ایک ہندو کراچی کا – بیٹی تم کراچی مت آؤ


کلپنا،
بمل کمار میری عمر کا آدمی ہے مگر اس سے مل کے ایسا لگا جیسے ہزار سال اس کی عمر ہوگی۔ پارسی کالونی سے آگے گارڈن کے علاقے کی جیون داس بلڈنگ میں چار ہی فلیٹ ہیں اور چار ہندو خاندان وہاں رہتے ہیں، بمل کمار اکیلا رہتا ہے، سر جھکا کر چلتا ہے وہ۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ سب کچھ لُٹ گیا ہے اس کا اس شہر میں۔ ایک بیٹا تھا وہ کینیڈا چلا گیا۔ آنا چاہتا تھا پر میں نے منع کردیا۔ کیا کرے گا کراچی میں نہ گھر ہے نہ در ہے اور نہ ہی عزت محفوظ۔ اس بلڈنگ کو حاصل کرنے کے لیے کئی دفعہ کوشش ہوئی۔ بابری مسجد ٹوٹی تو کراچی کے کئی مندر جلادیے گئے۔ رزاق سیٹھ کے لوگوں نے حملہ کردیا پر پولیس آگئی تو بچ گئے ہم لوگ۔ رزاق سیٹھ یہ بلڈنگ مانگتا ہے وہ کہتا ہے آٹھ منزلہ بلڈنگ بنائے گا اس جگہ پر۔ ہم کو پیسہ بھی دے گا فلیٹ بھی دے گا۔ لیکن ہم نہیں چاہتے ہیں کہ یہ بلڈنگ گرے۔ یہ اچھی بلڈنگ ہے میرے پرکھوں کی بلڈنگ ہے مضبوط ہے، گرے گی نہیں۔

ان لوگوں نے کئی ہندوؤں اور پارسیوں کی بلڈنگوں پر قبضہ کیا ہے۔ پرانی عمارت گرادی ہے اور فلیٹ بنا کر بیچا ہے اور پیسے بنا کر بھاگ گئے ہیں۔ سرکار ملی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں، کوئی دیکھتا نہیں۔ ہم لوگوں نے منع کردیا تو ہر طریقہ استعمال کررہا ہے وہ۔ یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔ اس نے بھی کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بڑے زور سے میرے ہاتھوں کو دباتے ہوئے بھرائی آواز میں بتایا کہ پھر انہوں نے کملا کو اغوا کرلیا۔ زبردستی اس کی شادی کرادی، کہتے ہیں وہ مسلمان ہوگئی ہے اس کا نام پروین ہے وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی ہے مجھ سے پردہ کرتی ہے کیونکہ میں مسلمان نہیں ہوں، کافر ہوں۔ اگر مسلمان ہوجاؤں تو وہ مجھ سے ملے گی۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے، میری انیس سال کی بٹیا جو مجھے دیکھے بغیر سوتی نہیں تھی وہ مجھ سے ملنے کو تیار نہیں ہے۔ مجھے دیکھنا نہیں چاہتی ہے۔ بڑا ظلم ہوگیا ہمارے پریوار پر۔ پولیس، عدالت، وزیراعلیٰ سب بے کار۔ بہت کوشش کرلی میں نے کسی طرح سے اپنی بٹیا سے اکیلے میں مل لوں، اپنے گلے لگالوں اس کے ماتھے کو چوم لوں اپنے منھ سے کہہ دے مسلمان ہوگئی ہے وہ۔ ہم سے ملنا نہیں چاہتی۔ مان لوں گا۔ صبر کرلوں گا۔ پرملے تو صحیح۔ میں اسے دیکھوں تو۔ چھوؤں تو۔ پر وہ مانتے نہیں ہیں۔ کملا کی ماں دروازے پر بیٹھے بیٹھے روتے روتے پاگل ہوگئی۔ پھر ایک دن کملا، کملا بولتی ہوئی مرگئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے میں کیا کروں۔ کدھر کدھر گیا ہوں میں۔ ہیومن رائٹ کمیشن کے ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاس۔ ہندومنڈل کے ساتھ ساتھ مگر کچھ نہیں ہوا۔ کچھ نہیں ہورہا۔

