کراچی کا ایک ہندو واپس آتا ہے


کلپنا،
یہ میریٹ ہوٹل ہے۔ بڑا آرام دہ اور بیرے بھی اس طرح سے سیوا کرتے ہیں جیسے برسوں کی جان پہچان ہے۔ تم دونوں کو پسند آئے گا اور اچھی بات یہ ہے کہ کراچی کے بالکل اندر ہے۔ امریکن قونصلیٹ ہونے کی وجہ سے ذرا مسئلہ ہے مگر اچھا بھی ہے کہ سیکورٹی بھی بہت اچھی ہے۔ اس کے باوجود امریکن قونصلیٹ پر کئی حملے ہوچکے ہیں۔

صبح ہی پرشوتم آگیا۔ پہلے تو اس کو میں نے جگن ناتھ کے بارے میں بتایا۔ ڈینسوہال کے پیچھے والی سڑک پر بولٹن مارکیٹ کے قریب، لیلارام روڈ پر ہم لوگوں کا مکان تھا، سورگ کنج اب پتہ نہیں کیا ہو۔ سورگ کنج کے پیچھے ہی جمناداس روڈ سے آگے چل کے کامل گلی میں نورانی مسجد کے قریب ہی ہم لوگوں کی دو بلڈنگیں تھیں۔ کرشنامینشن اور دیارام بلڈنگ۔ یہ دونوں بلڈنگیں پِتا جی نے بڑے اونے پونے مسلمانوں کو بیچ دی تھیں۔ دیارام بلڈنگ کے ساتھ ہی ہری چرن روڈ ہے اسی روڈ پر چچا جگن ناتھ کا گھر تھا۔

چچا جگن ناتھ بہت پڑھے لکھے تھے، پر جانے کیوں شادی نہیں کی انہوں نے۔ ماتا جی نے بتایا تھا کہ جس لڑکی سے منگنی ہوئی، اس کے پریوار والوں نے شادی سے منع کردیا تھا بغیر کسی وجہ کے۔ پھر جگن ناتھ نے شادی کا سوچا بھی نہیں۔ اس لڑکی کو بھولے بھی نہیں، اپنے من سے لگاکے رکھا، اس کے پریم کو دل میں جگا کے رکھا، ایسے ہی ہوتے تھے پرانے لوگ۔ مجھے یاد ہے وہ تھے بڑے بھلے آدمی۔ میں اس وقت چھوٹا تھا، وہ میرا بڑا خیال رکھتے، ہمیشہ مجھے کچھ لے کر کھلاتے، بگھی پر بٹھا کر کیماڑی لے جا کرگھماتے، لانچ پر بیٹھ کر نہ جانے کتنی دفعہ میں ان کے ساتھ منوڑا گیا۔ منوڑا، کیماڑی، جیٹی کے ساتھ ساتھ کچھی مسلمان رہتے تھے۔ چچا جگن ناتھ کی بڑی دوستی تھی ان سے۔

یہ کراچی کے اصل رہنے والے تھے اور زیادہ تر مچھلیوں کا کام کرتے یا پورٹ پر ملازم تھے۔ یہی لوگ تھے جو سمندر کے ساتھ ساتھ ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ، فرنچ بیچ کے آس پاس کے دیہاتوں میں رہتے تھے۔ اپنے اونٹوں پر بیٹھ کر کراچی کی لی مارکیٹ میں خریداری کے لیے آتے تھے اور کھارادر کی نورانی مسجد کے سامنے اپنے اونٹ باندھ کر نماز یں پڑھتے تھے۔ بڑا سندر لگتا تھا ان مسلمانوں کا آنا جانا۔ پرشوتم نے بتایا کہ منوڑا پر تو پاکستانی نیوی کا اڈا ہے۔ زیادہ تر کچھی لوگ وہاں سے چلے گئے ہیں۔ دوسرے جزیروں میں ابھی بھی کچھی مسلمان ہی رہتے ہیں اور تھوڑے سے سکھ بھی ہیں، شاید یہی کہہ رہا تھا وہ۔ میں نے اسے جگن ناتھ چاچا کے بارے میں تفصیل بتائی ہے وہ کہہ رہا ہے کہ کل تک کچھ پتہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

جوزف کے ساتھ میں ایمپریس مارکیٹ گیا اور ساتھ میں جہانگیر پارک ہے جہاں بچپن کے بڑے اچھے دن گزارے ہیں میں نے۔ مجھے یاد ہے کہ پِتا جی اور ماتاجی کے ساتھ ہم لوگ ایمپریس مارکیٹ آتے تو وہ ہمیں اس جہانگیر پارک میں چھوڑدیتے تھے جہاں ہم بچے بھاگتے پھرتے جب تک ان کی شاپنگ ہوجاتی تھی۔

کلپنا، ایمپریس مارکیٹ کا تو بُرا حال ہے۔ گندگی کے ڈھیر اور دکانوں میں جیسے لگتا ہے کچھ ہے ہی نہیں گوکہ سب کی سب سامان سے بھری ہوئی ہیں۔ پتہ نہیں شاید مجھے ایسا اس لیے لگا ہو کہ سب کچھ اب مسلمانوں کے پاس ہے۔ وہ دوکانیں جہاں شناسا چہرے ہوتے تھے، ان دکانوں پر اب اجنبی لوگ اجنبی انداز کے ساتھ اجنبی اجناس لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر کچھ کمی ہے۔ ان گزرے برسوں میں سب کچھ بدل گیا ہے دکان کے مالک، دکان کے اطوار اور گاہکوں کے مزاج۔ میرے زمانے کے ایمپریس مارکیٹ میں جیسے ٹھنڈک تھی، ایک طرح کی کاہلی تھی، اوپر جو پنکھے چلتے تھے بڑے پروں والے، دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ، گاہک بھی اسی طرح سے خریداری کرتے تھے، دیکھ دیکھ کر دھیرے دھیرے اور دکاندار بھی بات کرتے تھے پریم سے، جیسے بہت وقت ہے ان کے پاس۔ ابھی تو ایسا لگا جیسے بھاپ والی ٹرین کو بجلی کی طاقت لگ گئی ہے، شاید ایسا ہوا تو اچھا ہوا، مگر مجھے اچھا نہیں لگا، بھلا نہیں لگا۔

جہانگیر پارک کو دیکھ کر تو جیسے میرا کلیجہ چھل گیا۔ نہ جانے مسلمانوں کو مسجدیں بنانے کا اتنا شوق کیوں ہے۔ پھر بناناہی ہے تو کھلی جگہ پر خوبصورت سی مسجد بنائیں جہاں اوپر والے اللہ کو یاد کرنے میں یکسوئی بھی ہو، مزا بھی آئے، جہانگیر پارک کی ایک طرف مسجد بن گئی ہے اور مسجد کو جیسے کھینچ کر بہت ساری دوکانیں بنادی گئی ہیں مسجد کے نام پر دھندا، پارک کی تباہی، اجڑی ہوئی کیاریاں، جلی ہوئی گھاس، وہ بینچ، وہ فوارے، وہ پھول، وہ سبزہ کچھ بھی نہیں تھا وہاں۔

میرے تو آنسو نکل آئے، بھگوان نے کن لوگوں کے حوالے کر دیا کراچی۔ میں ایک کونے میں بیٹھ کر بہت دیر تک پرانی فلموں کو چلتا ہوا دیکھتا رہا۔ سائے کی طرح جمنا، کویتا، سریندر، مہیندر، جگدیش، دیپا، موہن سب کے سب اِدھر اُدھر گھومتے نظر آئے، کھیلتے ہوئے، دوڑتے ہوئے، بھاگتے ہوئے۔ بینچوں پر بیٹھے ہوئے گورے صاحب اپنی میم کے ساتھ۔ کوئی بوڑھا انگریز درخت کے نیچے اخبار پڑھتا ہوا، کوئی پارسی اپنے بچوں کے ساتھ گھومتا ہوا، کوئی عیسائی فادر آتا جاتا ہوا، ننس اپنے مخصوص لباس میں سرجھکائے چلتی ہوئی مسکراتی ہوئی۔ یہ سب کچھ بھی نہیں تھا وہاں۔

وہاں پر دبلے پتلے گندے لوگ، چرس بھنگ، دوسری نشے والی چیزیں لیے بیٹھے تھے اسی کا کام چل رہا تھا وہاں۔ لٹے ہوئے ایمپریس مارکیٹ اورجہانگیر پارک کو دیکھ کر میں بھی جیسے لٹ گیا۔ پھر دل نہیں کیا کچھ کرنے کو۔

پرشوتم کے ساتھ مندر میں کھانا کھا کر میں ہوٹل آگیا ہوں اور اب تھوڑی دیر بعد سوجاؤں گا۔ مہیش بھی لندن پہنچ گیا ہے۔ اس کا میل آیا تھا مجھے۔ بچوں کو پیار دینا۔
تمہارا پاپا

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2