میری پارٹی مردہ بھٹو دیکھنا چاہتی تھی نہ کہ زندہ بھٹو


\"NASIR-SHABBIR-PIC\"

ننگے پاؤں، غبار آلود چہروں، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں اور ہفتوں کی بھوک چھپائے ہزاروں عقیدت مند قافلوں کی صورت میں نو ڈیرہ گڑھی خدا بخش بھٹو کی جانب رواں دواں ہیں۔ جہاں بھٹو خاندان کے افراد منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہے ہیں۔ مہینوں گرد میں لپٹے مزاروں کو چند دن قبل دھو کر غسل دیا جا رہا ہے، رنگ برنگے اور نرم و لطیف پھولوں کی مہک سے سارا ماحول معطر ہے۔ شاید آخری مرتبہ نو ڈیرہ گڑھی خدا بخش بھٹو میں ایک اور مزار کااضافہ ہوا تھا جب تنہا، افسردہ لیکن ہوش و حواس سے بیگانہ محترمہ نصرت بھٹو کو 24 اکتوبر 2011ء کو ہزاروں سوگوار عقیدت مندوں نے آہوں اور سسکیوں سے مٹی کے حوالے کیا تھا۔ وہی نصرت بھٹو جن کا ذہن اپنے لخت جگر، میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد جسم کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہےکہ آج بھی مزاروں کے کچھ مکینوں کے قاتل مصلحتوں، ذاتی اغراض اور قومی مفاد کے سربستہ رازوں کی طرح پراسرار اور مخفی ہیں۔
زیر نظر تحریر کیے گئے چند حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ آج بھی کئی تارا مسیح بھٹو ازم کے لاشے سے اپنے مفاد اور اقتدار کی انگشتریاں اُتار رہے ہیں۔ لوگوں کے ایمان و عقیدے کو ایوانِ اقتدار کے ترازو سے پرکھا جا رہا ہے پارٹی کے کچھ بڑے سوگواروں کی آنکھوں میں آج بھی یزیدی آنسو صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کی بے حسی، بزدلی، احسان فراموشی اور ناشکری کی عادات و خصائل پہلے سے بھی پختہ دکھائی دیتے ہیں۔ اُس وقت کے جیل سپریٹنڈنٹ کرنل رفیع الدین اپنی کتاب \”بھٹو کے آخری 323  دن \”کے صفحہ 125-126 پر رقمطراز ہیں کہ؛
\”ٹھیک 2 بج کر 4 منٹ پر، 4 اپریل 1979ء کو جلاد نے لیور دبایا اور بھٹو صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑے ………..چند منٹوں کے بعد میں نے کسی کو کنویں میں بھٹو صاحب کے جسم کو ہلاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے چودھری یار محمد، جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، سے پوچھا کہ کنویں میں بھٹو صاحب کی نعش کے ساتھ کون ہے؟ ان کی بجائے مجھے آئی جی پریزن(IG Prisons) نے بتایا کہ وہ تارا مسیح ہے اور ہاتھوں اور ٹانگوں کو سیدھا کر رہا ہے تا کہ تشنج کی وجہ سے ان کا جسم ٹیٹرھا نہ ہو جائے۔ (جب میں پچھلی شام آئی جی جیل خانہ جات اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ان کے جیل دفتر میں بیٹھا تھا تو کسی اسٹنٹ نے بتایا کہ بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ ان کی پھانسی کے بعد ان کی گھڑی اس وقت کے سنتری کو دیدی جائے اس پر اچھی خاصی بحث چل نکلی تھی۔ آئی جی صاحب نے کہا کہ یہ گھڑی بڑی قیمتی ہوگی، کم از کم کئی ہزار روپے کی تو ہو گی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے فوراً کہا تھا کہ یہ قانونی طور پر ان کی ملکیت ہونی چاہیے۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ \”بکرے کو جان کی اور قصاب کو چربی کی \”۔ میں نے اسی وقت یہ کہ دیا تھا کہ یہ گھڑی ممکن ہے ان کی شادی کی ہو، ویسے بھی اسے بیگم بھٹو کے حوالے کر دینا چاہیے )۔ قانون کے مطابق پھانسی کے بعد نعش کو تیس منٹ تک لٹکنا چاہیے اور پھر ڈاکٹر کے اس سرٹیفکیٹ کے بعد کہ موت واقع ہو چکی ہے، نعش کو اتارا جاتا ہے۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ بھٹو صاحب کی گھڑی اور ان کی انگلی پر انگشتری اتار لینی چاہیے۔ وہ بھٹو صاحب کی گھڑی تو اتار کر لے آئے مگر کہنے لگے کہ ان کے ہاتھ پر انگشتری نہیں ہے۔ بھٹو صاحب جب بھی بیٹھ کر میرے سامنے گپ شپ لگایا کرتے تھے تو عموماً وہ اپنی انگشتری کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے،یعنی اسے اپنی انگلی کے اردگرد پھیرتے رہتے تھے۔ میں نے مسٹر قریشی کو بلایا اور کہا کہ جا کر تارا مسیح کی تلاشی لے۔ تھوڑی دیر بعد مسٹر قریشی، بھٹو صاحب کی انگشتری لے کر آئے اور بتایا کہ یہ تارا مسیح کی جیب سے نکلی ہے۔ میں نے جیل سپر یٹنڈنٹ سے کہا کہ یہ دونوں چیزیں اپنے پاس رکھیں اور بعد ازاں بیگم بھٹو صاحبہ کے حوالے کر دیں۔ کافی دنوں بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے باتوں باتوں میں بتایا تھا کہ بھٹو صاحب کا تمام سامان بمع ان کی گھڑی اور انگشتری بھٹو بیگمات کے حوالے کر دیا گیا تھا۔\”

