”دھماکہ خیز“ آئینی ترمیم کے چرچے


کسی شخص نے بہت مہارت سے یہ افواہ پھیلادی ہے کہ اگر سینٹ کی معمول کے مطابق خالی ہوئی نشستوں پر مارچ کے پہلے ہفتے میں مکمل ہونے والے انتخابات کے بعد پارلیمان کے ایوانِ بالا میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ واحد اکثریتی پارٹی کی صورت ابھرنے میں کامیاب ہوگئی تو ایک تباہ کن گیم شروع ہوجائے گی۔ ایک آئینی ترمیم کو بہت خاموشی سے تیار کرنے کے بارے میں Whatsappگروپس کے ذریعے گفتگو ہورہی ہے۔

فرض کرلیا گیا ہے کہ تصور کردہ ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال سے کم کرکے 60سال کردی جائے گی۔ یہ ترمیم پارلیمان کے ایوانِ بالا سے کسی نہ کسی صورت پاس ہوگئی تو قومی اسمبلی سے اسے دوتہائی اکثریت سے پاس کروانا آسان ہوجائے گا۔ اس قانون کا صدرِ مملکت کے فوری دستخطوں سے اطلاق نواز شریف کے لئے جو آسانیاں پیدا کرسکتا ہے اس کا تذکرہ مجھے کرنے کی ضرورت نہیں۔ ا ٓپ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہیں۔

عرصہ ہوا Activeرپورٹنگ کے دھندے سے میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ ”نئی آئینی ترمیم“ کے بارے میں پھیلی افواہوں نے مجھے اپنی کاہلی پر قابو پانے کو اُکسایا۔ تین دنوں سے مسلسل اس کوشش میں رہا کہ ان دنوں جن لوگوں کے پاس ”اصل خبر“ ہوتی ہے، ان سے روابط قائم کروں۔بہت زیادہ تو نہیں تھوڑی کامیابی ضرور ہوئی۔

بالآخر دریافت یہ ہوا کہ جس ”نئی ترمیم“ کا پراسرار سرگوشیوں میں ذکر ہورہا ہے وہ آج سے دو سال قبل سینٹ میں قائم ایک کمیٹی میں زیر بحث تھی۔ متعلقہ کمیٹی نے اسے بہت سراہا۔ اس کے بعد مگر رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔ موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا سمجھے افراد میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو ”آف دی ریکارڈ“ ہی سہی اس ترمیم کے پاس ہونے والی افواہ کی تصدیق کرنے کو تیار تھا۔ ان افراد کی اکثریت بلکہ اپنے تئیں کافی پریشان اور ادا س تھی۔

نواز شریف کی ”مجھے کیوں نکالا“ والی دہائی نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے روایتی ووٹروں پر یقینا بہت اثرانداز ہورہی ہے۔ پیر کے روز لودھراں میں ہوا ضمنی انتخاب اس کا بھرپور اظہار تھا۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ لودھراں محض ایک نشست تھی۔ شہباز شریف اس وقت بھی اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے سب سے بڑے صوبے کے Hands Onحاکم ہیں۔ ان کے پاس جو ترقیاتی فنڈز ہیں،انہیں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو بے تاب ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی سرپرستی نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے Electableافراد اور دھڑوں کو ہر صورت درکار ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی توجہ کے حصول کی جنگ لڑتے ہوئے لودھراں میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے جہانگیر ترین کے فرزند کو ”عبرت ناک شکست“ دلانے کے لئے تمام مسلم لیگی دھڑے متفق ہوگئے۔ کانجو گروپ کا صدیق بلوچ کے حامیوں سے مک مکا ہوگیا۔ افواہیں تو یہ بھی گردش میں ہیں کہ جہانگیر ترین سے ناراض ہوئے مخدوم احمد محمود نے بھی اس حلقے میںاپنا اثر پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کے اقبال شاہ کی حمایت میں استعمال کیا۔ شاہ محمودقریشی کے مخالف افراد ان کے بارے میں بھی ایسی غیبت پھیلا رہے ہیں۔ میرے پاس ان الزامات کا اثبات فراہم کرنے والے ٹھوس ثبوت البتہ موجود نہیں ہیں۔

لودھراں کا ضمنی انتخاب ویسے بھی آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ میرے اندر موجود رپورٹر کو دریافقت فقط یہ کرنا تھا کہ حکمران جماعت سینٹ میں واحد اکثریتی جماعت ہوجانے کی صورت میں اس ”دھماکہ خیز“ آئینی ترمیم کوپاس کروانے کی عجلت میں ہے یا نہیں۔تھوڑی تحقیق کے بعد میرا جواب نفی میں ہے۔
میرا مشاہدہ بلکہ ”خبر“ یہ دے رہا ہے کہ فی الوقت آئینی داﺅ پیچ سے ریاست کے دائمی اداروں میں موجود کچھ ا فراد کی جانب سے اپنے خلاف چلائی مبینہ مہم کا مقابلہ کرنے کے بجائے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے کرتا دھرتا،شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو ہرصورت اپنی آئینی مدت کی تکمیل تک لے جانا چاہ رہے ہیں۔
انہیں خدشہ ہے کہ مئی کے اختتام تک اس حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے احتساب عدالتیں نواز شریف کو سزا سنادیں گی۔ شدید خطرہ یہ بھی ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو بھی شاید جیل جانا پڑے۔ مسلم لیگ (نون) کے روایتی Electablesکو یقین ہے کہ ان کے قائد جیل جاکر ”سیاسی شہید“ بن جائیں گے۔ اس صورت میں ان کے لئے پنجاب میں ہمدردی کی ایک شدید لہر اُٹھے گی۔ یہ لہر ان لوگوں کے بہت کام آئے گی جو آئندہ انتخابات میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔2018کے انتخابات کی بدولت کسی نہ کسی صورت ”بھاری مینڈیٹ“ لینے کے بعد ہی سوچا جاسکتا ہے کہ نئی پارلیمان کے ذریعے متعارف کروائے قوانین یا آئینی ترامیم کے ذریعے نوازشریف کے لئے کس نوعیت کا ریلیف فراہم کیا جائے۔

نواز شریف کے بدترین مخالف مگر اس بنیادی حقیقت کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔سپریم کورٹ نے آئندہ چند دنوں میں یہ طے کرنا ہے کہ اس کے ہاتھوں ”جھوٹا اور خائن“ ٹھہرائے جانے کے بعد کوئی سیاست دان تاعمر انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے ”نااہل“ قرار پائے یا اس ”نااہلی“ کی مدت کا تعین ہو۔ سوال یہ بھی زیر غور ہے کہ آیا 62/63کے تحت ”نااہل“ ہوا شخص کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کا اہل ہے بھی یا نہیں۔ عدالتی عمل کے بارے میں قیاس آرائی سے میں ہر صورت اجتناب برتتا ہوں۔اسے دیانت داری سے نامناسب سمجھتا ہوں۔یہ رپورٹ کرنے میں تاہم کوئی حرج نہیں کہ مذکورہ بالا دونوں مقدمات میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے کرتا دھرتا افراد اپنے خلاف فیصلے کی توقع کررہے ہیں۔

خیر کی کوئی امید نہ رکھتے ہوئے بھی لیکن وہ اپنی جماعت کو ایم کیو ایم کی صورت بکھرتا ہوا نہیں دیکھ رہے۔ ان کی اکثریت کو یقین ہے کہ بالآخر شہباز شریف نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر اسے نہ صرف ”سنبھال“ لیں گے بلکہ اسی جماعت کی آئندہ انتخابات میں شاندار نہ سہی تو مناسب کامیابی بھی یقینی بنادیں گے۔

سیاسی جنگوں میں لیکن حقائق نہیںPerceptionsزیادہ کارگر ہوا کرتی ہیں۔ سرگوشیوں میں یہ افواہ پھیل چکی ہے کہ سینٹ میں واحد اکثریتی جماعت بن جانے کے بعد حکمران جماعت ”عدلیہ کے پرکاٹنے کے لئے“ کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کرے گی۔ اس افواہ کی وسیع تر پذیرائی نے سینٹ کے انتخابات کو تخت یا تختہ والی جنگ بنادیا ہے۔ معاملہ گھمبیر ہوچکا ہے۔اس کا انجام کم از کم میرا ذہن تو سوچنے کے قابل نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).