب خود بخود آنے لگا تھا۔ وہ پیشاب روک نہیں سکتی تھی۔ وہ لیٹی ہو کہ بیٹھی ہو، کھڑی ہو کہ چلتی ہو،پیشاب آہستہ آہستہ بہتا رہتا تھا۔

ڈاکٹروں نے دیکھا اور کہا تھا کہ موران کو دس ہفتے کے بعد دوبارہ لانا ہوگا۔ اس وقت اس کا آپریشن کیا جائے گا جس سے پیشاب رُک جائے گا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).