وہ میری بچی جس کو میں نے اپنے پلکوں پر رکھ کے پالا جس کے سر کے درد سے میں بے چین ہوتا تھا جس کی انگلی پر کٹ لگا تو جیسے میرا دل کٹ گیا تھا۔ اس کا روز بلاد کار ہوتا ہے۔ وہ روز لٹتی ہوگی۔ میری ننھی سی گڑیا۔ ہائے بھگوان کیا کردیا تو نے۔ وہ کہتے ہیں اس نے مسلمان ہوکر شادی کرلی ہے، مجھے پتہ ہے اس نے شادی نہیں کی۔ وہ مسلمان نہیں ہوئی ہے۔ وہ میری بیٹی ہے، پروین نہیں ہے کملا ہے اور وہ روز لٹتی ہے، میں کچھ کر نہیں سکتا۔ اپنے تکیے پر سر رکھ کر روز روتا رہتا ہوں۔ اندھا بھی نہیں ہوتا، مرتا بھی نہیں۔

میں بمل کمار کے گلے لگ گیا۔ اس کا نازک سا جسم کپکپارہا تھا۔ اس کی پیٹھ کی ہڈیوں کو پکڑ کر میں اس کے لرزتے ہوئے جسم کو سہلاتا رہا۔ مجھے لگا جیسے میں بھی ہزار سال کا ہوگیا ہوں، میرے ہاتھ بھی کپکپارہے ہیں، میری کمر بھی ٹوٹ گئی ہے، میرا جسم بھی لرزرہا ہے۔ میرا سر بھی جھک گیا ہے، میں بیٹھ کر چپ اسے دیکھتا رہا۔ سوچتا رہا۔ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ بھگوان چاہتا کیا ہے۔ بھگوان ہے بھی کہ نہیں۔ اگر ہے تو اتنا کٹھور کیوں ہے۔ کیوں توڑا اُس نے بمل کو کیا مل گیا اِس ناٹک سے۔ کیسے اس کے بھید کتنا نرالا ہے وہ۔

بیٹی تم لوگ کراچی مت آؤ میں بھی، بس دو ایک دن میں آجاؤں گا بالکل فکر نہ کرنا میرا کام بھی ہو ہی گیا ہے۔ ویسے بھی اس شہر میں کچھ خاص نہیں ہے۔ جب عزت نہیں رہتی تو کچھ نہیں رہتا ہے۔
بمل کمار، جگن ناتھ کو جانتا تھا بلکہ بہت دوستی تھی دونوں میں، بمل نے بتایا کہ جگن ناتھ کو بڑا پیار تھا کراچی سے، بڑی محبت سے وہ رہتا تھا کھارادر کے علاقے میں۔ پھر ایک دن مجھے پتہ لگا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، میں اس سے ملنے گیا۔

اس نے مجھے پرنام کیا تھا جیسے ہندو کرتے ہیں، مجھ سے جھک کر ملا تھا جیسے مندر میں ملتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی تھی۔ ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اس نے ہنستے ہوئے زور سے کہا تھا، ارے اوپر والا تو ایک ہی ہے، پربھو تو سب دیکھتا ہے، سب سمجھتا ہے، سب جانتا ہے۔ اس کے بھید ہیں سارے، ارے کیا فرق پڑتا ہے جگن ناتھ ہوں کہ غلام محمد۔ اب مجھے کہاں جانا ہے اسی جگہ رہوں گا، اسی جگہ مرجاؤں گا۔ وہاں جلادیتے ہیں، یہاں دبا دیں گے۔ اسی کھارادر میں اپنے بچپن کے گھروندے کے آس پاس۔ اس گلی کی آخر میں جہاں ماتاجی ڈولی پر بیٹھ کر آئی تھیں، اس محلے میں کہیں جہاں شاردا رہتی تھی، اس روڈ کے اس طرف اس پارک کے ساتھ جہاں میں نے، بھیا نے دوڑیں لگائی تھیں اور ان گلیوں کے آس پاس جہاں میں پِتا جی کا ہاتھ پکڑ کر گھوما، آیا گیا تھا۔ اسی کے آس پاس قبرستان میں دفن ہوجاؤں گا۔

وہ میری آخری ملاقات تھی۔ نہ جانے کیسے کیا ہوا۔ مجھے دو ماہ کے بعد پتہ لگا کہ جگن ناتھ جی انتقال کرگئے ہیں۔ وہ بڑے پیر ہوگئے تھے اور ان کے مریدوں نے انہیں دفن کردیا ہے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ جگن ناتھ جی کے مرید، چیلے کہاں سے آئے تھے۔ وہ سادہ آدمی تھے، صوفی جوگی۔ اپنے حال میں مست اپنے کام میں مصروف۔ پیری کرنا مرید پالنا ان کا کام نہیں تھا۔ میں اس وقت بھی پتہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے۔ پیر کیسے بنے۔ مرید کہاں سے آئے۔ گھر کہاں گیا۔ کس نے قبضہ کیا اور کس نے فیصلہ کیا کہ انہیں کھارادر میں ہی دفن کرنا ہے۔ انہیں کھارادر میں ہی دفن کیا گیا۔

خط لمبا ہوگیا بیٹی میں کوشش کروں گا کہ دو تین دنوں میں آجاؤں۔ تم کو مایوسی تو ہوگی پر پاکستان آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ ملتا ہے ہندوستان میں۔ ابھی بھی بومبے میں مسلمان لڑکی کا بلادکار ہوتا ہے تو قانون تو اس کے ساتھ ہی ہوتا ہے نا، پر یہاں تو نہ قانون ہے اور نہ ہی قانون کے چلانے والے، ماننے والے۔
مہیش کو بھی میں نے لکھ دیا ہے کہ میں اب واپس چلا جاؤں گا۔ دل اُٹھ گیا ہے اس شہر سے۔ بلاد کار ہوگیا ہے شہر کا اور شاید یہ ہوتا ہی رہے گا۔
تمہارا پاپا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کلپنا،
آج میں پرشوتم کے ساتھ کھارادر کی پرانی ٹیڑھی میڑھی، اونچی نیچی، گندی بھدی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں گھومتا رہا، ٹاور کے سامنے کی گلی سے ہوتے ہوئے مچھی میانی مارکیٹ سے گزر کر ہری رام روڈ پر آکر آتمارام پریتم داس روڈ سے نکل کر دوبارہ گلیوں میں گھس کر گھومتا رہا، دیکھتا رہا کہ گلیوں کو بلڈنگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ جیون داس بلڈنگ، رادھا مینشن، گلاب چند میروانی پیلس، مٹھورام جنکشن، شانتی ماسی کا بنگلہ، کانتی بائی کا میٹرنٹی ہوم، سادھو رام کا دواخانہ، سب خراب ہوگیا ہے، کلپنا، سب خراب۔ کھلے کمروں، بالکونیوں، راہداریوں کو یہاں کے لوگوں نے اپنے دماغ کی طرح ہی بانٹ دیا ہے۔ دیوی مندر اور دھرم شالہ کے ساتھ سیٹھ شیورام کرکھیامل چیریٹبل ودیشی ڈسپنسری کی چھوٹی سی بلڈنگ ابھی بھی ہے۔ ورانڈے میں رام چند پریتم داس اور سیٹھ گھنشام داس کبل رام کی دی ہوئی بینچیں ابھی بھی پڑی ہیں پر سب کچھ ختم ہورہا ہے۔ ختم ہوگیا ہے، جہاں مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ جہاں کامل گلی ہے، نورانی مسجد ہے، بھاگ ناری مندر ہے، مسلمانوں کا قبرستان تھا، ہندوؤں کی بلڈنگیں تھیں، سکھوں کا گردوارہ تھا، مسلمانوں کا سندھ مدرسہ تھا، اسمعیلیوں کا جماعت خانہ تھا۔

