امریکی عوام کے لیے طالبان کا خط مذاکرات کی ضرورت پر زور


طالبان

طالبان افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں

افغان طالبان نے امریکی عوام اور کانگریس ارکان کے نام ایک کھلے خط میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ دھراتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیحی اللہ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں امریکی عوام اور ‘امن پسند’ کانگریس کے ارکان کو مخطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنی حکومت پر زور ڈالیں کے وہ پرامن ذرائع سے افغانستان کے مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔

اس خطے میں امریکی عوام اور دانشور کے سامنے افغانستان میں حالیہ تاریخ کی طویل ترین جنگ کے بارے میں کی سوالات بھی رکھے گئے ہیں اور انھیں ان کے جوابات پر غور کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

افغان عوام کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہوئے تحریک طالبان افغانستان نے اپنے آپ کو اسلامی امارات آف افغانستان کا نام دیا ہے اور کہا کہ وہ امریکی عوام اور امن پسند کانگریس ارکان سے کہتے ہیں کہ وہ امریکی حکمرانوں پر افغانستان پر قبضہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔

حظ میں کہا گیا ہے کہ ‘ہٹ دھرمی’ سے جنگ جاری رکھنے اور کابل میں ایک ‘کرپٹ’ اور ‘ُُغیر موثر’ حکومت کی پشت پناہی جاری رکھنے سے پورے خطے اور امریکہ کے اپنے استحکام کے لیے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ خط پشتو اور انگریزی زبانوں میں طالبان کی اپنی ایک ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔ ا

اس خط میں کہا گیا ہے کہ افغانستان پر امریکہ کی طرف سے غیر قانونی اور بلاجواز فوج کشی سے اب تک سترہ برس میں افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا ہے۔، امریکی فوج کو کافی زیادہ جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، دسیوں ہزار معصوم اور بے گناہ افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں، امریکی عوام کے ٹیکسوں کے ارب ڈالر ضائع ہوئے ہیں اور طالبان اس عرصے میں ایک طاقت ور قوت بن کر ابھریں ہیں۔

خط کے آخری حصہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے راستہ ابھی بند نہیں ہوا ہے لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ امریکہ اپنا قبضہ ختم کرے اور افغان عوام کی امنگوں کے مطابق طالبان کے افغانستان پر حکومت کرنے کے جائز حق کو تسلیم کرے۔

امریکی عوام اور کانگریس کے ارکان کو براہ راست مخطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ‘آپ اس بات کا اعتراف کریں گے کہ آپ کی سیاسی قیادت نے سترہ برس قبل ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حملہ نہ صرف ہمارے خودمختار ملک کے قانون کے خلاف تھا بلکہ یہ بین القوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی تھا۔’

امریکی عوام سے ٹھنڈے دل و دماغ سے صورت حال پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ آج بھی امریکی حکومت افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کی تین وجوہات بیان کرتی ہے۔ طالبان کے مطابق یہ وجوہات افغانستان میں غیر ملکی شدت پسندوں کا خاتمہ، کابل میں ایک مستحکم حکومت کا قیام اور ملک سے منشیات کی پیدوار کو ختم کرنا۔

ان تینوں معاملوں پر سترہ سال کی جنگ کے بعد پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد کہا گیا کہ امریکی فوجی حکام کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین ہزار پانچ سو چھیالیس امریکی فوجی افغان جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں، بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں اور دسیوں ہزار کو نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔

افغانستان میں طالبان کا اثر

اس کے علاوہ اس جنگ میں اب تک کھربوں ڈالر جھونکے گئے ہیں اور یہ عہد حاضر کی تاریخ میں امریکہ کی سب سے خونی، طویل اور مہنگی جنگ بن گئی ہے۔

طالبان نے اس خط میں یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں تناہ رہ گیا ہے اور اس کے اپنے اتحادی بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے جبکہ ان کا اپنے بارے میں کہنا تھا کہ انھیں اب بعض بیرونی طاقتوں اور ہمسایہ ملکوں سے حمایت حاصل ہو رہی ہے۔

اس خط میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے موجودہ حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے امریکہ بین الاقوامی سطح پر تناہی کو شکار ہوتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp