لاشوں کا غیر ضروری انبوہ


ہم پاکستانی لاشیں گننے کے عادی ہیں۔ کبھی درجنوں تو کبھی سینکڑوں۔ سفاک حملوں کا تواتر طبی امداد فراہم کرنے والوں کو  لاشیں گننے کا کوئی نہ کوئی سبک رفتار نظام وضع کرنے پر مجبور کر چکا ہو گا، ہو سکتا ہے وہ پانچ پانچ کر کے لاشیں گنتے ہوں، ہو سکتا ہے وہ انہیں ڈھیریاں لگا کر گنتے ہوں، یا شاید وہ انہیں تبھی گنتے ہوں جب انہیں کفنا دیا گیا ہو یا شاید جب لاشیں گلیوں میں بکھری پڑی ہوں تب؟

ان لاشوں کے بالمقابل موت کا ایک اور آنکڑہ بھی ہے، جو اتنا ہی ناقابل فہم اور سفاک ہے۔ یہ وہ اموات ہیں جن کے لئے  حکومت تمام کاغذی کارروائی مکمل کرتی ہے۔ ان اموات کی تعداد بھی ناقابل بیان حد تک وحشتناک ہے۔ دسمبر 2014 میں سزائے موت پر عائد غیر رسمی پابندی کے خاتمے سے اب تک حکومت 489 افراد کی پھانسیوں پر عملدرآمد کر چکی ہے۔ ان 489 لاشوں میں بعض ان کی ہیں جو جرم کے وقت نابالغ تھے، چند ایسی بھی ہیں جو ذہنی طور پر بیمار تھے۔ ایسی لاشیں بھی پھانسی گھاٹوں سے لواحقین کے سپرد کی گئیں جنہیں ایک سال بعد عدالت عظمیٰ نے ان کے جرم سے بری کر دیا۔ اور کچھ تو موت کے انتظار میں ہی مر گئے۔

گزشتہ برس جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے پھانسیوں کے اعدادوشمار پر مبنی ایک تجزیہ جاری کیا تھا۔ سزائے موت کے حامیان کو اطلاع ہو کہ سزائے موت سے جرائم کم نہیں ہوئے۔ اس تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ سزائے موت کو ایک سیاسی حربے  کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ خدشہ ہے  کہ پھانسیاں جیلوں میں جگہ کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کا ذریعہ خیال کی جا رہی ہیں۔

پاکستان اب تک قریب ہر ہفتے تین پھانسیوں کی اوسط سے سزائے موت پر عملدرآمد کرتا آیا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ جیل قواعد کے مطابق اتوار اور پیر کو پھانسیاں نہیں دی جاتیں۔ پھانسیوں کی اوسط شرح اس کہیں زیادہ  تشویشناک ہے کیوں کہ رمضان اور دیگر ایسے مواقع پر پھانسیوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔

جولائی 2017 تک  پنجاب سب سے زیادہ  پھانسیاں دینے والا صوبہ تھا، ملک بھر میں ہونے والی تمام پھانسیوں میں سے 87 فیصد پنجاب میں ہوئی تھیں، اسی طرح پنجاب میں سزائے موت سنائے جانے کی شرح بھی باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں سنائے جانے والی کل پھانسیوں میں سے  89 فیصد پنجاب کی عدالتوں نے سنائیں تھیں۔ تاہم 2015 اور 2016 کے دوران پنجاب میں قتل کی شرح میں صرف 9.7 فیصد کمی ہوئی۔ اسی عرصے کے دوران سندھ میں قتل کی شرح میں 25 فیصد کمی ہوئی حالانکہ پھانسیوں کی کل تعداد میں سندھ کا حصہ محض 25 فیصد تھا۔  جولائی 2017 تک دی جانے والی پھانسیوں میں سے صرف 18 سندھ میں دی گئیں جبکہ پنجاب میں ان پھانسیوں کی تعداد 382 تھی۔ پھانسیوں اور جرائم کی شرح میں یہ فرق ثابت کرتا ہے کہ پھانسیاں جرائم کم کرنے کے لئے موثر نہیں۔

سندھ میں جرائم کی شرح میں کمی کی ایک وجہ رینجرز آپریشن کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ رینجرز آپریشن کی آئینی  اور انسانی حقوق کے تناظر میں حیثیت سے قطع نظر اس آپریشن کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ قانون کی بالادستی اور جرائم کی روک تھام کے لئے پھانسیاں نہیں پولیس کا بہتر نظام  اور بروقت کارروائی کی ضرورت ہے۔

پھانسیوں پر عملدرآمد کو دہشت گردی کا حل قرار دے کر بحال کیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ چند برس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا پھانسیوں پر عملدرآمد کی وجہ سے ہوا اور کیا واقعی پاکستان دہشت گردوں کو ہی پھانسیاں دے رہا ہے؟ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پھانسی پانے والے تمام افراد میں سے محض سترہ فیصد ایسے تھے جن کے مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں سنے گئے تھے۔ درحقیقت پھانسی پانے والے بیشتر افراد کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نے سزائے موت سنائی تھی جہاں دہشت گردی سے متعلق مقدمات نہیں سنے جاتے۔

انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قائم خصوصی عدالتوں میں ایسے مقدمات بھی سنے گئے اور سنے جا رہے ہیں جو دہشت گردی کی کسی معقول تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ انسداد دہشت گردی کے قانون میں دہشت گردی کی تعریف اس قدر وسیع ہے کہ کوئی بھی ایسا فعل یا قول جو “معاشرے میں خوف یا عدم تحفظ” کا باعث بنے قابل تعزیر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی یہ تحقیق تعجب خیز نہیں جس کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سزا پانے والوں میں سے 88 فیصد اور سزائے موت پانے والوں میں سے 86.3 فیصد کے جرائم کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان عدالتوں میں قانون و آئین کے تحت حاصل بنیادی تحفظات کا اطلاق نہیں کیا جاتا، جلد از جلد فیصلے کے لئے due process کو نظر انداز کرنا اور پولیس کی تحویل میں اعتراف جرم  کو تسلیم کیا جانا ان پھانسیوں کو مزید تشویش ناک بناتا ہے۔  اس قانون کے تحت  نابالغ مجرمان کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے (جیسا کہ منڈی بہاوالدین کے اقبال کے مقدمے سے واضح ہے) اور آفتاب بہادر جیسے نابالغ مجرمان کو پھانسی دی جا چکی ہے۔  یہ قانون متاثرہ خاندان کی خواہشات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہونے والی سزائیں ناقابل تصفیہ ہیں اور متاثرہ خاندان خواہش کے باوجود بھی مجرمان کو معاف نہیں کر سکتا۔

پھانسیوں سے متعلق اعدادوشمار ایک اور رحجان کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پھانسیوں پر عملدرآمد کی تعداد میں ایسے دہشت گرد حملوں کے بعد اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے  جن میں پانچ یا زائد افراد ہلاک ہوئے ہوں۔ 2015 میں یوحنا آباد حملے کے بعد تین ہفتوں میں 42 قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔ شجاع خانزادہ پر حملے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر 26 افراد کو پھانسی دی گئی، وہاڑی چوک ملتان میں حملے کے بعد 53 قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرامد کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سزائے موت پر عائد غیر رسمی پابندی اٹھائے جانے کے بعد عوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے پھانسیوں کا استعمال کیا گیا، یہ پھانسیاں حکومتی ردعمل کا حصہ تھیں ناکہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل۔

پاکستان کو سوچنا ہو گا، کہ جیلوں میں قید لوگ کون ہیں، اور وہ کیا حالات ہیں جو لوگوں کو کال کوٹھڑیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے پاس دولت ہوتی تو کیا یہ اسی طرح کال کوٹھڑیوں میں بند ہوتے۔ کیا ذہنی طور پر بیمار افراد اور نابالغ مجرمان کو پھانسی دینے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل ہو رہا ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ پھانسیوں کی تعداد میں ناقابل فہم  اور بے دریغ اضافے کو انصاف قرار دے کر جشن کیوں کر منایا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).