حرم پاک میں جنسی ہراسانی اور بری خصلت کے مشاہدات


پچھلے چند دنوں سے “ہم سب” پر ایک موضوع زیر بحث ہے۔ حرم پاک میں جنسی ہراسانی کے واقعات۔ ان واقعات کے بارے میں لکھنا نہ تو حرم مقدس کے تقدس کو پامال کر سکتا ہے اور نہ کر رہا ہے۔ اور نہ ہی اس سے اسلام کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان تمام تحاریر کے اگر  بنیادی مطالب پر جائیں تو صرف ایک ہی مسئلہ سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کا ایمان خطرے میں ہے۔ ایک ایک کر کے میں حرم پاک میں ہونے والے واقعات کی نشاندہی کروں گی اور اسلام کا نظریہ ان معاملات کے بارے میں واضح کروں گی۔

جو بھی کہوں گی سچ کہوں گی سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گی۔ میں حلفیہ بیان دیتی ہوں کہ جو کچھ میں اپنے بارے میں بتانے جا رہی ہوں اس میں نہ جھوٹ ہے نہ ملاوٹ اور نہ ردوبدل۔ پڑھنے کے بعد فیصلہ فرمایے گا کہ اس میں اماکن مقدس کی تضحیک (میرے منہ میں خاک) تو کہیں نہیں؟ اسلام کا مذاق تو نہیں؟ خود کو مظلوم ثابت کرنا تو نہیں؟ یا پھر ان سب سے ہٹ کر بد فطرت انسانوں کی بد خصلتی کی نشاندہی تو نہیں؟

ہوا یوں کہ میں، میرا شوہر، ساس اور نند، ہم سب اکٹھے عمرہ ادا کرنے گئے ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں مغرب کے قریب پہنچے۔ ادب سے حاضر ہوئے۔ نماز مغرب کے بعد کھانا کھایا اور پھر واپس مسجد نبوی پہنچ گئے۔ وہاں عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ نماز کی ادائیگی کا بندوبست ہے۔ حتیٰ کہ وہاں مرد حضرت بطور سپاہی بھی اندر مامور نہیں ہیں۔ پانچ برس سے اوپر کا بچہ بھی مردوں کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے۔ فون بھی کوئی چھپا کر اندر لے جائے تو لے جائے ورنہ اس کی بھی اجازت نہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں جانے کا وقت خواتین کے لئے مخصوص ہے۔ سو میری بھی شدید خواہش تھی کہ میں بھی ادھر نوافل ادا کروں تو میں پاکستانی خواتین کے گروپ میں مع ساس اور نند انتظار میں بیٹھ گئی کوئی ایک گھنٹہ بعد پاکستانی خواتین کی باری آئی۔ میں نوافل ادا کرتے ہی باہر نکلی۔ مسجد کا اندرونی حصّہ بہت بڑا ہونے کی وجہ سے باہر نکلنے میں 15 منٹ لگ ہی جاتے ہیں۔ فون سائلنٹ موڈ پر تھا۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ کتنی کالز میرے شوہر نے کی ہیں۔ اچانک محسوس ہوا کہ فون بج رہا ہے۔ فورا اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک دھاڑتی آواز آئی “کس کے ساتھ سوئی ہوئی تھیں کہ فون اٹینڈ نہیں کیا؟” میں نے جواب میں کہا میرا نہیں تو اس مسجد نبوی کا خیال کرو۔ دوسری جانب سے آواز آئی میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ہوٹل۔ اب خود ہی آنا۔ اور جب تک مجھ سے فون پر پلٹ کر جواب دینے پر اور اپنی دیر کی غلطی پر معافی نہیں مانگو گی، میں تمہیں اس وقت تک اپنی زوجیت میں واپس قبول نہیں کروں گا۔ دیار غیر تھا۔ میں نے معافی مانگی۔ حاصل واقعہ یہ ہے کہ میں نے ابتدا میں جو سوال کیے ہیں، بتائیں اس قصے سے آپ کیا اخذ کرتے ہیں؟ میرا بیٹا اور میرا بھائی بھی سن کر مانے نہیں تھے کہ ایسا ہوا ہے۔ مگر اب انھیں یقین آ گیا ہے۔ اگرچہ اب دیر ہو چکی ہے۔

