ایک ہندو کراچی کا – جناح زندہ رہتا تو کراچی زندہ رہتا


کلپنا،
کیسی ہو، پرولا ابھی تک پونے میں ہے یا واپس آگئی۔ بچے تو ٹھیک ہیں، اب تک تو تمہارا ویزا آگیا ہوگا۔
شام کو میں فریئر ہال چلا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں پر کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے، سوائے اس کے کہ ہال کے چھت اور دیواروں پر ایک آرٹسٹ نے کیلی گرافی کی ہوئی ہے جو مکمل نہیں ہوئی ہے۔ صادقین اس کا نام تھا اور وہ اس کام کو مکمل کیے بغیر ہی مرگیا۔ فریئر ہال کی دیواروں پر جو لکھا گیا ہے وہ سمجھ میں نہیں آیا یہ جو بھی تھا بڑا فنکار تھا، انڈیا میں ہوتا تو بڑی قدر ہوتی۔ ابھی تو نہ ہال کی مناسب صفائی ہے، نہ دیکھ بھال ہے اور نہ اس صادقین کے کام کا کسی کو خیال ہے۔ بھگوان تو ہر قوم میں اچھے بھلے، بُرے بندے پیدا کرتا ہے، مگر یہ قوم کمال کی ہے کہ وہ اچھے بندوں کو دھتکارتی ہے اور بُرے بندوں کو وہ مقام دیتی ہے جہاں سے وہ صرف اپنی قوم کا ہی نقصان کرتے ہیں۔

میں بہت دیر تک بڑے دروازے کے سامنے بینچ پربیٹھ کر گزرے ہوئے سالوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ فریئر ہال کے ساتھ کا پارک تو کافی اچھا ہے، پر کراچی کے پرانے پارک تو ختم ہی ہوگئے ہیں۔ اللہ رکھا پارک، کھوڑی گارڈن، فریئر گارڈن، برنس گارڈن، پٹیل پارک، جمشید گارڈن، کوٹھاری پارک اور بہت سارے باغ تھے یہاں پر۔ گاندھی گارڈن کے چاروں طرف دکانیں ہیں۔ اور علاقہ جو سیٹھوں کا تھا لگتا ہے کہ لٹ گیا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ شروع میں ہی ایسا ملے گا میں نے نہیں سوچا تھا۔ جب ہم چھوٹے تھے، کلپنا، تو اس پارک میں آکر گھومتے، دوڑتے بھاگتے تھے، تھک کر لیٹ جاتے اور گھنٹوں لمبی لمبی سانسیں لیا کرتے تھے۔ یہاں روزانہ نہیں آنا ہوسکتا تھا۔ ہمارے گھر سے اس زمانے کے لحاظ سے کافی فاصلہ تھا مگر کبھی ہفتے میں ایک دن اوربعض دفعہ دو دن بھی آنا ہو جاتا تھا، میں بہت دیر تک بینچ پر بیٹھا بیتے ہوئے وقت کو یاد کرتا رہا، بڑا بدل گیا ہے کراچی۔

بدل کر اچھا ہوتا تو مجھے خوشی ہوتی، بدل کر تو برباد ہوگیا ہے ایسا لگتا ہے مانس نہیں رہتے ہیں یہاں پر سارے راکھشس آگئے ہیں، خون کے پیاسے، سارے مانسوں کو مارنے کے لیے۔ یہاں کے اخبار پڑھو تو ایسا لگتا ہے جیسے مانس بو مانس بو کی تکرار کرتے ہوئے بہت سارے دیو بھلے مانسوں کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کے آنکھوں میں خون ہے اورلمبے لمبے دانتوں میں جیسے بھلے مانسوں کا دِل پھنسا ہوا ہے جس سے خون ٹپک رہا ہے۔ اتنی زیادہ disappointment ہوگی، مجھے اندازہ نہیں تھا۔
تمہارا پاپا

انکل کیسے ہیں ان کی دواؤں کا خیال رکھنا بیٹا،
بچوں کو بہت سارا پیار
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کلپنا
صبح جوزف کے ساتھ صدر گیا جہاں پر ٹرام کا اڈا ہوتا تھا۔ ٹرام کراچی سے ختم کردی گئی۔ کتنا بھلا سمے تھا کراچی میں جب ٹرام کی بھلی اور میٹھی ٹن ٹن میں لوگ اِدھر سے اُدھر جاتے تھے۔ صدر سے کینٹ اسٹیشن۔ صدر سے گارڈن روڈ سے ہوتے ہوئے گاندھی گارڈن، یا پھر بریٹو روڈ کے راستے سے سولجر بازار اور اگر کیماڑی جانا ہوتا تو ٹرام سے ہی بندر روڈ کے راستے سے ماما پارسی، این جے وی اسکول، تھیوسو فیکل ہال، لائٹ ہاؤس سینما، کے ایم سی، ڈینسو ہال، لکشمی بلڈنگ، بولٹن مارکیٹ، بومبے بازار، ٹاور، ہوا بندرسے ہوتے ہوئے کیماڑی پہنچ جاتے تھے۔ یہ سب کچھ تو ختم ہوگیا۔ میں تو برلن بھی گیا ہوں، میونخ بھی، جنیوا بھی، ایمسٹرڈم بھی۔ یہ شہر بھی تو بڑے ہوئے ہیں پر وہاں ٹرام ختم نہیں کی اُن لوگوں نے۔ برلن میں، میں اس ٹرام پر بیٹھ کر اس لائن پر گیا جس پر بیٹھے بیٹھے آئن اسٹائن نے تیزی سے گزرتے ہوئے دوکانوں، گلیوں اور لوگوں کو دیکھ کر پہلی دفعہ Theory of relativity کے بارے میں سوچا تھا۔

دو بڑی جنگوں کے باوجود اور پورے شہر کی بربادی کے ساتھ بھی ٹرام موجود ہے، پر اپنے کراچی کا ٹرام ختم کردیا ہے شہر کے نئے باسیوں نے۔ حالانکہ کراچی میں ٹرام وے کمپنی 1868ء میں انگریز لے کر آئے تھے، پہلے یہ ٹرامیں گھوڑے کھینچتے تھے، پھر انجن آگئے اور میں نے سنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ٹرام کمپنی کو کسی مسلمان نے خرید کر محمد علی ٹراموے کمپنی بنادیا تھا، جہاں ٹرام کا اڈا تھا وہاں پر ایک گندی سی بلڈنگ گل پلازہ ہے۔ جہاں گل پلازہ ہے اس کے سامنے یہودیوں کی ایک بیکری تھی۔ بڑی اچھی ڈبل روٹی بناتے تھے، وہ لوگ یہودی لڑکیاں لمبے لمبے اسکرٹ پہنتی تھیں۔

اسی جگہ پر ان لوگوں نے کراچی کی پہلی آئسکریم کی دکان کھولی تھی۔ مجھے ابھی تک اس آئسکریم کا مزا یاد ہے۔ ٹراموے کمپنی کے بلڈنگ کے دوسری جانب بندر روڈ کی طرف رَتی جناح کے باپ نے اپنی بیٹی کی یاد میں ایک بڑا سا پیاؤ بنایا تھا، وہ پیاؤ بھی ختم ہوگیا ہے۔ نہ جانے جانور پانی کہاں پیتے ہوں گے۔ اب نہ وہ دکان ہے، نہ ہی یہودیوں کے نشان ستارے سے آراستہ بلڈنگ ہے اور نہ وہ بڑا سا پیاؤ۔ گندگی کے ڈھیر ہیں اور دھواں اگلتی ہوئی رکشائیں ہیں۔ جوزف نے بتایا کہ سینی گاگ پر قبضے کے بعد سے سارے یہودی شہر چھوڑ گئے ہیں اور اب کوئی یہودی کراچی میں نہیں ہے اور آہستہ آہستہ سارے پیاؤ بھی ختم ہوگئے ہیں۔

