علی ترین کی شکست اور تحریک انصاف


تصویر کا کوئی ایک رخ نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنی پسند کا تجزیہ اور من مانے نتائج اخذ کرتا ہے۔ منطق کے گرو برٹرینڈ رسل نے اپنے شاگردوں کو نصحیت کی: ذاتی خواہشات کو تجزیئے کی شکل مت دینا ورنہ ٹھوکر کھاؤ گے۔ اکثر تجزیہ کار علی ترین کی ناکامی کو بنیاد بنا کر اگلا الیکشن نون لیگ کے نام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں تحریک انصاف کی ہوا اکھڑچکی ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ’’ مجھے کیوں نکلا‘‘ قبولیت عام حاصل کر چکا ہے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے حامی کہتے ہیں کہ وہ مورچہ ہارے ہیں، جنگ نہیں۔

لودھراں کے ضمنی الیکشن میں علی ترین کی فتح نوشتہ دیوار تھی۔ جہانگیر خان ترین اس علاقے کے ایک بااثر سیاستدان اور کاروباری شخصیت ہیں۔ عالم یہ تھا کہ شروع کے دنوں میں کئی ایک منجھے ہوئے سیاستدانوں نے علی ترین کے مقابلے میں میدان میں اترنے سے معذرت کر دی۔ کوئی بھی اپنا سرمایا اور توانائی ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونکے کو آمادہ نہ تھا۔ اس کے باوجود شہریوں نے نون لیگ کے ’’کھبے‘‘ کو فتح مندکیا‘ جو حیرت انگیز بھی ہے اور زیادہ وسیع اور جامع تجزیہ کا متقاضی ہے۔

لودھراں پنجاب کا دیہی علاقہ ہے۔ ان علاقوں کے ووٹرز کی ترجیحات شہر والوں کے برعکس ہوتی ہیں۔ لوگ انصاف، کرپشن سے پاک نظام حکومت، تعلیم اور صحت کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کرنے جیسے نعروں اور منشور کا فہم رکھتے ہیں اور نہ ہی بدعنوانی کو برا تصور کرتے ہیں۔ خاص طور پر ضمنی الیکشن میں تو ووٹرز زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرانے کے متمنی ہوتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت جس بھی پارٹی کے پاس ہوتی ہے فطری طور پر اس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں 2002 سے جہانگیرترین مسلسل اس علاقے کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ لودھراں کے لوگ بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ ایک ہی سیاستدان یا سرکاری افسر کا چہرہ دیکھ دیکھ کر بور ہوجاتے ہیں۔ علاقے کے سارے طاقتور لوگ چاہتے تھے کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے کو شکست ہو۔ ہرایک علی ترین کی شکست سے اپنی کامیابی کے امکانات روشن کرنا چاہتا تھا۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے وسائل اور انتظامی قوت بھی جہانگیر ترین کے خلاف استعمال ہوئی۔ حتیٰ کہ لودھراں کا معرکہ نون لیگ نے سر کرلیا۔

تحریک انصاف کی قومی سطح کی سیاسی حکمت عملی کے معماروں میں جہانگیر ترین کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے نون لیگ اور خاص کر شریف برادران کے خلاف عمران خان کی تحریک کو منظم کرنے اور اسے قومی سطح پر حمایت دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جہانگیر ترین کا نقطہ نظر تھا کہ پنجاب نون لیگ کی سیاست کا قلعہ ہے۔ جب تک پنجاب پر تحریک انصاف کا جھنڈا نہیں لہرائے گا اس وقت تک پاکستان میں تبدیلی ممکن نہیں ۔ تحریک انصاف کی کامیابی کا سورج نون لیگ اور بالخصوص شریف برداران کی شکست سے طلوع ہوگا۔ تحریک انصاف کی گزشتہ چھ سات برسوں کی سیاست کا محور یہی ایک نکتہ ہے۔ چنانچہ الیکٹ ایبلز کو جمع کرنے اور پنجاب میں نون لیگ کے حریفوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے جہانگیر ترین نے بھرپور سیاسی جدوجہد کی۔ تحریک انصاف کے کسی بھی دوسرے رہنما کے برعکس انہوں نے پارٹی کے لیے اپنے ذاتی وسائل پانی کی طرح بہائے۔ پی ٹی آئی کے حریف جانتے تھے کہ جہانگیر کی نااہلی اور علی ترین کی شکست سے عمران خان کے دست وبازو شکستہ ہو جائیں اور رفتہ رفتہ اس عمارت کو گرانا آسان ہو جائے گا۔

عمران خان کو قریب سے جاننے والے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کوئی موثر سیاسی حکمت کار نہیں۔ جوش وخروش اور توانائی سے بھرپور شخصیت ضرور ہیں۔ لوگوں کو متحرک کرنے اور انہیں پارٹی کے لیے قربانی دینے پر ضرور ابھار لیتے ہیں لیکن ان سے کام لینے اور یا ان کا بھرپور استعمال کرنے کا فن انہیں نہیں آتا۔ خان صاحب زیادہ گھلتے ملتے بھی نہیں۔ ملتے بھی ہیں تو اپنی ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ بسااوقات محسوس ہوتا ہے کہ نرگیست کا شکار ہیں۔ اس طالب علم کو ان کے ساتھ کئی ایک محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ وہ دوسروں کی بات سننے کے بجائے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذکر کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جہانگیر ترین گفتگو کے فن میں تاک نہیں لیکن وہ ایک بہترین حکمت کار ہیں۔ خوب جانتے ہیں کہ کب ، کہاں اور کس وقت کیا بات کرنی یا ضرب لگانی ہے۔

پاکستان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو متوسط طبقہ سے اٹھے ہوں اور قومی افق پر چھائے ہوں۔ کاروبار اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لوگ سیاست میں آکر کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ جہانگیر ترین نے بھی وسعت دی ہوگی لیکن وہ تحریک انصاف کا حصہ بن کر جس طرح نون لیگ سے ٹکرائے اور بالخصوص شریف برداران کا مقابلہ کیا اس سے غالباًان کے کاروبار نے ترقی نہیں ہوئی ہو گی۔ انہوں نے خسارے کا یہ سودا خوشی سے قبول کیا۔

گزشتہ کالموں میں یہ عرض کیا تھا کہ ہمارا معاشرہ شعور کی اس سطح پر نہیں جہاں لوگ جمہوریت ، انصاف اور شہری آزادیوں کے معنی اس کی روح کے مطابق سمجھ سکتے ہوں۔ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو سماج میں برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ کھانے کو دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کو کپڑا، تھانیدار سے بچاؤ اور علاقے کے تمندار سے تحفظ کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کروڑوں بچے اور بچیوں تعلیم سے محروم ہیں لیکن کبھی شہریوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ گٹر سے لوگ پانی پیتے ہیں لیکن ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ نجی شفاخانوں میں یہی معالج ایک دوست اور شفیق برزگ کی طرح پیش آتا ہے۔ ہم سب خاموشی سے اس طرزعمل کو قبول کرتے ہیں۔ تھانیدار کا باپ مرتا ہے تو پورا شہر اس کے جنازے کو کندھا دینے اور تعزیت کرنے کو موجود ہوتا ہے۔ تھانیدار انتقال کرتا ہے تو ایک صف بھی پوری نہیں ہو پاتی۔ معاشرے میں بدعنوانوں کو کون نہیں جانتا لیکن کبھی ہم نے ان کا سماجی بائیکاٹ نہیں کیا۔ انہیں کامیابی کا استعارہ قرار دیا جاتا ہے۔ آج کی یہی معاشرتی اقدار ہیں جنہیں لے کر عمران خان ملک میں بتدیلی کی بات کرتے ہیں۔ پہلے بھی کئی بار عرض کیا تھا کہ ایسے معاشرے میں لوگ تبدیلی نہیں بلکہ جمود یا اسٹیٹس کو کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کے ذاتی اور گروہی مفادات وابستہ ہیں۔ لودھراں میں یہی ہوا اور ملک کے باقی حصوں میں بھی نتائج اس سے مختلف نہ ہوں گے۔

اگر کوئی سیاسی جماعت تبدیلی چاہتی ہے تو اسے پہلے سماج کا رویہ تبدیل کرنے اور ان کی ترجیحات بدلنے کے لیے تحریک چلانا پڑے گی۔ سیاسی تحریکوں کی کامیابی محض جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیا پر جاری مہمات کی کوکھ سے جنم نہیں لیتی بلکہ اس کے پس منظر میں ذہن سازی کی طویل مشقت کارفرما ہوتی ہے۔ لوگوں کے روزمرہ کے ایشوز پر ان کی مدد کی جاتی ہے اور انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ متبادل نظام آنے کی صورت میں وہ اس ظالمانہ نظام سے چھٹکارا پا جائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف بدقسمتی سے اس نکتے کو نہیں سمجھ سکی اور اس نے اپنی ساری توانائیاں سپریم کورٹ اور دھرنے میں لگا دیں۔ لوگوں کے ساتھ رابطے، ان کے مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرنے کا اسے وقت ہی نہیں ملا۔ اب الیکشن سر پر ہیں اور عمران خان بنی گالہ میں محفلیں جمائے اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں کراچی، اندرون سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دوردراز علاقوں میں وقت لگانا چاہیے تھا۔ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں’ گلی محلوں میں ہوتے ہیں ۔ گلی محلوں میں تحریک انصاف میدان مارتی نظر نہیں آتی۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood