عاصمہ جہانگیر کو میرے دفاع کی ضرورت نہیں


ایک دن ایسا آئے گا کہ عاصمہ جہانگیر کا دفاع مجھے کرنا پڑے گا، یہ میں نے خواب میں بھی سوچا نہیں تھا۔

لیکن جب وہ میسیج بن بلائے مہمان کی طرح میرے ٹیلی فون پر ٹپک پڑا تو مجھے لگا وہ دوبارہ مر گئی ہیں۔

اور وہ پہلا میسیج، آخری نہیں تھا۔ اس جیسے اور اس سے زیادہ زہریلے اظہاریے جن میں خیال کم اور ہذیان زیادہ تھا، بہت غیرمتوّقع جگہوں سے آنے لگے۔ ایسے لوگ جن کو میں معقول سمجھتا تھا۔

اس کے بعد میں چُپ نہیں رہ سکتا تھا۔ چُپ رہ جاتا تو شاید میرا دم گُھٹ کے رہ جاتا۔

ان کے انتقال کی اچانک خبر سُن کر میں گم سم ہوگیا تھا۔ اس کے سوا کیا کرتا؟ میں اس وقت کراچی کے ساحل پر بیچ لگژری ہوٹل میں لٹریچر فیسٹول کے آخری دن میں پوری طرح سے مشغول تھا۔ صبح گیارہ بجے سے میرے متواتر دو سیشن تھے اور ان سے فارغ ہو کر ذرا سانس لینے دوستوں کی گفتگو اور کافی کی پیالی سے اپنے آپ کو تازہ دم کرنے کے لیے آکر بیٹھا ہی تھا۔ کئی دوست سیشن کی کامیابی پر مبارک باد دے رہے تھے کہ ایک جانی پہچانی آواز نے پوچھا، تم نے خبر سُن لی؟

میرا دل دھک سے رہ گیا۔ بُرے سے بُرے خیالات بُھتنے بن کے آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے۔

عاصمہ جہانگیر کا نام سنتے ہی جیسے دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ دل کا دورہ، کوئی زور زور سے کہہ رہا تھا اور میں نے اپنے آپ کو یہ سوچتے ہوئے پایا، غنیمت ہے بندوق کی گولی نہیں تھی۔ پھر اپنے خیال پر خود ہی شرمندہ ہوگیا۔

اس کے بعد چیزیں گڈمڈ ہونے لگیں۔ سیشن کے باہر راہداریوں میں، شرکت کرنے والے ادیبوں کے کمرے میں ہر جگہ لوگ دھیمی آواز میں یہی بات کررہے تھے۔ فیسٹول کے آخری دن میرا دل یوں ہی ڈھ جاتا ہے اور میلہ اُجڑنے والی اداسی گھیر لیتی ہے۔ مگر اب اس کا وقت نہیں تھا۔ جلدی جلدی طے کیا جارہا تھا کہ اختتامی اجلاس میں ان کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور ان کے چند قریبی ساتھی ان کے بارے میں مختصر تاثرات کا اظہار کریں۔ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے۔ وومن ایکشن فورم کی انیس ہارون اور ہیومن رائٹس کمیشن کےآئی اے رحمٰن کو اس مقصد کے لیے اسٹیج پر دعوت دی گئی۔ غم سے نڈھال کشور ناہید بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال کر وہ نظم پڑھنے لگیں جو چند سال پہلے انھوں نے عاصمہ جہانگیر کی جرأت کو داد دینے کے لیے لکھی تھی۔ غم و اندوہ کے بادلوں نے تقریب کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔

افضال احمد سیّد اور تنویر انجم کے ساتھ بیٹھا ہوا معروف ادیب امیت چودھری کے ساتھ باتیں کررہا تھا کہ ہر چیز بے حد عارضی اور بے معنی معلوم ہونے لگی۔ افسوس کی یہ کیفیت اگلے دن برقرار رہی۔

عاصمہ جہانگیر سے میری ملاقات چند سال قبل اسی جگہ لٹریچر فیسٹول کے دوران ہوئی تھی اور شاید ہماری سب سے زیادہ تفصیلی گفتگو بھی اسی موقع پر ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ میرے ذاتی مراسم نہیں تھے اور میں ان کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ جتنا اخبار پڑھنے والا کوئی بھی عام پاکستانی جان سکتا ہے۔ ہر پاکستانی کی طرح میں ان کی ہمّت، استقامت اور راست بازی کا مدّاح تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ ان کا وجود بہت غنیمت ہے کہ اس سے انصاف کا بول بالا رہے گا۔

چند ہی لمحوں بعد تصویر کا دوسرا رُخ ایک خوف ناک، خون آشام عفریت کی طرح میرے آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔

اس دوران ایک عمر رسیدہ اور صاحب مطالعہ شخصیت کا نام ٹیلی فون پر چمکا۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں اس لیے میں نے پیغام پڑھنا شروع کر دیا۔ تیسری سطر پر ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے زور دار طمانچہ مار دیا ہو۔

واہیات باتیں۔ محض خرافات۔ اور وہ بھی شرم ناک قسم کی۔ پہلے میں نے سوچا کہ جواب دوں، پھر خیال آیا بکواس کا کیا جواب دیا جائے، میں نے زور سے بٹن دبا کر اس بے ہودہ پیغام کو مٹا دیا۔

ذرا دیر میں میسیج کی گھنٹی بجی۔ مجھے طلسم ہوش ربا کا وہ دیو یاد آیا جس کا سر کاٹا جائے تو فی الفور ایک اور سر نکل آتا تھا۔ عفریت کے سر ہی سر۔ یہ پیغام میرے کالج کی ایک پرانی ہم جماعت کی طرف سے آیا تھا جن کو میں سنجیدہ خیال کرتا تھا اور اس گروپ کے سیکڑوں لوگوں کو بیک وقت بھیجا گیا تھا۔ زہر کتنی دور دور تک سرایت کر چکا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔

الحاد اور وطن دشمنی سے لے کر کون سا الزام اس میں نہیں لگایا گیا تھا۔ زہر میں بجھے ہوئے طعنے، رکیک الزامات۔ اعتراضات بھی اپنے نہیں تھے۔ کہیں سے اُٹھا کر نقل کر دیے گئے تھے۔ میں ان کا کیا جواب دیتا، کیا عاصمہ جہانگیر کو میرے جیسے شخص کے دفاع کی ضرورت پڑگئی؟ نوبت یہ آجائے گی، کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ باتیں ہی غلط تھیں، جواب کیا دیتا؟ ایک وحشت سی طاری ہونے لگی۔

اس پریشان خیالی میں ان عمررسیدہ صاحب کے معتقد ایک نوجوان دوست کو ٹیلی فون کیا کہ دل کی بھڑاس نکال سکوں۔ انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا، میں نے تو جواب دے دیا، میں اس معاملے میں چپ نہیں رہ سکتا۔

میں نے فرمائش کی تو انھوں نے اپنا میسیج مجھے فارورڈ کر دیا۔ میں نے اسے محفوظ کر لیا کہ اب اس قسم کی بکواس پر میں یہی پیغام بھیج دوں گا۔

میرے نوجوان دوست نے لکھا تھا: ’’اس تحریر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صاحبِ تحریر کی نظریاتی وابستگیاں عاصمہ جہانگیر کا دُرست محاکمہ کرنے میں حائل ہوگئی ہیں۔ یہاں مسئلہ صرف جانب داری کا نہیں ہے بلکہ حقائق کو مسخ کرنے اور بعض جگہوں پر صریح غلط بیانی کا ہے۔ کسی بھی شخص سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس اختلاف کی علمی بُنیادیں اگر حقائق پر مبنی ہوں تو بیانیہ مضبوط ہوگا ورنہ یہ پروپیگنڈا تصوّر کیا جائے گا بلکہ اس کو آسانی کے ساتھ مُنہدم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

کانٹے کی اس بات کے ساتھ انھوں نے دو تصاویر بھی مُنسلک کر دی تھیں، ایک میں عاصمہ جہانگیر کشمیر کے حرّیت پسندوں کی حمایت میں مظاہرہ کررہی تھیں اور دوسری میں فلسطین کے حقوق کے لیے پلے کارڈ لیے کھڑی تھیں۔ ان تصویروں سے بڑھ کر کیا دلیل درکار ہوگی۔

مگر مجھے پتہ چلا کہ بزرگ عالم اپنی رائے پر ڈٹے رہے۔ پھر سیاسی الزامات کی جگہ کفر کے فتوے صادر کرنے لگے۔

اب میں کوئی ایسا ویڈیو ڈھونڈ کر لائوں جس میں عاصمہ جہانگیر باقاعدہ کلمہ پڑھ رہی ہوں۔ لیکن مجھے پتہ ہے بزرگ عالم اور ان کے ہم خیال لوگ ٹس سے مس نہ ہوں گے۔ وہ قرآن کا جامہ بھی پہن کر آجائیں تو یہ حضرت ماننے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ مظلوموں کی حمایت ان کے نزدیک مذہب کے دائرے سے خارج کرنے کی شرط بن گئی ہے۔ اب دہانِ زخم پیدا کروں تو ان سے راہِ سخن وا کروں۔ پھر بھی ان کو قائل نہیں کرسکوں گا۔

ان عمر رسیدہ صاحب کو میں اپنے فون سے آسانی کے ساتھ بلاک کر سکتا ہوں۔ مگر ان پیغامات کی بارش اس کے باوجود رک نہیں پاتی۔ کہیں نہ کہیں سے یہ بے ہودہ پیغامات چلے آ رہے ہیں۔ ایک بار پھر وہ طلسم ہوش ربا کا عفریت یاد آنے لگتا ہے جس کا سرکاٹ دو تب بھی وہ شانوں پر ایک نیا سر لے کر تازہ دم ہو جاتا ہے اور مکروہ قہقہہ لگاتا ہے۔

پرانی داستانوں میں اس کا علاج بھی سُنا تھا مگر زوال آمادہ طلسم کُشا کی طرح مجھے اسم اعظم یاد نہیں آتا اور لوحِ طلسم سیاہ پڑ چکی ہے۔ کوئی دعا میرے کام نہیں آتی۔

میرا موقف اور بھی کم زور پڑ گیا ہے اس لیے کہ میری وکالت کرنے کے لیے عاصمہ جہانگیر موجود نہیں ہیں۔ اب کس سے مُنصفی کی بات کریں، کس سے انصاف چاہیں۔

میرے ٹیلی فون کی لسٹ میں بہت سارے میسیجز جمع ہوگئے ہیں۔ میں ایک ایک کرکے ان کو منہا کر دوں گا۔ آج کے دن مجھے بس یہی کام رہ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).