اب میں کعبہ اور عبادات کے تحفظ اور حرمت کی طرف آتی ہوں۔ اسلام کہتا ہے نیکی میں سبقت لے جاؤ۔ یہ سبقت ایثار اور قربانی سے لی جا سکتی ہے۔ دوران حج ہمیں قربانی اور ایثار کیوں بھول جاتا ہے۔ ہم پہلے آپ کی پالیسی اختیار کیوں نہیں کرتے کہ ڈسپلن قائم ہو۔ خوا مخواہ ہزاروں حاجی ہر سال ہلڑ بازی اور بھگڈر میں شہید ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی شہید ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے؟ کیا اس میں اسلام کا قصور ہے؟ تب تو سب ہی صرف شہیدوں پر فوکس کرتے ہیں۔ ارے سوچو ! انھیں باقی حاجیوں نے مل کر مارا ہے۔ ان شہیدوں کا رتبہ اونچا ہے مگر اس افراتفری کو حادثہ کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کے انتہائی خود غرضانہ طرز عمل کا نتیجہ نہیں۔

اس طرح اگر قتل جیسی واردات حرم کعبہ میں ہو سکتی ہے تو جنسی ہراسانی تو کم درجے کا جرم اور گناہ ہے۔ وہ کیسے نہیں ہو سکتا۔ اور اس سلسلے میں اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حج یا عمرہ کرنے نہ جاؤ۔ یہ جگہیں محفوظ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو کچھ شیطانوں کے چیلے ادھر بھی اپنی روش سے بد فطرتی سے باز نہیں آتے۔ حرمین شریفین جانے والے دنیا بھر کے مسلمانو، کچھ شرم ہوتی ہے۔ کچھ حیا ہوتی ہے۔ ادھر تو یہ سیکس کا سیاپا نہ ڈالو۔ عبادت تو بےخوف خطر کرنے دو۔ مگر یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک انسانوں کو خود پر قابو پانا نہیں آ جاتا۔ مسجدیں فساد سے پاک نہیں ہو جاتیں۔ مساجد کعبہ کی نائب ہیں۔ مساجد میں قتل عام پر حیرت نہیں۔ غصہ نہیں۔ مسجدوں میں جنسی ہراسانی کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ ان پر بھی کسی کو ہوش نہیں آتا۔ مساجد کا تقدس کتنا بحال رکھا ہے ہم نے۔ بات تو یہی ہے نہ کہ انسانی فطرت اور خصلت بری ہے۔ ورنہ کیا کعبہ اور کیا کلیسا، عبادت کی تو ہر جگہ مقدس ہے۔ اور ایسے واقعات کے ذکر سے برائی کی روک تھام ہو گی ۔ نہ کہ کسی بھی مذہب بالخصوص حرمین شریفین پر کوئی حرف آئے گا۔ خواتین کا احترام فرض ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ جنّت میں بھی خطا کر بیٹھا تھا۔ فوکس انسانی رویہ پر رکھیں۔ حرمین شریفین یا مسجد یا مدرسے میں پیش آنے والے  واقعات کے ذکر سے ان جگہوں کی عزت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ عزت تو مسلمانوں کی داؤ پر ہے۔ جان حاجیوں کی خطرے میں ہے۔ انسانی نفسیات پر کام کرنا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ دیکھو لوگوں میں بے خوفی،  بے حیائی اور بے باکی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامات مقدسہ پر جا کر بھی ان کے وجود کے اندر کا حیوان نہیں مرتا۔ انسان کے اندر پیدا ہونے والے شیطان اور حیوان کا خاتمہ چاہتے ہیں ہم نہ کہ ہمارا مقصد ان مقامات سے بد ظن کرنا ہے۔ ہم اپنے مذہب، عبادت اور عبادت گاہوں کے لئے اپنی جان بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ فلسفہ کلام اور اصول دین کو سمجھنے میں کچھ تو وسعت شعور برتو۔ یہ واقعات آپ سب کے لئے سدھرنے اور سدھارنے کے لئے لکھے اور چھاپے جاتے ہیں۔ دیر نہ ہو جائے۔ اس سے بھی بات آگے نہ بڑھ جائے۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).