حلال ویلنٹائن ڈے اور بسنت


کہاجاتا ہے کہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے الگ الگ قوموں کے دو تہوار ہیں۔ بسنت ہندووٴں کا اور ویلنٹائن ڈے عیسائیوں کا۔ ہندووٴں کے ہاں بسنت میں مذہبی رنگ بھی شامل ہے جبکہ عیسائیوں کے ویلن ٹائن ڈے کو ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ایک مسلم معاشرہ غیر مسلم تہواروں کو منانے کی گنجائش رکھتا ہے یا نہیں؟

تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ گنجائش رکھتا ہے اس لئے کہ کسی بھی علاقہ کی ثقافت کا مذہب سے کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتا کیونکہ علاقائی ثقافت تو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل یا ارتقا پذیر ہوتی رہتی ہے جبکہ مذہب بالخصوص دین اسلام اپنی محکم روایات اور اصول و اقدار رکھتا ہے جس میں علاقائی تبدیلیاں اس انداز سے ہرگز اثر انداز نہیں ہوسکتیں کہ اس کے ان بنیادی احکام ہی کو ردوبدل کا نشانہ بنا ڈالیں بلکہ اگر عملاً مذہب ہی ردّوبدل کا شکار ہوجائے تو وہ اپنی الہامی حیثیت کھو دیتا ہے۔

اب رہی بات ویلنٹائن ڈے اور بسنت منانے کی تو آئیے اس کا مختصر جائزہ لیتےہیں کہ ویلنٹائن ڈے اور بسنت آخر ہیں کیا؟
ویلنٹائن ڈے کا مطلب ہے یوم تجدید محبت، محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اسی طرح معاشرہ میں ہر فرد اس کامتلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اورمحبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں

سادہ الفاظ میں ویلنٹائن ڈے کا مطلب ہے اپنے محبوب کو تحفہ دینا اور محبت نبھانے کا عہد کرنا۔ ویلنٹائن ڈے پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے مگر وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اِب یہ جدید شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جب سے کمیونیکیشن نے فاصلے کم کرنے شروع کیے ہیں ایک علاقے کے رسم و رواج دوسرے علاقوں میں تیزی سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی، ڈش، کیبل اور انٹرنیٹ نے اِب گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں چھوڑا جو دوسرے خطوں کے رسم ورواج سے متاثر نہ ہواہو۔ انڈیا کی ثقا فت کی پاکستان پر یلغار سب کے سامنے ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی عاشقوں کے لئے ایک نعمت بن کر واردہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے اُسے صرف پھول یا پھر ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اُس تک پہنچا سکتے ہیں۔ آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔

مذہبی ناقدین کا کہنا ہے کہ ہم نے ویلنٹائن، بسنت اور ہندوانہ طرز کی شادی کی رسومات کو تو بہت آسانی سے اپنا لیا مگر یورپ اور ہندوستان کے اچھے اُصولوں کو نہیں اپنایا۔
میری ان مذہبی بھائیوں سے دست بدستہ گزارش ہے کہ آپ کو کس نے روکا ہے کے آپ یورپ کے اچھے اصّولوں کو نہ اپنائیں
اور دوسری بات یہ کہ بسنت مذہبی نہیں بلکہ علاقائی تہوار ہے اور ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن۔ اسلام علاقائی تہواروں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ ہر خطے کے کلچر کو اپنے دامن میں سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے سوائے ان باتوں کے جن سے انسان کے اخلاقی وجود کو کوئی عارضہ ہوسکتا ہے

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر موسم بہار کا تہوار منانے میں کیا خرابی ہے؟ جہاں تک مرا مشاہدہ ہے اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو۔ آپ تاریخ کا جائزہ لے لیں آپ کو پتا چلے گا کہ اسلام نے مقامی رسوم و رواج کو نہ کبھی پامال کیا اور نہ معصوم مسرتوں کو روندا۔ صرف یہ کہ قرینہ باوقار اور شائستہ ہونا چاہیے۔

آپ تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایران میں اشاعت ِاسلام کے بعد بھی نو روز کا تہوار منایا جاتا۔ علما اس کی حوصلہ افزائی تو نہ کرتے تھے لیکن کچھ زیادہ حوصلہ شکنی بھی نہیں۔ ہم صوفیوں کے ایک گروہ کو ان تقریبات میں شریک دیکھتے ہیں۔ بارہ سو برس ہوتے ہیں، دشت سوس کے ایک گاوٴں میں احمد اپنے مرشد حسین بن منصور حلاج کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آمد ِبہار کی مبارکباد پیش کرے۔ حسین نے جنہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہونا اور آنے والی تمام صدیوں میں ایک مہکتا ہوا استعارہ بننا تھا، سراُٹھا کر اسے دیکھا اور یہ کہا: ”میرا نوروز ابھی نہیں آیا“

رہی بات بسنت کی تو پتنگ سازی کا آغاز ہزاروں سال قبل مسیح ہوا جبکہ دنیا بھر میں اسے اصلاً تو تفریح کی غرض سے لیکن اس کے علاوہ اسے سائنسی تجربات، عسکری مقاصد، پیغام رسانی جیسے مفید کاموں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ بسنت کے تہوار کے ساتھ بھی بہت سی خرابیاں وابستہ ہوگئی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح ہو، نہ کہ ہم بسنت ہی کو غیر اسلامی ثابت کرنے کے لئے دلائل تراشنے لگیں یا اس کی غیر مسلم قوم سے متعلق قرار دیں۔ اس کا صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم لوگوں کو مسلسل آگاہ کرتے رہیں کہ کیسے وہ اس تفریح سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز اٹھا سکتے ہیں اور کیسے خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی جان بھی جاسکتی ہے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya