پاکستان کے جاہل عوام


پاکستان کے اصل فیصلہ سازوں کے کھلواڑ بہت لطف آمیز ہوتے جا رہے ہیں اور سیاست جیسے اک مئے خراب ہے جس کو مُنی سے بھی زیادہ بدنام کرنا ہے، مگر اِس بدنام کی ٹھنڈی چاندنی کی خوابیدگی میں مزے بھی کشید کرنے ہیں۔ کتب بینی کی عادت جب کچھ راسخ ہوئی تو اک فیصلہ یہ کیا تھا کہ اب اپنا مطالعہ جنوبی ایشائی خطے کے ہی فکشن اور تاریخ کے آس پاس رکھنا ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جس سے میری شناخت جڑی ہے اور یہاں موجود کرداروں کے ساتھ کہ چاہے وہ شنکر، گرومان ہو یا حیدر، مجھے اپنا تعلق محسوس ہوتا ہے تو صاحبو، پاکستانی تاریخ کو اپنی بساط کے مطابق کھنگالنے لگا۔ معلوم یہ ہوا کہ پاکستان عوام کو تو شروع سے ہی جہلا اور “فضلہ” سمجھا گیا تھا کہ جنہیں پاکستانی سیاست کا کچھ معلوم نہیں تو لہذا، ڈرائنگ رومز میں بیٹھے سمجھدار اور طاقتور لوگ تھے جنہوں نے سیاسی فیصلہ سازی میں ہمیشہ اپنی مرضی گھسائے رکھی۔ کبھی کبھار یہ کام خود ڈنکے کی چوٹ پر سامنے آ کر کیا تو کبھی بھٹو، نواز شریف اور عمران نیازی صاحب کو سامنے لا کر کیا۔

کیا ہی عجب تماشہ یہ بھی رہا کہ جب بھٹو، نواز اور عمران کو آگے لانے کا عمل جاری تھا تو ساتھ ہی ساتھ میں جبہ و دستار کے پاکیزہ لوگوں کو بھی ہائی سپیڈ ڈیزل کی خوارک دئیے رکھی کہ خبردار، سیاستدانوں کو سکون سے حکومت کر لینے دینا پاکستانی سیاست کا اک شِرک نما گناہ کبیرہ ہے اور اس کی معافی نہیں۔ لہذا، جبہ و دستار کے مہیا ہونے کی اک لمبی تاریخ ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ حالیہ فیض آباد مارچ تھا۔ ان مسکراتے اشاروں پر واضح ہونے کے لیے روزنامہ ڈان کی یہ رپورٹ دیکھ لیجیے

https://epaper.dawn.com/DetailNews.php?StoryText=13_02_2018_004_007

جھوٹ کیا بولنا، کہ سچ یہی ہے کہ بھٹو صاحب، میاں نواز شریف صاحب، دونوں بوٹ پہنتے رہے مگر جب عوامی کھڑاووں میں آئے اور عوام کی محبتوں، آدرشوں، امیدوں اور نعروں کے طاقت کے ٹیکے لگے تو اپنی روح اور جسم میں نئی زندگی محسوس کرتے ہوئے، اپنی اک آزاد سیاسی زندگی کا تصور کرنے کا دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ کر ڈالا۔

نتیجہ: اک پھانسی کے پھندے پر جھولتا رہا۔ دوسرے کو ٹھڈے مار کر دو مرتبہ پاکستان سے نکالا گیا۔

ویسے یہ عوام کے شعور میں ترقی کا ہی اظہار ہے کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے کو تو لاکھوں کندھا دینے آئے، خدا بھلا کرے اس وقت کے سرکاری ٹی وی اور مرحوم اظہر لودھی صاحب کا کہ خوب دھول اڑائے رکھی، مگر نوازشریف کو دو مرتبہ ٹھڈے مار کر پاکستان سے باہر نکالنے والے کے لیے پاکستان کی کسی صوبائی اکائی میں کوئی جگہ نہیں۔ اور نہ ہی ہوگی۔ ویسے، بلوچستان میں کوشش کرلیں، شاید وہاں اپنی جماعت کی حکومت بنا لیں!

بھٹو اور نواز شریف تو عوامی کھڑاویں پہن چکے، مگر ہمارے اک نئے انقلابی ہیں جو بصد نہیں، بلکہ بہزار شوق چھلانگ مار مار کر بوٹ میں جانے کے شوقین ہیں اور وہیں کے مکین ہیں۔ اپنے انقلابی دھرنے میں موصوف نے ایمپائر کی انگلی کھڑی کروانے اور انقلاب لانے کی بہت کوشش کی مگر کُل برآمدگی اک نکاح ہی ٹھہری جو اک سال بعد باطل ہو گئی۔ عقلمندوں کی ہی حکمت عملی تھی کہ سیٹھ میڈیا نے پارلیمان کے سامنے موصوف کے نکاحی مارچ اور کینیڈوی مداری کی چھلانگوں کو ایسے ظاہر کیا کہ پاکستانی حکومت اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ نکاحی دھرنے کی پہلی سالگرہ پر سینیٹر مشاہداللہ نے پھر جواب دیا۔ ان کے جواب کے بعد لوگوں نے یہ سمجھا کہ سیاستدان کی موت ہو گئی ہے۔ مشاہداللہ موجود ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے۔

پاکستان کے عوام کو جاہل کہنے اور سمجھنے کا اک قبیح رواج ہے جو آسانی کی مڈل کلاس بہت آرام سے معاشرے میں قائم رکھے ہوئے ہے۔ چونکہ ریاست کے پیشہ ور اداروں میں کام کرنے والے آہستہ آہستہ لو سے مڈل اور پھر اپر مڈل اور ایلیٹ کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں تو انہیں عوام اور ان کے نمائندوں کی جاہلیت کچھ زیادہ ہی چبھنے اور تنگ کرنے لگتی ہے۔ انہیں پھر نیازی صاحب جیسے “شعلہ بیاں” اور “رطب اللساں” مقرر مل جاتے ہیں جو میڈیا پروپیگنڈا کی طاقت سے مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ موجودہ سیاستدان اس کرہءارض نہیں، بلکہ پوری کائنات کی بدترین مخلوق ہیں۔ پھر سیاست کی اس دوغلے (Hybrid) ماڈل میں شروعات بھلے ایاک نعبد و ایاک نستعین اور اللہ الحق سے ہوتی ہو، اصل مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔

جاہل عوام مگر کچھ اور ہی کر دیتے ہیں، اور تقریبا ہر مرتبہ ہی!

لودھراں میں موصوف کی انقلابی جماعت جب پرسوں الیکشن ہار گئی تو اک پڑھے لکھے انقلابی دوست نے کہا کہ پاکستانیوں جیسے جاہل، کرپٹ اور بےغیرت عوام، عمران نیازی صاحب جیسا صاف، شفاف اور اجلا سیاست دان Deserve ہی نہیں کرتے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ نیازی صاحب سے کہیں کہ مریخ پر چلے جائیں۔ وہاں کے ٹِبے ٹِیلے ابھی بہت صاف، شفاف اور اجلے ہیں، وہ بخوشی انہیں وزیراعظم بنا لیں گے۔ کیونکہ جہاں تک پاکستان کے جاہل عوام کا تعلق ہے، یہ ہمیشہ کے جاہل ہیں، ہمیشہ جاہل ہی رہیں گے، انشاءاللہ۔

پس تحریر: چونکہ میں اپنے حصے کا انقلاب بہت عرصہ قبل کر آیا ہوں، تو میں بھی جاہل عوام کا ہی حصہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).