لودھراں کی نشست اگلے انتخاب میں پھر تحریک انصاف جیتے گی


لودھراں سے جہانگیرخان ترین کے صاحبزادے علی خان ترین کی شکست کے بعد جنوبی پنجاب کا یہ پسماندہ ضلع اس وقت نہ صرف ملک بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کر چکا ہے۔ بلکہ لودھراں کے سیاسی شعور کی مثالیں دینے والے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر موجود جہادیوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ لودھراں کی طرف کر لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہاں کے لوگوں نے 2015 کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر خان ترین کو 40 ہزار ووٹوں کی برتری دلوائی تو اس وقت یہ سیاسی طو ر پر باشعور کہلوائے۔ جہانگیرخان ترین کے فارم ہاوس کو دوسرا بنی گالہ قرار دیا گیا۔ علی خان ترین کی شکست کے بعد اچانک اہلیان لودھراں جاہل ہو گئے ہیں۔ ساتھ سیاسی شعور کی کمی بھی دیکھی گئی ہے۔ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

موجودہ شکست پر بات کرنے سے پہلے گزشتہ الیکشن کی فتح سے بات شروع کرتے ہیں۔ لودھراں جیسا پسماندہ ضلع جس کی زیادہ تر آبادی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں مقیم ہے،عمران خان کی تبدیلی پنجاب کے شہروں میں پہنچنے سے پہلے ان دیہاتوں تک کیسے پہنچ پائی جہاں خواندگی کی شرح شہروں کی نسبت انتہائی کم ہے۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی بھی کم ہے۔ خان صاحب کے جوشیلے خطاب سے بھی لوگ محروم ہیں۔ 2015 کے ضمنی الیکشن سے چند ماہ پہلے یہاں بلدیاتی الیکشن ہوا، مسلم لیگ ن کے اس وقت کے امیدوار صدیق خان بلوچ کے اپنے ہی حلقے کے ممبر صوبائی اسمبلی احمد خان بلوچ سے شدید اختلافات تھے۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 211 کی تمام یونین کونسلوں کے لیے چیئرمینوں کے ٹکٹ، ن لیگ نے ایم۔ پی۔ اے احمد خان بلوچ کو دیے۔ صدیق خان نے احمد خان بلوچ کے حمایت یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں اپنے آزاد امیدوار کھڑے کیے اور خفیہ طور پر ان کی حمایت شروع کر دی۔ کچھ یونین کونسلوں میں صدیق خان کے امیدوار کامیاب ہوئے باقی میں ن لیگ کے امیدوار۔ اس سیاسی چال کے بعد ہر یونین میں صدیق خان کے مخالف سیاسی دھڑے بن گئے۔ جن کو صدیق خان نے شکست دلوائی یا ٹف ٹائم دلوایا۔ وہ سارے صدیق خان کے خلاف متحد ہو گئے۔ جیسے ہی صدیق خان جہانگیر ترین کے مقابلے میں میدان میں اترے، لوگوں نے بدلہ لینے کے لیے مدمقابل امیدوار جہانگیر خان ترین کو ووٹ دیے۔

جیت کی دوسری وجہ الیکشن سے پہلے دیہاتوں میں لگائے گئے تحریک انصاف ممبر سازی کیمپ تھے۔ علی ترین فارم کے ملازمین کے ذریعے کچی بستیوں کا انتخاب کیا گیا۔ جہاں پر محض سب اچھا کی رپورٹ دینے کے لیے جہانگیر ترین کے ملازمین نے ترین صاحب کو گمراہ کیا۔ ممبر سازی کیمپوں کے باہر خواتین کا رش دیکھ کر وہاں پر موجود خواتین سے جب میں پوچھا گیا آپ کیوں تحریک انصاف کی ممبر کیوں بننا چاہتی ہیں،ان میں سے شاید ہی کوئی خاتون ایسی ہو جسے علم ہو کہ تحریک انصاف کیا ہے۔ کیونکہ ترین صاحب کے ملازمین نے محض اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے وہاں پر جھوٹ بولا تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد ترین صاحب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز کا پروگرام شروع کریں گے اور رجسٹرڈ لوگوں کو موبائل سم کے ذریعے پیسے دیے جائیں گے، کچھ علاقوں میں الیکشن سے چند روز پہلے ووٹوں کی خریداری کی صورت میں مالی امداد کی بھی خبریں آئی تھیں۔ ترین صاحب الیکشن جیت گئے۔ الیکشن کی مبارک باد لینے کے بعد جہانگیرترین اپنے ووٹرز اور ورکرز کو جن میں لودھراں شہر کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی اپنے فارم کے ملازمین کے سپرد کر کے خود اپنے کاروبار اور دوسری سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوگے۔

پارٹی ورکرز ترین صاحب سے ملاقات کی خواہش لیے لودھراں کے بنی گالہ جاتے تو وہاں پر موجود ملازمین کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی دوران انکم سپورٹ پروگرام کی امید پر جہانگیر خان ترین کو ووٹ دینے والی غریب خواتین قافلوں کی صورت میں بنی گالہ جاتیں اور دن بھر بیٹھنے کے بعد مایوس لوٹ آتیں۔ ایک طرف پارٹی کے نوجوان ترین صاحب کے ملازمین سے تنگ تھے۔ دوسری جانب الیکشن سے پہلے ملازمین کی طرف سے دیے جانے والے انکم سپورٹ پروگرام کے جھانسے نے تحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں کو مشکل سے دوچار کر دیا۔ تھانہ کچہری کی سیاست سے تنگ ایک بڑی تعداد جس نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا وہ بھی واپس اپنے اپنے کیمپوں میں جانا شروع ہوگئی۔ اس دوران دوسری جانب ن لیگ بدترین اندونی انتشار کا شکار رہی۔ جہانگیرترین اس حلقے سے ناراض کسی بھی لیگی رہنما کو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکے۔ کیونکہ انہیں ترین فارم کے ملازمین نے بتایا تھا لوگ تو آپ کے گرویدہ ہیں۔ اگلے جنرل الیکشن میں آپ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ کسی کھمبے کو بھی جاری کر دیں گے وہ بھی نیچے حلقوں میں آپ کی شخصیت کی بنیاد پر منتخب ہو جائے گا۔

جہانگیر ترین صاحب نااہل ہوگئے۔ جب اس حلقے سے متبادل ناموں پر غور ہونے لگا توقرعہ چھوٹے ترین کے نام نکلا۔ ادھر ن لیگ کے صدیق بلوچ نے جنہیں شکست کے باوجود بھی 80 کروڑ روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا گیاتھا، عین وقت پر علی ترین کے مقابلے میں میدان سے راہ فرار اختیار کر لی۔ امیدوار نہ ملنے پر ن لیگ نے دوسری تحصیل سے ممبرصوبائی اسمبلی عامر شاہ کے والد پیر اقبال شاہ کا انتخاب کیا۔ جو محض خانہ پری کے لیے تھے تاکہ میدان خالی نہ چھوڑا جائے۔ ن لیگ کی مرکزی قیادت میں سے کسی نے بھی پیر اقبال شاہ کی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ عبدالرحمان کانجو، اور ممبر صوبائی اسمبلی احمد خان بلوچ اور دیگر لیگی رہنماوں نے بھرپور کیمپین کی۔ اس دوران صدیق خان بلوچ اور احمد خان بلوچ کے درمیان سیاسی اختلافات بھی نمایاں تھے دونوں مہم کے دوران ایک سٹیج پر نہیں بیٹھے۔ لیکن تمام لیگی ارکان اپنے اپنے علاقوں میں کیمپین کرتے رہے۔ پیر صاحب دوستوں اور رشتے داروں کی گاڑیوں پر کیمپین کرتے رہے۔ دوسری طرف ترین صاحب نے ایک یونین کونسل سے دوسری یونین کونسل کیمپین کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا۔ ترین صاحب کی کیمپین کا روزانہ خرچہ مقامی لوگوں کے مطابق 60 لاکھ روپے تھا۔ پوری تحریک انصاف پاکستان اپنے چئیرمین عمران خان سمیت علی خان ترین کی کیمپین میں شریک تھی۔ اعوان برادری سے ووٹ مانگنے کے لیے فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو بھیجا گیا۔

تحریک انصاف کی مقامی قیادت سے لے کر مرکزی قیادت بشمول بڑے ترین صاحب نے ایک دن بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی علی ترین اس طرح ایک عام آدمی سے ہار جائیں گے۔ بلکہ وہاں جب بھی بات ہوتی اس حلقے سے سابقہ برتری کا ریکارڈ توڑنے کی بات ہوتی۔ لیکن بدقسمتی سے چھوٹے ترین صاحب بڑے ترین صاحب کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے اور 27 ہزار ووٹوں سے ہار چکے ہیں۔

یہ تو دعا دیں خادم حسین رضوی صاحب کو کہ ان کی محنت رنگ لائی یا ان لوگوں کو جنہوں نے خادم حسین رضوی کے لیے لودھراں کے مختلف علاقوں کا مکمل سروے کرنے کے بعد ا ن کے جلسے کروائے، خادم رضوی صاحب کے امیدوار نے 10 ہزار ووٹ لے کر علی ترین کو والد کی جیت کے مقابلے میں اتنے ہی ووٹوں سے شکست کا ریکارڈ قائم کرنے سے بچا لیا۔ امید ہے کہ زمینی حقائق ہمارے اسلام آباد اور لاہور کے مبصرین کو سمجھ آگئے ہوں گے۔ جو اس شکست کی وجہ موروثی سیاست کو قرار دے رہے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے اگر علی ترین کے علاوہ کوئی امیدوار آتا، وہ چند ہزار ووٹ ہی لے پاتا۔ لودھراں کی سیاست دھڑے بندی کی سیاست ہے جو قومی سطح کی سیاست کا کم ہی اثر قبول کرتی ہے۔ یہ رائے میری نظر میں نوازشریف کے حوالے سے بھی ہے۔ لودھراں کی سیاست میں ارکان اسمبلی کے ترقیاتی کاموں کی جھلک تو نظر آتی ہے۔ لیکن نظریہ نوازشریف کہیں نظر نہیں آتا۔ اور یہ پیر صاحب تھے، سب کو علم تھا، دو ماہ کا الیکشن ہے، اس لیے کوئی امیدوار نہیں آیا۔ لیکن آئندہ عام انتخابات میں صدیق خان بلوچ پھر الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نظریہ نوازشریف کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہوگا۔ ن لیگ کا موجودہ سیٹ اپ ٹوٹ رہا ہے کچھ آزاد حیثیت میں الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ ن لیگ یا مقامی شہید کانجو گروپ کی حمایت سے محروم رہنے والے تحریک انصاف کا حصہ بن جائیں گے۔ علی خان ترین کے مقابلے میں اگلے الیکشن میں اتحاد انتہائی کمزور ہوگا۔ اور میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں چند ماہ بعد یہ نشست پھر تحریک انصاف کے پاس ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).