جوزف کی ٹیکسی میں بیٹھ کر ٹرام والے روٹ سے بندر روڈ پر چلتے ہوئے بریٹو روڈ کے راستے سے میں سولجر بازار تک گیا۔ بازار ابھی تک موجود ہے پر ہمارے سامنے کا بازار نہیں ہے۔ بلڈنگ تو وہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بلڈنگ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ راستے میں جیکب لائن کوارٹرز کے پیچھے جو بڑا ٹیلا تھا وہاں اب جناح کی قبر ہے، میں اسے دیکھنے چلا گیا۔ بڑی بلڈنگ بنائی ہے ان لوگوں نے۔ اچھا بنایا ہے پر من یہ کرتا تھا کہ جناح سے پوچھوں کہ بابا تیرا بھی تو تھا کراچی۔ پر کیا پوچھتا، بھلا آدمی زندہ رہتا تو شاید کراچی بھی زندہ رہتا، ٹرامیں بھی چلتی رہتیں، مندر بھی نہیں جلتے، پارکوں میں مسجدیں بھی نہیں بنتیں، شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کراچی بھی شہر ہوتا ہماری ممبئی کی طرح۔

دوپہر کو مندر میں کھانا کھایا پھر ہوٹل میں جا کر سوگیا۔ پانچ بجے پرشوتم نے آکر بتایا کہ جگن ناتھ نام کا آدمی تھا تو سہی پر مسلمان ہوگیا تھا۔ جگن ناتھ کا دوست تھا بمل کمار ناتھانی اس کا پتہ لگ گیا ہے، اب اسے تلاش کرکے اس سے پتہ کرنا ہوگا کہ جگن ناتھ مسلمان کیوں بنا تھا۔ پھر گیا کدھر، اگر گیا نہیں تو مرا کیسے؟

مجھے ابھی بھی یاد ہے پتا جی نے جگن ناتھ چاچا سے بہت کہا تھا کہ کراچی سے ساتھ نکل چلیں بومبے چلیں مگر انہیں تو کراچی نہیں چھوڑنا تھا، یہیں رہنا تھا، جینا تھا مرنا تھا۔ پر اب کچھ پتہ نہیں کہ جئے ہیں کہ مرے ہیں، اس کراچی میں جس سے انہیں پیار تھا، انہوں نے اور اِن جیسے بہت سارے ہندوؤں، پارسی اور عیسائیوں نے تو سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انہیں یہ شہر چھوڑنا پڑے گا اور جب وہ یہ شہر چھوڑ جائیں گے تو پھر یہ شہر شہر نہیں بلکہ کچھ اور بن جائے گا۔ شہریوں کا مرگھٹ، اَدب و ہنر کا قبرستان، اس کی گلیاں تنگ ہوجائیں گی، یہاں کی خوبصورت بلڈنگوں کو نظر لگ جائے گی، یہاں کے ہسپتال، مندر، سیناگاگ، چرچ، جانوروں کے پانی پینے کے پیاؤ، بچوں کے اسکول، لڑکیوں کاواویلا، سب تباہ ہوجائیں گے، کس نے سوچا ہوگا، کس نے سوچا تھا!

تم لوگوں کا ویزا آیا کہ نہیں؟ میرے کبوتر کیسے ہیں؟ مہیش کا رات فون آیا تھا لندن میں اُس کی ٹریننگ شروع ہوگئی ہے۔ راہول اور پریتو کو خوب سارا پیار۔
تمہارا پاپا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کلپنا
پرولا کو کہنا میری چِنتا کم کرے اور اپنے پروجیکٹ پر دھیان دے، میں ٹھیک ہوں۔ بابا بگڑا ہوا کراچی ہے پر ابھی بھی ہندو پارسی عیسائی شہر میں رہتے ہیں۔ سینٹ پیٹرک اسکول کے ساتھ سینٹ پیٹرک کا بڑا چرچ اسی طرح سے کھڑا ہے۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ اس چرچ سے ہائی کورٹ کی بلڈنگ تک پیدل آتے تھے، آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے۔ ابھی بھی آسکتے ہیں مگر ٹریفک بہت ہے اور دھواں ہی دھواں ہے چاروں طرف۔ چرچ سے ہائی کورٹ نظر تک نہیں آتا ہے۔ گندگی کے اتنے ڈھیر ہیں کہ لگتا ہے کہ شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے، کاغذ، کپڑے اور پھلوں کے چھلکوں سے روڈ بھرا ہوا ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔ کوئی مجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ جو مسلمان ملتے ہیں بہت اچھے طریقے سے ملتے ہیں، کھانے کو، چائے کو پوچھتے ہیں۔ بالکل پریشان نہ ہو تو اچھا ہے، میں ٹھیک رہوں گا۔ ابھی بمل ناتھانی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہوجائے گی۔

آج میں سینٹ پیٹرک اسکول بھی گیا، بلڈنگ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میدان بھی ویسا ہی ہے، وہی میدان جہاں پر ہم لوگوں نے کرکٹ کا میچ کھیل کر سینٹ پیٹرک اسکول کی بی ٹیم کو ہرادیا تھا۔ میں اس میچ کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ آخری میچ تھا، میرا کراچی میں۔ اب وہ دونوں ٹیمیں پتہ نہیں کہاں کھوگئی ہوں گی۔ کوئی میری طرح بوڑھا ہوگا، کوئی بھگوان کے پاس چلا گیا ہوگا۔ وقت ایسے ہی گزرجاتا ہے۔ یادیں رہ جاتی ہیں پھر یاد کرنے والے چلے جاتے ہیں پر عمارتیں رہ جاتی ہیں اور ان عمارتوں کے کمروں میں نئی باتیں نئی یادیں جنم لیتی ہیں۔ جنم جنم سے یہی دستور ہے اور جنم جنم تک یہی دستور رہے گا۔

اسکول سے نکلا تو اسکول کے ساتھ بنے ہوئے جانوروں کے پانی پینے کا جو بڑا سا پیاؤ تھا، وہ نہیں ملا مجھے۔ پتہ نہیں کیا کیا بن گیا ہے۔ کراچی میں جانوروں کے پانی پینے کی جگہیں اور ان کے لیے بنے ہوئے سایہ دار شیڈ سب ختم ہوگئے ہیں۔ یہ بیچارے کراچی والے جب جانوروں کا خیال نہیں کرسکتے ہیں تو منش کا کیا خیال کریں گے۔ میں ٹیکسی میں ہی جوزف کے ساتھ وہاں سے کیتھڈرل سے ہوتا ہوا ہائی کورٹ تک آیا جو اب سندھ ہائی کورٹ بن گیا ہے۔ میں تھوڑے سمے کے لیے اندر چلا گیا۔

جب میں ڈی جے کالج میں داخل ہوا تو پِتا جی کے دوست تھے ایم بی شاہانی، اس وقت کے بڑے وکیل۔ وہ چاہتے تھے میں وکالت پڑھوں۔ انہوں نے ہی کورٹ اور وہاں کا طریقہ کار سمجھایا تھا۔ وہ مجھے عدالت دکھانے لائے تھے۔ خوبصورت بلڈنگ تو وہیں کھڑی ہے پر اندر کی بلڈنگ ویسی ہی گندی ہے جیسے کراچی گندہ ہے۔ پان کی پیک، گندے پنکھے اور بہت ہی گندہ ٹوائلٹ۔ ایسا کہ آدمی کو اُلٹی ہوجائے۔ جوزف نے مجھے بتایا کہ اس طرح کے سارے کے سارے سرکاری دفتروں میں ٹوائلٹ ہوتے ہی نہیں ہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو بے انتہا غلیظ اور شہر میں جو پبلک ٹوائلٹ کا ایک سسٹم تھا، وہ کب کا ختم ہوگیا ہے۔ شکر ہے بمبئی میں ایسا نہیں ہے۔

