ویلنٹائن ڈے پر سکول میں قتل عام


پرسوں ایک عام سا خاص دن تھا۔ خاص اس لئے کہ یہ محبت کے نام پر مختص کیا ایک دن ہے اور عام اس لئے کے تمام عالم میں محبت کے اظہار کا مظہر ہے۔

سکولوں میں ویلنٹائن کے معمول کے مطابق بچے کینڈی، کیک چاکلیٹ وغیرہ دوستوں اور ٹیچرز کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ مگر پرسوں فلوریڈا کے ایک اسکول میں محبت کے احساس سے عاری ایک بچے نے سترہ والدین کی آنکھوں کے چراغ بجھا دیے۔

نکولس کروز انیس سالہ لڑکا ہے جس نے اس وحشتناک حرکت کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ وہ اس اسکول سے نکالا جا چکا تھا اور اس پر ادھر آنے کی پابندی تھی۔ اس نے گیس ماسک پہنا ہوا تھا اور گیس گرینیڈ سے لیس تھا۔
اسکول پہنچ کر اس نے فائر الارم بجا دیا جس کی وجہ سے تمام دروازے خود کار طور پر کھل گئے۔ کلاسوں سے بچوں کا سیلاب جیسے ہی باہر نکلا اس نے اے آر پندرہ استمعال کرتے ہوئے گولیاں چلانا شروع کر دیں۔

چونکہ اسکول میں صبح ڈرل ہوئی تھی اس لئے کچھ اساتذہ اور بچے سمجھے کے شاید یہ بھی ڈرل ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حقیقت میں اسکول کا ہی سابق لڑکا جنونی ہو گیا ہے۔
911 کو متعد کالیں آنا شروع ہوئیں۔ جن بچوں کے پاس فون تھے انہوں سے سوشل میڈیا پر پل پل کی خبریں دینا شروع کیں۔ زیادہ تر بچے اپنے ماں باپ کو ٹیکسٹ بھیج رہے تھے کے اگر زندہ نہ بچے تو جان لیں کے ہمیں آپ سے بہت پیار ہے۔

جب 2012 میں سینڈی ہک اسکول کا درد ناک واقعہ ہوا تو میری بیٹی پہلی جماعت میں تھی۔ والدین کے کرب کا اندازہ لگا نا نا ممکن ہوتا ہے۔ جو ان کے دلوں پر گزرتی ہے وہ کوئی جان ہی نہیں سکتا۔ جب آرمی اسکول پشاور کا سانحہ 2014 میں ہوا تو دل خوں کے آنسو رو دیا مگر جن والدین پر یہ سب بیتا وہ ہم اور آپ نہیں سمجھ سکتے۔

میں اکثر اس واقعے کے بعد یہ سوچتی تھی کے کیسے والدین ہیں جو ان برے حالات میں بھی جی کڑا کر کے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں۔ بڑی ہمت والے ہیں۔ اس بات سے یکسر بے خبر رہی کے امریکا کی گن پالیسی کے ہوتے ہوئے یہاں کے حالات سدھرنے کے بجانے بگڑتے ہی چلےجائیں گے۔

فلوریڈا میں ہونے والی یہ سال 2018 کی اٹھارویں اسکول شوٹنگ ہے۔ اعداد و شمار کے حساب سے 1999 سے لے کر اب تک ڈیڑھ لاکھ اسکول کے بچے اسکول شوٹنگ کے ہولناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے عرصہ صدارت کی یہ 82 ویں اسکول شوٹنگ ہے۔

کانگریس اور سینیٹ کے تمام ریپبلکن اراکین نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے کمپین فنڈ لیتے ہیں لہذا کوئی بھی ایسا قانون پاس نہیں ہوتا جو اسلحے کی روک تھام کر سکے۔ کانگریس کے سپیکر پال راین ایک لاکھ بہتر ڈالرسے لے چکے ہیں۔ اس طرح فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو 34 لاکھ لے چکے، سینیٹر پورٹمان 3 ملین لے چکے اور بکہ فلوریڈا کے گورنر رک سکوٹ بھی کئی ملین وصول کر چکے ہیں۔ مجموعی طور پر این ار اے 30 ملین ڈالر ریپبلکن پارٹی کو الیکشن میں جتوانے کے لئے خرچ کر چکی ہے۔ بہت لوگ تو اب اس کو ایک دہشت گرد تنظیم ماننے لگے ہیں۔

امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اسلحہ خریدنا لالی پاپ خریدنے جیس آسان ہے۔ سینیٹر ڈاین فائنسٹین نے بل پاس کرانے کی کوشش کی جس کے مطابق دہشت گردوں کو اسلحہ نہ بیچا جائے اور ان کی رسائی ممکن نہ ہو مگر وہ بل پاس نہ ہو سکا۔

این ار اے کی لابی اتنی مظبوط اور با اثر ہے کے ایک قانون بنانے کی کوشش کی گئی کہ اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر گن شاٹ کی رپورٹ درج نہ کرا سکیں۔ NRA یہ تمام سینیٹر اور کانگریس کے اراکین ہر ماس شوٹنگ کے موقع پر اپنی دعا اور نیک خواہشات کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں جیسے ان کے ایسا کرنے سے کسی کی زندگی واپس آ جائے گی یا اولاد کھو دینے کا زخم بھر جائے گا۔

یہ جانتے نہیں کے اگر اس آگ کو بجھایا نہ گیا تو یہ ان کے اپنے بچوں کو بھی نگل جائے گی۔ اگر آپ امریکی پاکستانی ہیں تو خدارا اپنا ووٹ کرنے کا حق رجسٹر کرائے اور این ار اے سے پیسے لینے والوں سے ہمارے بچوں کی جان بچائے۔

آج صبح ناشتے پر مسلسل بریکنگ نیوز کا نہ رکنے والا سلسلہ چل رہا تھا۔ ایک نویں کلاس کی بچی نے انٹرویو کے دوران کہا کہ مجھے صرف اپنی ماں کی فکر تھی کہ اگر میں مر گئی تو ان کا کیا ہو گا۔ یہ دیکھ کر میری بیٹی اپنی کرسی سے اٹھی اور میرے گلے سے لگ کر بے اختیار بہنے والے آنسو پوچھنے لگی۔
سوچتی ہوں کتنی ہمت والی ہوں جو اس ماحول اور ان حالات میں جی کڑا کر کے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).