پیپلز پارٹی کی جمہوری تاریخ اور زرداری صاحب


ایک بات تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی کی جو جمہوری تاریخ ایک آمر کو ڈیڈی بنانے سے شروع ہو کر اور دوسرے آمر کو ریڈ کارپٹ دینے پر ختم ہوتی نظر آرہی تھی وہ آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ کل ہی کی تو بات ہے جب زرداری صاحب عباس شریف کی وفات پر تعزیت کے لئے جاتی امرا جانا چاہتے تھے اور نواز شریف صاحب زرداری صاحب کو تعزیت کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تھے اور زرداری صاحب سینئیر صحافیوں سے یہ شکوہ کرتے پائے گئے کہ انہیں جاتی امرا میں ماتھا ٹیکنے کی اجازت کا نہ ملنا اخلاقی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔ اس وقت ملاقات کے لئے مضطرب زرداری صاحب آج نواز شریف کا نام سننے کے لئے تیار نہیں۔

جلسہ عام میں ببانگ دہل اس نواز شریف کو درندہ اور ناسور کہتے پائے گئے جس کے بیٹے کے ہاتھ میں اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ہاتھ دے کر ان کا فرمانا تھا کہ نوے کی دہائی کا دور جہالت اب لد چکا۔ یہ دوستی اب نہیں ٹوٹے گی، صدیوں چلے گی۔ خیر سیاسی بقراط کے مطابق وعدے اور قول قرآن حدیث نہیں ہوتے۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ یہ انقلابی تبدیلی کیوں اور کیسے آئی، اس کے محرکات کیا ہیں؟ مفاہمت کے شہنشاہ کے اندر کا غیر مہذب متعصب جاگیردار کیوں اور کیسے جاگا؟

نواز شریف کی طرح زرداری صاحب بلکہ پیپلز پارٹی کی جیب میں کبھی بھی ووٹر کو متوجہ کرنے کے لئے کارکردگی کارڈ نہیں رہا۔ اقتدار میں آنے کے لئے پیپلز پارٹی کے پاس ہمیشہ صوبائیت کا کارڈ یا شہادت کو کیش کرانے کا مجرب نسخہ رہا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کا ہر اقتدار صرف صوبائی کارڈ یا شہادت کارڈ کا مرہون منت نہیں ہے۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو بھٹو صاحب نہ صرف یہ کہ ایک فوجی آمر ایوب خان کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست میں آئے بلکہ اقتدار میں آنے کے لئے بھی انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میسر رہی ورنہ یہ بات تو ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ خفیہ ہاتھوں یا انگلی کے اشارے کے بغیر 89 سیٹ والا کبھی بھی 160 والے سے یہ نہیں کہتا کہ وزارت عظمی میرا حق ہے۔ بھٹو صاحب جن کی مدد سے اقتدار میں آئے ان کو آنکھیں دکھانے پر پھانسی گھاٹ ان کا مسکن ٹھہرا۔

منظر بدلا شہید بی بی کے ہاتھ میں قیادت آئی۔ پہلی بار بی بی شہید خالصتا عوامی حمایت سے حکومت میں آئیں لیکن انہوں نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتے ہوئے خفیہ ہاتھوں سے اسحاق خان کو صدر بنانے جیسے سمجھوتے کئے اور اسلم بیگ کو جمہوریت کے چیمپئین کا درجہ دیتے ہوئے تمغہ جمہوریت سے بھی نوازا۔ اپنے آخری دور میں بی بی نے مشرف صاحب سے سمجھوتہ کر کے اقتدار میں آنے کی کوشش کی۔ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں جن سے معاہدہ کر کے آئیں، انہیں کو آنکھیں دکھانے کی غلطی دہرائی اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

اب زرداری صاحب اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو بخوبی یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ مجرب نسخہ اقتدار صوبائیت کارڈ اور شہادت کارڈ اپنا اثر کھو چکے ہیں اس لئے اقتدار کی راہداریوں کی طرف جانے والے اسی راستے کا انتخاب کرنا انہوں نے ضروری سمجھا ہے کہ جس راستے پر چل کر بھٹو نواز شریف اور کسی حد تک شہید بی بی چل کر اقتدار لیتی رہیں۔ یہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے کہ نواز شریف کی طرح پی پی کا بھی ہر اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت رہا ہے۔ مگر پیپلز پارٹی ن لیگ جتنی خوش قسمت نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس کارکردگی نہیں اس لئے پیپلز پارٹی کو اقتدار کے لئے صرف اسٹیبلشمنٹ کا سہارا اور صوبائی کارڈ ہی نہیں بلکہ مجرب نسخہ اقتدار شہادت کارڈ کی بھی ضرورت پڑتی ہے یہ فیصلہ اب آنے والا وقت کرے گا کہ کیا پیپلز پارٹی کو چوتھا اقتدار دلانے کے لئے خفیہ ہاتھوں کا گماشتہ بننے کے لئے بے چین زرداری صاحب پیپلز پارٹی کی جھولی میں شہادت جیسی ایک اور قربانی ڈال سکیں گے؟ کیا عوام اس قربانی کو قابل قبول سمجھیں گے اور یہ بھی کہ عوام کی بھلا کون سنتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی کی جو جمہوری تاریخ ایک آمر کو ڈیڈی بنانے سے شروع ہو کر اور دوسرے آمر کو ریڈ کارپٹ دینے پر ختم ہوتی نظر آرہی تھی وہ آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).