دوسرے جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائی


دوسرا جولاہا بولا: یہ بات ٹھیک ہے کہ تم اچھے بھلے عقلمند ہو مگر جب میری دانشمندی کی کہانی سنو گے تو تم یہ بات تسلیم کر لو گے کہ میں تم سے کہیں زیادہ عقلمند ہوں اور ان پیسوں پر میرا ہی حق بنتا ہے۔

جب شادی کے بعد میں نے روایت کے مطابق سسرال جانے کا ارادہ کیا تو یہ فیصلہ کیا کہ سسرالیوں کو خوب شان و شوکت دکھاؤں گا۔ میں نے ایک ہمسائے سے گھوڑا ادھار مانگا، دوسرے سے ہتھیار لئے اور تیسرے سے کچھ زیورات۔ تو خوب سج بن کر گھوڑے پر سوار ہوا اور راستے پر نکلا تو جس مسافر کے پاس سے بھی گزرتا وہ یہی کہتا ”واہ، کیا ذی وقار اور دولت مند جولاہا ہے“۔ راستے میں تیز بارش نے آ لیا تو مجھے چند گھنٹے ایک گاؤں میں رکنا پڑا۔ بارش رکنے پر میں آگے چلا مگر اپنے سسرالی گاؤں تک پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی۔ مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس وقت سسرال میں گیا تو اندھیرے میں میری شان و شوکت کو کوئی نہیں دیکھ پائے گا لیکن اگر میں انتظار کر لوں اور دن کی روشنی میں گاؤں میں داخل ہوں تو سب گاؤں والے یہی کہیں گے کہ انہوں نے کتنا بہترین داماد پایا ہے۔

یہ سوچ کر میں گاؤں کے باہر ہی ایک فقیر کی جھونپڑی پر رک گیا اور گھوڑے سے اتر کر اسے سلام کیا اور اس کی جھونپڑی میں رات گزارنے کی اجازت چاہی۔
فقیر نے پوچھا ”تم راستہ چھوڑ کر اس طرف کس لئے آئے ہو؟ “
میں نے جواب دیا ”میں بس رات گزارنا چاہتا ہوں تاکہ صبح سفر جاری کروں“۔

”یہ اس گاؤں کا اصول ہے کہ مسافر یہاں آرام کرنے سے پہلے اپنے متعلق چوکیدار کو بتائیں“ فقیر نے کہا۔
”کیا تم مجھے چور تو نہیں سمجھ رہے ہو؟ میں صرف یہاں رک کر کچھ وقت گزارنے کی اجازت چاہتا ہوں“۔
”میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ان دنوں ادھر بہت چوری چکاری ہو رہی ہے اور تم محتاط نہیں رہے تو مشکل میں پڑ جاؤ گے۔ بہرحال میں تمہیں رکنے کی اجازت دے دوں گا بشرطیکہ تم میرے کپڑے پہن لو۔ پھر تمہارے اوپر کوئی شبہ نہیں کرے گا۔ اور میرے لئے گاؤں سے روٹی مانگ کر لاؤ“۔ فقیر نے کہا۔

”لیکن مجھے بھیک مانگنا نہیں آتا۔ مجھ پر مہربانی کرو اور مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دو۔ “
”باہر نکلو“، فقیر چلایا اور مجھے جھونپڑی سے باہر دھکیل دیا جہاں اب بہت سردی ہو چکی تھی۔
”ٹھیک ہے، اگر تم مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دو تو میں بھیک مانگ کر لے آتا ہوں“ میں نے بہت مجبور ہو کر کہا۔

فقیر نے میرا مال و متاع اور کپڑے اپنے قبضے میں کیے اور مجھے اپنے چیتھڑے پہنا کر کشکول میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے سسر کے گھر کے علاوہ ہر گھر سے بھیک مانگ لوں گا تاکہ میرے سسرال میں کسی کو پتہ نہی چلے۔
لیکن میں چند قدم ہی چلا تھا کہ فقیر نے آواز دی ”یاد رکھو، تم نے ہر گھر سے بھیک مانگ کر لانی ہے ورنہ میں تمہیں جگہ نہیں دوں گا۔ مجھے ہر گھر کی روٹی کی پہچان ہے“۔

اب میں پھنس گیا تھا۔ گاؤں کے ہر گھر سے بھیک مانگ کر میں اپنے سسر کے دروازے کے باہر کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ ایک طرف مجھے یہ ڈر تھا کہ فقیر مجھے اپنے جھونپڑے سے نکال دے گا اور دوسری طرف یہ خوب کہ کہیں مجھے سسرال والے پہچان نہ لیں۔

آخر حوصلہ کر کے میں اپنے سسر کے گھر کی طرف بڑھا اور صدا لگائی۔ میری ساس نے میری بیوی کو کہا کہ باہر فقیر آیا ہے، اسے روٹی دے دو۔ وہ مشعل لے کر باہر دروازے کی طرف بڑھی تو میں ڈر گیا کہ کہیں وہ روشنی میں مجھے پہچان نہ لے۔ جیسے جیسے وہ میری طرف بڑھتی گئی میں پیچھے ہٹتا گیا۔ اچانک میں پیچھے موجود تالاب میں جا گرا جو پانی اور کیچڑ سے بھرا ہوا تھا۔

میری بیوی یہ دیکھ کر چلانے لگی ”ماں بچارہ فقیر تالاب میں گر گیا ہے اور وہ خود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ ڈوب جائے گا“۔
میرا سارا سسرال اور اس کا محلہ تالاب کے پاس اکٹھا ہو گیا اور انہوں نے مجھے باہر نکالا۔ میرے سسر نے مجھے باہر نکال کر پوچھا ”تم کہاں رہتے ہو؟ “ لیکن سردی سے میرے دانت اس طرح بج رہے تھے کہ میں جواب دینے سے قاصر تھا۔

میرے سسر نے کہا ”یہ بچارہ فقیر تو ٹھنڈ سے مر جائے گا اور اس کا خون ہماری گردن پر ہو گا۔ اس کے نزدیک آگ جلا کر اسے گرم کرو“۔ لوگوں نے جھٹ پٹ آگ جلا دی۔ میری حالت کچھ بہتر ہوئی ہی تھی کہ ایک شخص نے کہا ”اس فقیر کی شکل تمہارے داماد سے کتنی ملتی ہے“۔

”ہاں ہاں میں وہی ہوں“ میں نے کپکپاتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ “ میرے سسر نے پوچھا۔
”سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس گاؤں میں گھوڑے پر سوار ہو کر آیا تھا لیکن کیونکہ دیر ہو گئی تھی تو میں گاؤں کے باہر فقیر کی جھونپڑی میں رک گیا اور اس نے مجھے اپنے پاس ٹھہرانے کے بدلے بھیک مانگنے کے لئے کہا۔ اس وجہ سے میں یہاں صبح دن کی روشنی میں پہنچنے کی بجائے اس وقت آنے پر مجبور ہو گیا“۔

یہ سن کر میرا سسر چلایا ”کیا بری قسمت ہے۔ وہ فقیر تو اس گاؤن میں کل ہی آیا تھا اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ دوڑو میرے بچے اور دیکھو اگر وہ ابھی بھی وہیں ہے“۔
سب لوگ فقیر کے جھونپڑے کی طرف دوڑے۔ جب ہم اس کے جھونپڑے کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ میرے قیمتی کپڑے پہنے میرا گھوڑا دوڑاتا دور جا رہا ہے۔ وہ میرے سب کپڑے اور زیورات بھی ساتھ لے گیا تھا۔

یہ دیکھ کر میری ساس مجھے کہنے لگی ”تم بھی بہت سیانے ہو داماد جی۔ تم سیدھے ہمارے گھر کیوں نہیں آئے؟ اس وجہ سے کہ اندھیرے میں کوئی تمہاری شان و شوکت دیکھ کر تعریف نہیں کرے گا؟ اب کل صبح دیکھنا، یہ قصہ سن کر پورا گاؤں پوری شان سے تمہاری عقل کو داد دینے اکٹھا ہو جائے گا“۔

یہ قصہ سنا کر دوسرے جولاہے نے مسافر کو کہا ”دیکھا میری عقلمندی کا قصہ، کس طرح میں نے سسرال میں اپنی عزت بچائی اور پورے گاؤں کو اپنی عقل کی داد دینے پر مجبور کر دیا؟ “
یہ سن کر تیسرے جولاہے سے نہ رہا گیا۔ اور اس نے اپنا قصہ بیان کرنا شروع کیا کہ کیسے اس نے عقل لڑا کر سسرال میں اپنی عزت بچائی (جاری ہے)۔

تو صاحبو، بات یہ ہے کہ عزت کا خیال رکھنا چاہیے خواہ اس کے لئے پیروں فقیروں کے ہتھے ہی کیوں نہ چڑھنا پڑے۔
(ایک قدیم دیسی حکایت)۔
Feb 14, 2018

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےایک جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائیتیسرے جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments