کسی کے مرنے کا غم وہ کرے جو آپ نہ مرے


غالب کے خطوط پڑھ لیجیے یا شاعری موت کا ان کے ہاں سرسری سا ذکر ہے، وہ نہ تو کسی کو رونے کے لیے اپنا کاندھا پیش کرتے ہیں نہ ہی کسی کے کاندھے پر سر رکھ کر خود اشک بہاتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے جہاں تک میں نے ان کی زندگی کے مطالعے سے سمجھا ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنے پیاروں کی زندگی کا ناتا موت سے اتنی بارجڑتے دیکھا کہ موت سے جیسے ان کی قریبی جان پہچان ہوگئی تھی، ابھی وہ کم سن ہی تھے کہ والد گزر گئے، نو برس کے ہوئے تو چچا بھی چلے گئے، دوستوں، رشتے داروں اور عزیزوں کی اموات کا سلسلہ تو ایک طرف سب سے بڑا المیہ ان کے اپنے جگر گوشوں کی اموات کاتھا، ، سات بچے پیدا ہوئے لیکن کسی کو بھی پندرہ ماہ سے زیادہ اس دنیا میں سانس لینے کی مہلت نہ مل سکی۔ اور تو اور لے پالک بیٹا عارف بھی عین جوانی میں چل بسا۔

عارف کی ماں بنیادی بیگم نے غالب کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا، بھائی یوسف کی دیوانگی اور پھر اس کی موت اس حالت میں برداشت کی کہ کفن دفن کو بھی پیسوں کے انتظام میں مشکل درپیش ہوئی۔ پھر 1857 کے پر آشوب دور میں میں کتنے ملنے اور جاننے والوں کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھا۔ مگراپنے پیاروں کی دائمی جدائی غالب کی فکر پر اثر انداز نہ ہو سکی گو کہ اس نے ہر ایک کی موت کا گہرا تاثر لیا، لیکن کسی بھی موت کو اپنی زندگی پر حاوی نہ کیا۔ اسی لیے وہ غالب ؔ ہے۔ وہ کسی فرد کی موت سے ہراساں ہوتا ہے نہ اسے غیر معمولی اہمیت دیتا ہے، اس کا اظہار اس نے حاتم علی بیگ کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے۔
’’ کسی کے مرنے کا غم وہ کرے جو آپ نہ مرے ‘‘

اپنے عزیزوں اور دوستوں کی وفات پر بے گانگی کا انداز ہ اس خط سے لگا یا جا سکتا ہے مومن خان مومنؔ سے بیالیس برس کاساتھ جب چھوٹا تو اتنے بڑے ادبی سانحے پر مومن ؔ کا ذکر ایک خط میں جو انہوں نے نبی بخش حقیر کو لکھا، چوتھے پیرا گراف میں محض سرسری انداز سے کیا ہے۔
’’ سنا ہو گا تم نے کہ مومن خان مومن ؔ مر گئے۔ آج ان کو مرے ہوئے دسواں دن ہے، دیکھو بھا ئی ہمارے بچے مر جاتے ہیں، ہمارے ہم عمر مرے جاتے ہیں، قافلہ چلا جا تا ہے اور ہم پا با رکاب بیٹھے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں حضرت بیالیس چالیس برس کا دشمن بھی پیدا نہیں ہو تا۔ دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا طبیعت اس کی معنی آفرین تھی۔ ‘‘

ایک اور خط جو نبی بخش حقیر ہی کہ نام لکھا اس میں شیخ ابراہیم ذوقؔ کی وفات کا بھی ذکر دوسرے پیراگراف میں یوں کیا۔
’’ یہاں کا تازہ حال یہ ہے کہ میاں ذوق مر گئے۔ حضورِ والا نے ذوقِ شعر و سخن ترک کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ شخص اپنی وضع کا ایک اور اس عصر میں غنیمت تھا۔ ‘‘

یہ غالب ہی کا خاصہ ہے کہ ان کے ہاں تعزیت کا انداز بھی ایسا ہے کہ مرنے والے کے پیارے کو قرار آجائے، روح میں ٹھنڈ ک پڑ جائے۔ اپنے دوست یوسف مرزا سے ایک خط میں تعزیت کا اظہار دیکھیے، لکھتے ہیں۔
’’ تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہ ہی کہا کرتے ہیں کہ تو نہ تڑپ۔ بھلا کیوں کر نہ تڑپے گا۔ صلاح اس امر میں نہیں بتا ئی جاتی۔ دعا کو دخل نہیں دوا کا لگاؤ نہیں۔ پہلے بیٹا مرا، پھر باپ مرا۔ مجھ سے کوئی پوچھے کے بے سرو پا کس کو کہتے ہیں تو میں کہوں گا یو سف مرزا کو۔

ایک مکتوب میں میں ابوظفر سراج الدین شاہ ظفر ؔ کی وفات پر پر صرف ایک فقرہ لکھا، اور ساتھ ہی شراب کی کمی پر زیادہ افسردہ دکھائی دیے۔
’’ 7 نومبر14جمادی الاول سالِ حال جمعے کے دن ابوظفر سراج الدین بہادرشاہ ظفرؔ قیدِ فرنگ اور قیدِ جسم سے رہاہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جاڑا پڑ رہا ہے۔ ہمارے پاس آج کی شراب اور ہے۔ کل سے رات کو نری انگیٹھی پر گزارہ ہے۔ بوتل گلاس موقوف۔ ‘‘

مرزا حاکم علی بیگ مہرؔ کو اس کی محبوبہ کے مرنے پر خط لکھا
’’ کیسی اشک فشانی اور کہاں کی مرثیہ خوانی۔ آزادی کا شکر بجا لاؤ۔ غم نہ کھا ؤ۔ ‘‘

دلی میں وبا پھیلی تو گویا موت نے ڈیرے ڈال لیے۔ میر مہدی مجروح کو لکھا۔
’’ وبا تھی کہاں جو اب میں لکھوں کہ کہ کم ہے یا زیادہ۔ ایک چھیاسٹھ برس کا مرد اور ایک چونسٹھ برس کی عورت۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی مرتا تو ہم جا نتے کہ وبا آئی تھی۔ تف بریں وبا ‘‘

دیکھیے اپنی موت کا بھی ایسا شگفتہ اور سرسری بیان۔
اسد اللہ خان تمام ہوا
ائے دریغا کہ رند شاہد باد
ایک اور شعر دیکھیے
یہ لاش بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).