اس کراچی کی چیمبر آف کامرس کی عمارت کا افتتاحی پتھر لگانے گاندھی جی کو بلایا گیا تھا۔ وہ پتھر بھی دیکھا میں نے۔ ابھی بھی سندھ مسلم مدرسہ سے پہلے بلڈنگ پر لگا ہوا ہے۔ کسی نے سرخ رنگ سے اس پر کچھ اردو میں لکھ دیا تھا، مجھے جوزف نے بتایا کہ ’’قاتل‘‘ لکھا ہوا ہے پتھر پر۔ میں سوچتا رہا کہ قتل ہونے والا قاتل کیسے ہوسکتا ہے، یہاں کی تو ریت سنسار ہی بدل گئی ہے، نہ شہر رہا ہے نہ شہر کے باسی، صرف لوگ ہیں اور ان میں کچھ ڈرے ڈرے سہمے ہوئے ہندو۔

میں گھومتا رہا۔ مجھے کملا یاد آتی رہی۔ کملا کی ماں جو اپنی اغوا شدہ بیٹی کا انتظار کرکرکے پہلے اندھی ہوئی۔ پھر اس کی امیدوں کی موت ہوگئی۔ اپنے پتی کے سامنے روتے روتے وہ پاگل ہوگئی۔ نہ جانے کتنے دنوں تک پاگل رہ کر ایک روز وہ خاموشی سے مر گئی۔ بمل دروازے پر کھڑا کھڑا ٹوٹ گیا، جس کی کمر ڈھے گئی، جس کی نظر جھک گئی، جو اِسی جھکی نظر، ٹوٹی کمر کے ساتھ انتظار کرتا کرتا مرجائے گا۔ دنیا کو کیا ہوگیا ہے، ایسا ظلم، بھگوان بھی بے بس ہے۔

بھگوان داس روڈ کے آخر میں جہاں مرلی دھرن اسٹریٹ ملتی ہے، وہاں سڑک کے کنارے جگن ناتھ چاچا کی قبر ہے۔ یہی بتایا تھا بمل کمار نے۔ میں اور پرشوتم جا کر کھڑے رہے۔ دیکھتے رہے۔ وہاں جتنی دیر کھڑے رہے لوگ آکر دعا کرتے رہے۔ مانگتے رہے۔ سرجھکا کر عقیدت کے ساتھ۔ میں سوچتا رہا، اُلجھتا رہا، بھگوان کیا چاہتا ہے، کیا کرتا ہے منش اور میرے جیسا منش کیا سمجھے گا اس گورکھ دھندے کو۔

پتہ نہیں جگن ناتھ کے جی میں کیا تھا۔ پتہ نہیں وہ مرے تھے یا ماردیے گئے۔ اس بلڈنگ سے نکالنے کے لیے جہاں پر ایک پلازہ ہے۔ نہ جانے وہ کون مرید تھے، کون چیلے تھے، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا پر مجھے خوشی تھی۔ خوشی اس بات کی کہ جگن ناتھ چچا اسی کھارادر میں اپنے پیاروں کے قدموں کی چاپ کے ساتھ دفن ہیں۔ تمام بربادی کے باوجود انہیں خوشبو آتی ہوگی، نیچے اس مٹی میں اپنے پیاروں کی، دُلاروں کی۔ میں نے جگن ناتھ چچا کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ پرنام کیا تھا ہم دونوں نے ایک دوسرے کو۔ میں خوشی سے رودیا تھا، وہ اطمینان سے ہنس دیے تھے۔

میں نے جگن ناتھ غلام محمد کی قبر سے تھوڑی سی مٹّی اٹھالی ہے جب آؤں گا تو گنگا میں بہادوں گا۔
میں کل ایئرانڈیا کی فلائٹ سے ممبئی پہنچ جاؤں گا۔ ایئرپورٹ سے ٹائم کا پتہ کرلینا۔
تمہارا پاپا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)
اس سیریز کے دیگر حصےایک ہندو کراچی کا – وحشتوں کا شہر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).