جج رام داس کرم چند کی عدالت پر کچھ اور نام لکھا تھا، اندر بینچیں شاید وہی تھیں جو پرانی ہوگئی تھیں اور ٹوٹ بھی گئی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ ان کی صفائی ہوتی ہی نہیں ہے۔ پرانی اور ٹوٹی ہوئی گندی بھی۔ میں سوچتا رہا کہ عدالت کا یہ کمرہ اس وقت کتنا صاف تھا اور اب کتنا گندہ ہے۔ اُس وقت جج کی ہمت نہیں تھی کہ نا انصافی کرے، اب مجرم کی عادت نہیں ہے کہ انصاف سنے اور سہے، کراچی کے اخبار تو یہی کہتے ہیں۔

ٹیکسی وہاں چھوڑ کر میں اور جوزف پیدل فریئر روڈ پر آگئے۔ بڑا نالہ اب بند کردیا گیا ہے۔ یہ نالہ برسات کے پانی کے لیے تھا جب بارش نہیں ہوتی تھی تو خشک نالے میں بچے کرکٹ کھیلتے تھے اب شاید کچھ اور انتظام ہوگا۔ نالے کے ساتھ لڑکیوں کا اسکول بھی تک موجود ہے۔ وشن دیوی، نرائن داس کنیا مہاودیالہ ابھی تک بلڈنگ کے ماتھے پر لکھا ہے مگر بلڈنگ کا برا حال ہوگیا ہے۔ اسی اسکول میں تمہاری ماسی شکنتلا اور جمنا نے پڑھا اور یہاں ہی انہوں نے تمہاری ماں کانتی کو دیکھا اور میرے لیے پسند کیا۔ پر نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ کراچی اور نہ ہی کانتی۔ تم لوگ آؤگے تو تمہارے ساتھ اس بلڈنگ کے اندر بھی جائیں گے جہاں کی فضاؤں میں شاید تمہاری ماں کی خوشبو، اس کی آواز کی کھنک اور اس کے بچپن کا بالاپن کہیں چھُپا ہوگا۔ اس کمرے میں بھی چلیں گے جہاں اس کی کلاس ہوتی تھی، جہاں وہ بیٹھتی ہوگی جس کے کاریڈور میں وہ چلی ہوگی مگر ایسا لگتا ہے جیسے اسکول مجھے اندر سے مایوس کردے گا۔

محلہ اسکول سے آگے رام باغ آگیا اور رام باغ کو تو دیکھ کر میرے آنسو ہی نکل آئے۔ میں ادھر ہی کھڑا ہوگیا اور جوزف کو ٹیکسی لانے کے لیے بھیج دیا تھا۔ اب رام باغ آرام باغ ہوگیا ہے، کراچی والوں نے اس کا نام بھی بدل دیا ہے اور اس باغ میں ایک مسجد بھی بنادی ہے اور مسجد کے ساتھ عمارت بھی۔ کہاں وہ رام باغ کا ہرا بھرا باغ اور اس میں کام کرتے ہوئے مالی اور کہاں یہ ویران بگڑا ہوا آرام باغ۔

تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مسجد سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بھگوان کے سو روپ ہیں اور ہر روپ اچھا ہے، وہ تو بڑا دیالو ہے جس روپ میں ہے بھگوان ہے، ہم بندے نام کچھ بھی رکھ دیں اور اگر مسلمان بھگوان کو یاد کرنے کے لیے مسجد بناتے ہیں تو کیا ہے پر رام باغ کا جو حشر ہوا ہے اس سے مجھے بڑا دکھ پہنچا ہے۔ نہ وہ گھاس نہ وہ پودے نہ وہ کیاری نہ وہ پھول پنیری نہ وہ درخت اور نہ ان کی چھایا۔ اجڑا ہوا باغ اور اس میں گھومتے پھرتے ہوئے عجیب شکلوں کے اجڑے ہوئے لوگ، ایسا لگا جیسے اس باغ کا کوئی مالی نہیں ہے، میں زیادہ دیر تک وہاں نہیں رک سکا تھا۔ جوزف آیا تو میں جیسے تھک کر ٹیکسی میں بیٹھ گیا تھا۔

جوزف کو لے کر میں سیواکنج ہاسٹل آیا اورگاڑی میں بیٹھا بیٹھا سیوا کنج ہاسٹل کے سامنے رابندر ناتھ ٹیگور کا بنایا ہوا آرٹ اسکول دیکھتا رہا۔ اس کا بھی برا حال ہے۔ سرن گاتی نام کی پرانی بلڈنگ آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔ جہاں پہلے آرٹ کے پرستار آتے تھے۔ رنگوں سے پینٹنگ بنانے والے، مٹی سے مورتی اور پتلے گڑھنے والے، کویتا کہنے والے کوی، یہاں پر ہی کلاکار بنتے تھے گاتے تھے، ناچتے تھے وہاں جیسے کلا کی چتا پڑی ہے، کسی نے اسے آگ بھی نہیں لگائی، آہستہ آہستہ سڑ گل رہی ہے، اسی چِتا کا نام سرن گاتی ہے جو شانتی نکتین کلکتہ کی برانچ تھی جہاں پڑھنے والے بچوں کو کلکتہ بلایا جاتا تھا، وہاں سے آگے ہرمس جی کھج یورانا بلڈنگ میں پارسیوں کا آتش کدہ تھا وہاں ابھی بھی آگ جل رہی ہے۔ ساتھ ہی ڈی جے سائنس کالج کی بلڈنگ موجود تھی ویسی ہی خوبصورت جب ہم نے کراچی چھوڑا تھا، بظاہر یہ بلڈنگ صاف ستھری تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے کسی کو اس کی چنتا ہے۔ کاش کراچی کی بھی کسی کوچنتا ہوتی، کاش رام باغ کو بھی کسی نے دیکھا ہوتا، کاش ڈنشا انجینئرنگ کالج کی بلڈنگ بھی ایسی ہوتی، پتہ نہیں پربھو کے کیا بھید ہیں، بناتا بھی ہے بگاڑتا بھی ہے، پر یہ بھید جدا جدا ہیں یہاں کے لیے کچھ اور، اور وہاں کے لیے کچھ اور۔

وہاں سے ہوٹل واپس آکر کھانا کھا کر سوگیا تھا، اٹھا ہوں تو تمہیں یہ میل لکھ رہا ہوں۔ کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا۔ امید ہے تم بور نہیں ہوتی ہوگی اگر میں آرکیٹکٹ نہیں ہوتا تو شاید اچھا ہوتا، میری نگاہ سے بلڈنگ چھپتی نہیں ہے اور یہ بھی نہیں چھپتا کہ کس نے کہاں حرام خوری کی ہے، اب نئے کراچی میں شاید کوئی ایماندار آرکیٹکٹ ہے ہی نہیں۔ پاسپورٹ کی واپسی ویزا کے ساتھ ہوگئی اچھا ہوا۔ ابھی تک بمل کمار نہیں ملا ہے اور نہ ہی جگن ناتھ کا اتا پتہ۔
تم کو کراچی پسند آئے گا۔ بچوں کے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔
تمہارا پاپا

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)
اس سیریز کے دیگر حصےایک ہندو کراچی کا – وحشتوں کا شہر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).