باتیں جمعہ خان مری کی اور پاکستان سب کا بغیر کسی مذہبی تفریق کے


 

آج کا یہ مضمون یا کالم مجھے لکھنا نہیں بلکہ بقول احمد سلیم کے بنانا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے احمد سلیم صاحب سے کہا کہ آپ آج کل بڑی کتابیں لکھ رہے ہیں تو وہ اپنی مخصوص لبھا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے،” ڈاکٹر صاحب، میں کتابیں لکھتا نہیں بلکہ بناتا ہوں کیونکہ مجھے کتابیں بنانا آ گیا ہے” یہ تو ان کا مذاق اور انکساری تھی۔ بہر حال کالم بنانے سے پہلے مختصرا” یہ کہ ایسا کیوں؟

آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں ثقافت کو اجاگر کرنے کی پہل جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی، جس دوران، قومی ثقافتی ادارہ، نیفڈیک وغیرہ بنے، بہت سے مقامی فنکاروں کو متعارف کروایا گیا، ثقافتی طائفے ترتیب دیے گئے۔ پھر ایک طالع آزما نابکار ملک پر قابض ہو گیا اور اس نے ثقافت کو اسلام کے نام پر جھوٹے وعدوں کی دیوار کے پیچھے زندہ گاڑ دیا۔ ثقافت بھلانے کی کوشش اب تک جاری تھی۔ چند ہفتے پہلے مجھے روس میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک افسر نے سترہ فروری کی ایک تقریب منں جو پاکستانی عوام کی یکجہتی کے نام پر منائی جانے تھی، پر آنے کی درخواست کرتے ہوئے، تقریب کی ہئیت سے متعلق میرے استفسار پر بتایا کہ یہ ایک طرح سے ثقافتی پروگرام ہوگا۔ خوشی اور حیرت سے آنکھیں کھل گئیں، اپنے چہرے پر مسکراہٹ محسوس ہونے لگی۔ سترہ فروری تک کئی دوستوں سے پوچھا کہ حکومت پاکستان کو یک لخت ثقافت کا خیال کیسے آ گیا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔

تقریب میں پہنچے تو سٹیج سیکرٹری نے ابتدائی کلمات کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کا نام لے کر، پرانے زمانوں کے ایک بلوچ گوریلا کمانڈر میر ہزار خان مری بجارانی کے دانشور بیٹے ڈاکٹر جمعہ خان مری کو جو بقول سٹیج سیکرٹری کے “اب تک ہم سے” ناراض تھے کو دعوت خطاب دی۔ فوراً سمجھ آ گیا کہ حکومت پاکستان کو ثقافت کی یاد کیوں آ گئی، ساتھ ہی روسیوں کا ایک عوامی محاورہ بھی کہ “جب تک مرغ سرین پر چونچ نہ چلائے تب تک ہلا نہیں جاتا”۔ ۔ ۔ خیر تو جمعہ خان مری نے کیا کہا، پہلے اس کو دیکھ لیجیے: “میں نے اپنی ساری زندگی آزاد بلوچستان کےلئے کام کیا۔ اس کے لئے میں نے اپنے قلم کی طاقت کا استمال کیا، پروبلوچ ویب سائٹس بنائیں۔ دنیا بھر میں پاکستان مخالف سیمنارز اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اسی نام نہاد تحریک کی خاطر میں نے 2000 سے ماسکو میں جلاوطنی اختیار کرلی۔ بڑھ چڑھ کر بلوچستان کی آزادی کے لئے سرگرم رہا۔ ایک ایسی تحریک کی خاطر سب کچھ داو پر لگا دیا جس کی بنیاد ہی کھوکھلی تھی۔ بلوچستان نیشنل موومنٹ کا جھنڈا جو آج کل زیر استمال ھے وہ میرا ہی ڈیزائن کردہ ھے-

مجھے بہت افسوس اور حیرت ہوئی، جب حیر بیار مری ، بڑا ہمداغ بگٹی اور مہران بگٹی نے نہ صرف انڈیا کی شہریت لینے کی کھلم کھلا خواہش ظاہر کی بلکہ گاندھی کے مجسمے پر حاضری دی ، اور پھول چڑھائے۔ بات صرف خواہش اور حاضری تک محدود نہ رہی۔ حربیار مری ، براہمداغ بگٹی اور مہران بگٹی، نے بلوچستان میں قتل و غارت اور دہشت گردی کا بازار گرم کرنے میں اپنے غیر ملکی آقا کی مدد کی۔ میری قوم کے بہت سارے معصوم لوگ اس دہشت گردی میں مارے گئے۔ اسی دن میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایک لمحے کےلئے ان کا ساتھ نہیں دوں گا مگر افسوس اور بدقسمتی سے میں اور میرے جیسے کچھ ساتھی اس تحریک اور اس سے وابستہ شخصیات کی وفاداری میں اتنے آگے نکل گئے تھے کہ واپسی کا فیصلہ کرنا بہت ہی کٹھن اور دشوار تھا، جب مجھے آج اس تقریب میں شرکت کی دعوت ملی، تو یہ فیصلہ کیا کہ اب چپ نہیں بیٹھوں گا۔ اب نہ صرف نام نہاد بلوچ لیڈروں کے مکروہ عزائم کو دنیا کے سامنے بےنقاب کروں گا بلکہ بلوچ قوم کوبھی ان کی اصلیت سے آگاہ کروں گا۔ بس بہت ہو چکا، اب ہم ان بیرون ملک مقیم بکاو لیڈروں کا ساتھ نہیں دیں گے۔

میں اللہ تعالی اور آپ سب حاضرین کو گواہ جان کر کچھ اہم اعلانات کرنا چاہتا ہوں، میں جمعہ خان مری اپنے بلوچ دوستوں کے ہمراہ آزاد بلوچستان تحریک سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ قوم کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ آج کے بعد میں اور میری بلوچ قوم کسی ایسی شخصیت کا ساتھ نہیں دے گی جو بلوچ کاز کے نام پر بلوچ قوم کی عزت اور غیرت کا سودا کرے۔ ہم سب حربیار مری ، براہمداغ بگٹی اور مہران بگٹی جیسے نام نہاد لیڈروں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ آزاد بلوچستان کے نام پر غیرملکی ایجینڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ہم ان اور ان کے غیر ملکی آقاوں کا ہر سطح پر مقابلہ کریں گے۔

میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج دنیا بھر میں بہت سے سادہ اور مخلص بلوچ ایسے بھی ہیں جو کہ اس نام نہاد تحریک کی وجہ سے خوار ہو رھے ہیں اور اپنے وطن پاکستان جاکر اپنے خاندان کو ملنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ بہت سے بلوچ ایسے بھی ہیں جو کہ ان لوگوں کے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں. میں آج تمام بلوچ بھائیوں کو ان نام نہاد لیڈروں کی اصلیت سے اگاہ کرنے اور بیرون ملک بلوچ بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک تنظیم کی بنیاد رکھنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس تنظیم کا نام اورسیز پاکستانی بلوچ کمیونٹی ہوگا۔ میں اس تنطیم کے توسط سے تمام پاکستانی اور اورسیز بلوچ بھائیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کروں گا جس کے ذریعے تمام بھٹکے ہوئے بلوچ بھائیوں کو قومی دھارے میں واپس لائیں گے اور انشاءاللہ ان کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ میں خان آف قلات کو بھی اس تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دوں گا، مجھے امید ھے کہ پاکستان ایمبسی ماسکو بھی روس میں مقیم ہم سب بلوچ بھائیوں کے مسائل حل کرنے میں ہماری ہر ممکن مدد کرے گی۔ میں ان قوتوؔں کو بھی انتباہ کرتا ہوں جو آج کل رات کی تاریکی میں چھپ کر جینوا، لندن اور امریکہ میں فری بلوچستان کے بینرز اور پوسٹر لگا رھے ہیں، کہ وہ اس بچگانہ اور فضول حرکت سے باز آجائیں۔ کوئی بھی بلوچ چھپ کر یا ڈر کر اس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا۔ اس کے پیچھے جس ملک کا ہاتھ ھے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ صرف اور صرف ہمارے دشمن ملک انڈیا کی سازش ہے جس میں کچھ نام نہاد بلوچ لیڈر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر انڈیا کا ساتھ دے رہے ہیں ، ہم ان کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور دشمنوں کا کھل کر مقابلہ کریں گے۔

جس اورسیز پاکستانی بلوچ تنظیم کے بنانے کا میں نے آج اعلان کیا ہے اس کا مقصد دنیا کو یہ بھی بتانا ہے کہ بلوچ ایک وفادار، بہادر اور غیور قوم ہے اور پاکستان ہی اس کا ملک ہے۔ ہمارے آپس کے کچھ اختلافات ضرور ہو سکتے ہیں لیکن یہ ہمارے گھر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم بات چیت اور بھائی چارے سے یہ اختلافات حل کریں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت بلوچوں کو نہیں خرید سکتی۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سینٹ پیٹرز برگ ، لیپسک اور دنیا میں میرے بہت سے دوستوں نے اس مشن میں میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے”۔

جمعہ خان مری کے دعوے کتنے سچ ہیں اور ان کے ساتھیوں کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں کچھ بھی مصدقہ طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ وہیں موجود تقریب میں کچھ موثر اور سیاسی طور پر فعال بلوچ دوستوں میں سے کچھ ان کی اس “چک پھیری” یا “ماہیت قلبی” پر حیرت کا اور کچھ تمسخر کا اظہار کرتے پائے گئے۔ تقریب چونکہ “یک جہتی” سے موسوم تھی اس کے لیے بلوچ، پٹھان، پنجابی اور سندھی قومیتوں (قوموں؟) سے دو دو افراد کو دعوت خطاب دی گئی تھی البتہ ہمارے سرائیکی دوست شاہنواز خان قیصرانی کو جو تونسہ کی بستی ٹبی قیصرانی سے ہیں ایک بلوچ بزرگ کے طور پر تقریر کرنے بلایا گیا تو انہوں نے ڈاکٹر جمعہ خان مری، جن سے بقول ان کے ماضی میں بلوچ سوال پر ان کی بحثیں ہوتی رہی تھیں، بقول ان کے انہیں بھی حیران کر دیا۔ یوں بلوچوں کو پہلی بار زیادہ نمائندگی دی گئی۔

اصل میں یہ حیران کر دینے والا انداز ہمیشہ کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے ویسے ہی جیسے حکومت وقت کو ایک خاص وقت پر ثقافت یاد آ جانے سے متعلق سوال تھا۔ علیحدگی پسندی کو کہیں بھی باقی ملک کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہوا کرتی۔ علیحدگی پسند ہمیشہ ہی اپنی جدوجہد کے لیے تحریک آزادی کا نام استعمال کرتے رہے ہیں۔ علیحدگی پسندی اور آزادی خواہی میں اسی طرح بال برابر فرق ہوتا ہے جس طرح منافقت اور مصالحت میں۔ بلوچستان میں حالات اچھے نہیں ہیں۔ بلوچ سیاسی گروہ غیر ممالک میں زیادہ فعال اور ووکل ہو چکے ہیں۔ یعنی مرغ نے سرین پر چونچ کاٹ لی ہے چنانچہ ہلنا پڑا ہے۔ خیر دیر آید درست آید۔  دیگ کی خوشبو آخر میں پاکستان کے سفیر متعین روس جناب قاضی خلیل اللہ کا یہ اعلان تھا کہ ” پاکستان سب کا ملک ہے، اس میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں” یہ اعلان انہوں نے ہمارے سندھی ہندو دوست سریش کمار کی تقریر میں کہی اس خواہش کا جواب میں کیا تھا جس میں سریش نے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے ہندو پاکستان سے ہجرت کر جائیں۔ برے لوگ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن سے ہندو ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں چنانچہ ان برے لوگوں کو سزا دی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).