\"\"

حال کے بھاری بھر کم سیاہ بوٹوں والوں کی نسبت ماضی کے نڈر سپہ سالار کی کشمیر کی فتح کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ …………\”جنرل اختر ملک کو کشمیر کے چھمپ جوڑیاں محاذ پر نہ روک دیا جاتا تو وہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کو تہس نہس کر دیتے مگر ایوب خان تو اپنے چہیتے جنرل یحیٰ خان کو ہیرو بنانا چاہتے تھے۔ 1965ء کی جنگ کے اس تذکرے کے دوران بھٹو صاحب نے جنرل اختر ملک کی بے حد تعریف کی۔ کہنے لگے اختر ملک ایک باکمال جنرل تھا۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کا سالار تھا۔ وہ بڑا بہادر اور دل گردے کا مالک تھا اور فن سپاہ گری کو خوب سمجھتا تھا۔ اس جیسا جنرل پاکستانی فوج نے ابھی تک پیدا نہیں کیا۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے، باقی سب تو جنرل رانی ہیں \”۔ ( صفحہ66)
کرنل رفیع الدین نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حوالے سے لکھا کہ \” …یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک دفعہ کہنے لگے، رفیع یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو بہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع، کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھری میں پڑا ہوا ہوں۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کے تلافی کر جائے اوراللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے \” ( صفحہ67)

\"butto\"
پارٹی کی بے حسی اور احسان فراموشی کے حوالے سے کرنل رفیع الدین کچھ یوں تحریر کرتے ہیں کہ …………\”وہ پارٹی کے خلاف بات سننے کو تیار نہ تھے۔ چونکہ پارٹی کی طرف سے کوئی خاص اضطراب یا بے چینی کا مظاہرہ نہ ہوا تو میں نے ایک بار پارٹی کی اس بے حسی پر تنقید کی، جس کو بھٹو صاحب نے فوراً رد کر دیا۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ میری پارٹی مجھ پر جان دینے کو تیار ہے اور وقت آنے پر یہ کارکن ثابت کر دکھائیں گے کہ ان کے لیے بھٹو کیا حیثیت رکھتا ہے اور وہ اسکو کس حد تک چاہتے ہیں۔ کہنے لگے میری پارٹی میں ایک معمولی سی تعداد موقع پرست لوگوں کی ہے جو اپنے آپ کو چھپا رہے ہیں لیکن ان سے میر ی پارٹی کُندن بن کر نکلے گی۔ لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا بھٹو کچھ مایوس ہوتے گئے۔ اوائل 1979ء وہ اپنی پارٹی سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ بر نہ آ رہی تھیں۔ ایک دن کچھ مایوسی کے عالم میں مجھ سے کہنے لگے کہ وہ حرامزادے کدھر ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ہم اپنی گردنیں کٹوا دیں گے……. جب تین اور چار اپریل 1979ء کی رات کو بھٹو کو بتایا گیا کہ ان کو پھانسی دی جارہی ہے اور اس کے بعد انہوں نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا کہ یہ کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ جناب آپ کو واقعی آج رات پھانسی دی جارہی ہے تو اس رات انہوں نے کہا تھا کہ میری پارٹی مردہ بھٹو دیکھنا چاہتی تھی نہ کہ زندہ بھٹو \”۔ ( صفحہ 74-75)
قید کے دوران کئی بار ان کو پاکستانی عوام سے اپنے قائد کے لیے کچھ کر گذرنے کی اُمید رہی لیکن سب کچھ ان کی سوچ اور اندازے کے برعکس ہوا چنانچہ کرنل رفیع الدین لکھتے ہیں کہ،\” سپریم کورٹ سے ان کی اپیل نامنظور ہونے کے بعد ایک دن انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم بہت نا شکری قوم ہے۔ میں اس قوم کے لیے کیا کچھ نہیں کیا بلکہ اس قوم کی شہرت اور طاقت جس کے لیے میں ہمیشہ کوشاں رہا اس کی سزا مجھے جیل میں بند کر کے دی جارہی ہے اور میری قوم کو کچھ پروا نہیں ہے۔ کہنے لگے کاش مَیں ترکی یا جرمنی میں پیدا ہوتا \”۔ (صٖفحہ 66)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments