شوکت جمیل، شادی اور دیوانِ غالب



پاکستان میں اپنی بہن عنبریں کوثر کے گھر میں قیام کے دوران میرے بہنوئی ارشاد میر، جو میرے نظریاتی اور سیاسی دوست بھی ہیں، مجھے اپنے دانشور دوست شوکت جمیل سے ملوانے لے گئے۔ جانے سے پہلے ارشاد میر نے شوکت جمیل کو فون کیا اور پوچھا ’کیا میں خالد سہیل کو آپ سے ملوانے لا سکتا ہوں‘ شوکت جمیل نے کہا ’ ضرور۔ میں چشم براہ ہوں‘۔

جب ہم شوکت جمیل کے گھر پہنچے تو دروازہ کھلا تھا۔ ارشاد میر نے گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے کہا ’وہ گھر پر نہیں ہیں‘
ارشاد میر کہنے لگے ’ وہ ہمیشہ گھر پرہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاں جانا ہے‘
انہوں نے پھر گھنٹی بجائی۔ پھر کوئی جواب نہ آیا۔
میں نے پھر کہا ’وہ گھر پر نہیں ہیں‘

ارشاد میر نے پوچھا ’آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں‘
میں نے کہا’اس لیے کہ دروازہ کھلا ہے۔ پھر میں نے انہیں ایک درویش کی کہانی سنائی۔ وہ درویش جب گھر پر ہوتے تھے تو گھر کا دروازہ بند رکھتے تھے لیکن جب گھر سے باہر جاتے تھے تو گھر کا دروازہ کھلا چھوڑ جاتے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’اس گھر کی سب سے زیادہ قیمتی چیز میں خود ہوں‘
ارشاد میر نے میری درویشانہ باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دی اور تیسری بار گھنٹی بجائی۔
اس دفعہ شوکت جمیل کی بجائے ایک دخترِ خوش گل باہر آئیں اور کہنے لگیں
’انکل آپ اندر تشریف لے آئیں۔ شوکت جمیل صاحب آپ کے لیے کچھ خریدنے بازار گئے ہیں‘۔

جب ارشاد میر نے اس دخترِ خوش گل سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میں ایک سائیکاٹرسٹ ہوں اور کینیڈا سے آیا ہوں تو وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ’میرا نام سارہ ہے۔ میں ناروے سے آئی ہوں اور ایک نیورولوجسٹ ہوں۔ ‘

میں نے ان کے پیشے میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا ’ آپ نے اپنے تخصص کے لیے نیورولوجی کا انتخاب کیسے کیا؟ ‘
کہنے لگیں مجھے DEMENTIA کی بیماری میں خاص دلچسپی ہے۔ میں اس بیماری پر تحقیق کرنا چاہتی ہوں‘

میں نے سارہ کو بتایا کہ جب میں کینیڈا میں نفسیاتی بیماریوں کے ہسپتال میں کام کرتا تھا میرا ایک DEMENTIA کا مریض تھا۔ جب وہ وارڈ میں چہل قدمی کر رہا ہوتا تو ہر شام اس کی بیوی اس سے ملنے آتی۔ جب وہ اسے گلے لگانا چاہتی تو وہ اسے دھکا دے کر دور کر دیتا اور وہ رو پڑتی۔ ایک دن مجھ سے نہ رہا گیا تو میں نے اس سے پوچھا ’تم اس خاتون کو دھکا کیوں دیتے ہو؟ ‘ کہنے لگا’ وہ تو ایک غیر عورت ہے اور میں ایک غیر عورت کو کیسے گلے لگا سکتا ہوں جبکہ میری اپنی بیوی گھر میں میرا اتنظار کر رہی ہے‘
(یہ کالم لکھتے ہوئے میں ان مشرقی مردوں اور عورتوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو سب مغربی شوہروں اور بیویوں کو بے وفا سمجھتے ہیں)
اس دن اس کی بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔

ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ شوکت جمیل آ گئے۔ مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگا’ میرا پرانا نوکر چلا گیا ہے۔ آج نیا آیا ہے لیکن وہ بازار سے ناواقف ہے۔ اسے بیکری دکھانے اور آپ کے لیے کریم رولز اور پیٹیز لینے چلا گیا تھا۔ ‘

تھوڑی دیر کے بعد شوکت جمیل نے مجھے اپنی کتابVOX ANGELICA نوائے سروش جو غالبؔ کے دیوان کا انگریزی ترجمہ ہے دی اور میں نے ان کی خدمت میں اپنی مختصر سوانح عمری THE SEEKER پیش کی۔

جب میں نے شوکت جمیل سے غالب سے نیازمندی اور دیوان کے انگریزی ترجمے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ’ میرے والد ادب دوست انسان تھے۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے دیوانِ غالب پڑھتے تھے۔ جب کئی سال بیت گئے تو میں نے پوچھا ’ابو یہ دیوان کب ختم ہوگا؟ ‘ کہنے لگے’ بیٹا اگر آپ سرسری طور پر پڑھیں تو بیس دن میں ختم کر سکتے ہیں لیکن اگر اسے سمجھ کر غور سے پڑھنا چاہیں تو اسے بیس سال بھی لگ سکتے ہیں‘

شوکت جمیل کی خواہش تھی کہ ساری دنیا جانے کہ ہندوستان میں ایک عظیم شاعر اسد اللہ خان غالبؔ پیدا ہوا تھا اس لیے انہیں نے برسوں کی ادبی مشقت اور تخلیقی ریاضت کے بعد اس کا ترجمہ کیا اور ’نیا زمانہ‘ نے چھاپا۔

جب دیوانِ غالب کی باتیں ہو گئیں تو میرے ذہن میں ادیب پیچھے چلا گیا اور ماہرِ نفسیات آگے آ گیا۔ میں نے ان سے چند ذاتی سوال پوچھے جن کا انہوں نے بڑی سادگی اور صاف گوئی سے جواب دیا جو ایک دانشور کا اسلوب ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا ’شوکت جمیل صاحب! آپ کی عمر78برس ہے اور آپ اکیلے رہتے ہیں۔ آپ نے ساری عمر شادی کیوں نہیں کی؟ ‘ وہ کچھ دیر گہری سوچ میں ڈوب گئے پھر کہنے لگا ’ ڈاکٹر صاحب اول تو ساری عمر کوئی ایسی عورت ہی نہیں ملی جس کا جسم اور ذہن دونوں پر کشش ہوتے۔ جب تک میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی نہ ہو شادی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ شادی وہ کامیاب ہوتی ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے سے گفتگو ENJOY کرتے ہیں‘

میں مسکرایا اور میں نے شوکت جمیل سے کہا کہ جب میں ایران کے شہر ہمدان میں بوعلی سینا کے مزار کے سامنے ایک بچوں کے کلینک میں کام کرتا تھا تو میں فارسی بھی سیکھتا تھا۔ ان دنوں میں نے سیکھا کہ لفظ صحبت جس کا اردو میں مطلب مباشرت سمجھا جاتا ہے فارسی میں اس کے معنی گفتگو کے ہیں۔ تو آپ ایسی عورت کی تلاش میں تھے جس کے ساتھ آپ اردو کی صحبت بھی کر سکتے اور فارسی کی صحبت بھی ہو۔ شوکت جمیل صاحب میرے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ آپ جیسے کامیاب انجینیر اور دانشور کو پوری زندگی میں ایک بھی عورت ایسی نہیں ملی جو آپ کی شریکِ حیات بن سکتی ‘

کہنے لگے ’ایک ملی تھی‘
’ پھر کیا ہوا؟ ‘ میں متجسس تھا۔
کہنے لگے’ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان کے ننھیال میں MENTAL ILLNESS ہے اور وہی مسئلہ میرے ددھیال مین ہے۔ میں نے سوچا اگر ہم نے شادی کر لی تو ہمارے بچے اپنا ذہنی توازن کھو دیں گے‘

میں نے پوچھا شوکت جمیل صاحب شادی کو چھوڑیں ویسے عمومی طور پر عورتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کہنے لگے مجھے اوسکر وائلڈ کا جملہ یاد آ رہا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے
BAD WOMEN ANNOY ME AND GOOD WOMEN BORE ME

میں نے شوکت جمیل سے کہا کہ جانے سے پہلے ہمیں ادبی تبرک کے طور پر غالبؔ کے تین شعروں کا انگریزی ترجمہ سنا دیں

1۔ شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
LOVE, UNDER ALL CONDITIONS, CAME REPUNJENT WITH (ALL) TRAPPINGS
QAIS, EVEN ON CANVAS EMERGED NAKED

2۔ بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
EVEN IN WORSHIPS SO MAVERICK AND SELF CONFIDENT WE ARE
THAT WE TURNED BACK WHENEVER THE DOOR OF KAABA OPENED NOT

3۔ اگلے وقتوں کہ ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
MUSEUM PIECES ARE THESE PEOPLE، DON’T PICK AT THEM
WHO CALL WINE AND SONG KISS OF DEATH

میں نے جاتے ہوئے شوکت جمیل سے آخری سوال پوچھا ’آپ کی کتاب پر آپ کی تصویر کیوں نہیں ہے؟ ‘
کہنے لگے کہ پبلشر اصرار کرتا رہا میں انکار کرتا رہا۔ میں نے اس سے کہا کہ جس کتاب پر غالبؔ جیسے عظیم شاعر کی تصویر ہو اس پر مجھے جیسے ناچیز کی تصویر نہایت نامناسب ہے‘
شوکت جمیل سے میری ملاقات مختصر لیکن یادگار ملاقات تھی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail