میں نے عاصمہ جہانگیر سے کیا سیکھا؟


عاصمہ جہانگیر گیارہ فروری 2018 کو اس دھرتی کی آغوش میں چلی گئی جس کے باسیوں کے لئے انہوں نے ایک طویل انتھک جدوجہد کی پورے اخلاص اور ذہانت کے ساتھ – میرے لئے ان کی خدمات اور زندگی کو تفصیل سے بیان کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراخ دکھانا – وہ کمال تھیں پوری پاکستانی تاریخ میں منفرد – انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسی فکری و عملی وراثت چھوڑی ہے جو ہمیں ہر قدم پر ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہے گی – میرے جیسے نوجوانوں کے لئے جو ابھی انسانی حقوق کی جدوجہد میں نو وارد ہیں، عاصمہ کی زندگی کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جو رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے – ان کی زندگی کی دو چیزیں خاص طور پر ایسی ہیں جو مجھے بہت زیادہ انسپائر بھی کرتی ہیں اور انسانی جدوجہد کی عظمت کی گواہی بھی دیتی ہیں –

ایک یہ کہ اگر آپ پوری فکری و عملی توانائی اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھیں تو پورے عہد سے ٹکرا سکتے ہیں – ہم عموما یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم تعداد میں کم ہیں، ہماری شنوائی نہیں، ہم کمزور ہیں، معاشرہ روایت پسندوں سے بھرا پڑا ہے۔ کیسے کام کر سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ – عاصمہ کو اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا تھا – عورت ہونا کوئی کمزوری نہیں مگر پاکستانی سماج میں ایک عورت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اسے ضرور کمزور و ناتواں کر دیتے ہیں – پاکستانی سیاست ہو یا معیشت یا معاشرت، انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے سازگار نہیں – چیلنجز ہی چیلنجز ہیں، مسائل ہی مسائل ہیں – اور اگر اس جدوجہد میں کوئی عورت سرگرم ہے تو اس کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے – عاصمہ نے اپنے عورت ہونے کو کمزوری نہیں بننے دیا اور ان تمام چیلنجز و مسائل کا کامیابی سے سامنا کیا اور ایک بہترین نظیر پیش کی – ہم نوجوانوں کو اس سے خاص طور پر یہ سیکھنا چاہئے کہ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکا۔

عاصمہ کی دوسری بڑی خوبی، اصولوں پر قائم رہنا ہے پوری فکری و عملی توانائی اور اخلاص کے ساتھ – اس بارے میں انسانی حقوق کے بہت بڑے پاکستانی رہنما اور عاصمہ جہانگیر کے بہترین دوست آئی اے رحمان لکھتے ہیں

” جمہوریت کے لئے ایسی مضبوط کمٹمنٹ، باوجود اس خطرے کے کہ اخلاقیات کے ٹھیکے دار آپ کو غلط ہی سمجھیں گے، اس وقت ممکن ہے جب آپ اپنے ویژن میں کلئیر ہوں اور جمہوری آزادی کے راستے میں کسی شارٹ کٹ یا ادھوری منزل پر کمپرومائز نہ کریں “

عاصمہ اپنے ویژن میں بھی مکمل تھی اور اسے اپنی عملی جدوجہد میں اس کا مکمل ادراک بھی تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے – یہ طاقت فکری کلئیرٹی سے آتی ہے گہرے مطالعہ اور سنجیدہ و ذہین مشاہدے اور تجربے سے آتی ہے – اس سلسلے میں تین مثالیں بہت عمدہ ہیں –

اول : جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تھا اور اسے عوامی سپورٹ دینے کے لئے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا تو ہمارے بہت سارے ترقی پسند پگھل گئے تھے اور پھسل کر اس کی حمایت میں جا گرے – عاصمہ اس کو سمجھتی تھی کہ یہ سب مکر و فریب اور عیاری ہے کیونکہ دنیا بھر کے ہر غاصب کا یہ مؤثر ہتھیار ہے کہ وہ اصلاحات کا ڈھونگ رچا کر مغربی دنیا اور سول سوسائٹی کو رام کرنا چاہتا ہوتا ہے تاکہ اپنے اقتدار کو عوامی حمایت میں بدل سکے – مجھے فخر ہے کہ میرے استاد وجاہت مسعود صاحب بھی ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو مشرف کی عیاری اور جھوٹی اصلاحات کو سمجھتے تھے اور ترقی پسندی کا راستہ ان کے نزدیک صرف جمہوریت سے گزر کر جاتا ہے کسی ماورائے آئین معرکہ آرائی سے نہیں –

دوم : عاصمہ ساری زندگی تمام شہریوں کے فیئر ٹرائل کے حق میں رہی چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن – انصاف کا حصول اس کے نزدیک صرف آئین پسندی یعنی قانون کی حکمرانی میں تھا – اس نے انصاف کے لئے کسی مہربان اور انصاف پسند بادشاہ کی آرزو نہیں کی تھی – وہ سمجھتی تھی کہ انصاف کا حصول صرف قانون پسندی میں ہے – وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کو جدا نہیں سمجھتی تھی – یہ وہ خاص علمی و فکری نقطہ ہے جو ہمارے قانونی ماہرین کی سمجھ میں بھی نہیں آتا جو انصاف کو کسی ماورائے قانون بندوبست میں دیکھتے ہیں – پاکستان کو کسی انصاف پسند بادشاہ یا مطلق العنان کرشماتی لیڈر کی نہیں بلکہ آئین و قانون کی پاسداری پر قائم ایک سماج کی ضرورت ہے –

سوم : عاصمہ جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتی تھی یوں وہ ان تمام غیر جمہوری قوتوں کی پرزور مخالف رہی جو عوام کے حق انتخاب کو قبول نہیں کرتے اور اس پر حملے کرتے ہیں – یہاں ایک بنیادی نقطہ سمجھنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے – اس جدوجہد میں وہ ہر اس شخص کی سپورٹر رہی جو جمہوریت پسند تھا چاہے وہ حکومت میں تھا اپوزیشن میں یا سول سوسائٹی کا کوئی ادنی سا کارکن تھا – اپنی وفات سے دو دن پہلے اس نے نواز شریف کو وقت کا سب سے بڑا “انٹی اسٹیبلشمنٹ ” قرار دیا تھا – اسے اس سے کوئی فرق نہ پڑتا اگر بعد میں نواز شریف بھی ان لوگوں میں شامل ہو جاتا جو سول بالادستی پر کمپرومائز کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہوتے ہیں – کاز سے جڑ کر رہنے اور شخصیت سے جڑ کر رہنے میں جو فرق ہے عاصمہ کی زندگی کھول کھول کر اسے بیان کرتی ہے – ہمیں ہر اس فرد یا تحریک کو سپورٹ کرنا چاہئے جو سول بالادستی کے منشور پر قائم ہو اور ہر اس کوشش کی مخالفت کرنی چاہئے جو عوامی حق انتخاب کو سپریم نہ تسلیم کرتی ہو – آج نواز شریف ہے کل کوئی اور ہو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہئے، اصل بات کاز کے لئے سرگرم رہنا ہے –

عاصمہ کی زندگی کا سب سے بڑا سبق فکر و عمل میں درست تفہیم، واضح ترجیحات اور اصولوں پر قائم رہنا ہے – ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے اور انہیں بطور مشعل راہ کے اپنانا چاہئے –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan