عاصمہ جہانگیر: بس یادیں رہ جاتی ہیں


پورا جملہ تھا ’بس شاہ جی، یادیں رہ جاتی ہیں ‘۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہی یہ الفاظ روزنامہ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر ظفر عباس کے منہ سے نکلے جو عام حالات میں یار باش مگر غیر جذباتی آدمی ہیں۔

انقلابی ذہن کے لوگ کہیں گے کہ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے باہر یہ مکالمہ اِس لئے ہوا کہ عاصمہ جہانگیر کی نمازِ جنازہ کے لئے مردو زن ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر کچھ ہی دیر میں ایک نئی روایت کو جنم دینے والے تھے۔

شاعرانہ مزاج والے اِس کے پیچھے کوئی خوشگوار زمانی حوالہ بھی تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ جب چار سال کے وقفہ سے ظفر اور مَیں بغل گیر ہوئے تو ’ویلنٹائن ڈے‘ میں محض نو گھنٹے باقی تھے۔ یوں تو دونوں ہی نکتے قابلِ غور ہیں، لیکن میرے بی بی سی کے پرانے ہم کار ظفر عباس کا اشارہ کسی اور طرف تھا۔ یہی قذافی اسٹیڈیم، ہر عمر اور طبقہ کے شرکا، اور عنفوانِ بہار موسم۔ تو ابتدا کرتے ہیں اِسی کہانی سے۔

پہلے یہ وضاحت کہ ’شاہ جی‘ ہم میں سے کسی کا نام نہیں۔ محض قریبی دوستوں کو بُلانے کا ایک انداز ہے، جو پہلے پہل نامور افسانہ نگار مرزا حامد بیگ سے سیکھا تھا۔ اِسے لہجہ کی شاعری سمجھ لیں، بالکل یوں جیسے سندھ میں عزت افزائی کے لئے ایک دوسرے کو ’سائیں‘، خیبر پختون خوا کے نواحی علاقوں میں ’خان جی‘، پوٹھوار میں ’راجہ‘ اور میرے آبائی ضلع میں ’چودھری صاحب‘ کہہ کر بلا لیا جائے تو اِسے کوئی اور علامت نہیں بلکہ میجر، کرنل اور پروفیسر کے نمونہ پر ایک ’رینک‘ خیال کیا جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ کا رشتہ اپنے دوست سے بے تکلفی کا ہو۔ جیسے لندن میں ہمارے سینئر ساتھی سید اطہر علی نے منصور معجز کو ہمیشہ ’ڈاکٹر‘ کہا مگر جب شفیع نقی جامعی نے ایسا کرنا چاہا تو سختی سے ممانعت کر دی۔ اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہوا کہ حاجی ثقلین امام نے اپنے مخاطب کو انہی کے انداز میں پلٹ کر ’حاجی اعجاز رضوی‘ کہہ دیا ہو۔

پر، جناب، رواں صدی کے آغاز کی جو کہانی بیان کرنے کا ارادہ ہے، ظفر عباس یا شاہد ملک تو فقط اُس کے ضمنی کردار ہیں، جو جنوری 2006 ء کی ایک صبح رپورٹنگ کی خاطر قذافی اسٹیڈیم پہنچے۔ وگرنہ خبر کا عنوان تو اُس دن بھی عاصمہ جہانگیر تھیں جن کی مثالی جرات نے پیشہ ور ایتھلیٹوں کے ہمراہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی شرکت کو یقینی بنا کر میراتھان دوڑ کو ایک عوامی جشن میں تبدیل کر دیا۔

میری اگلی بات سُن کر خدا معلوم آپ کون سے کامپلیکس کا لیبل لگانا چاہیں، لیکن میراتھان کی تصویر کو نمازِ جنازہ کے فریم میں سجا کر دیکھوں تو دونوں تقاریب ذاتی طور پر میرے لئے ایک ہی نوعیت کے تجربات تھے۔ ایک سا جو ش و خروش، ایک سی رنگا رنگی اور وہی پر ہجوم ٹریفک جس سے بچنے کے لئے دونوں بار گھر سے اسٹیڈیم تک کی چار کلو میٹر پیدل مسافت میرے لئے کشادہ تر گُل زمینوں کا سفر بن گئی۔

میراتھان میں عاصمہ جہانگیر کا کردار یوں اہم ہے کہ بعض مذہبی جماعتیں دوڑ کو زبر دستی رکوانے کے لئے ایک دن پہلے مار کٹائی کے ذریعہ طاقت کا مظاہرہ کر چکی تھیں۔ ملاحظہ ہو بی بی سی رپورٹ کی ایک جھلک ’’لاہور کا قذافی اسٹیڈیم جہاں میراتھان دوڑ کے لئے تین الگ الگ مقابلوں کا ہتمام کیا گیا تھا۔

خاص توجہ کا ایک مقابلہ خصوصی افراد کی دوڑ تھی، جنہوں نے وہیل چئیرز پر سوار ہو کر میراتھان میں شمولیت اختیار کی۔ مذہبی جماعتوں کی اِس دھمکی کے بعد کہ وہ دوڑ میں خواتین کی شرکت کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے اِس کے خلاف احتجاج کریں گی، منتظمین پانچ کلومیٹر کے مقابلوں کے بارے میں تشویش کا شکار رہے کیونکہ خواتین اور بچوں کی بڑے پیمانے پر شرکت کا امکان اسی دوڑ میں تھا۔ عملاً اِس مقابلے میں خواتین کی شرکت کا تناسب توقع سے کہیں کم رہا۔‘‘

زمانی ترتیب کی رو سے دیکھیں تو یہ عاصمہ جہانگیر کی زندگی کے آخری ابواب ہیں۔ پہلی مرتبہ اخبارات میں اُن کے والد ملک غلام جیلانی کے اسمِ گرامی سے آشنائی 1960ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہوئی تھی جب مَیں نیا نیا ہائی اسکول میں داخل ہوا۔ ’نوائے وقت‘ کے صفحہء اول پر اِس مفہوم کی شہ سرخی یاد پڑتی ہے کہ ملک غلام جیلانی کی کوٹھی کے احاطہ میں صحافی ضمیر قریشی کو گولی مار دی گئی۔ اخبار نے یہ اطلاع بھی دی کہ حملہ کا اصل ہدف مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن میر عبدالباقی بلوچ تھے، جو اِس کارروائی میں زخمی تو ہوئے مگر زندہ بچ گئے۔

تب اِس نوعیت کے واقعات خال خال ہوا کرتے تھے، لہٰذا وقتی طور پہ یوں لگا کہ مذکورہ واردات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میر باقی بلوچ کون ہیں؟ اُن پہ حملہ کیوں ہوا؟ ضمیر قریشی اِس کی زد میں کیسے آ گئے؟ یہ باتیں ہماری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ باتیں اُس وقت سمجھ میں آنے لگیں جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں وہ فیصلہ سنایا جسے وطنِ عزیز کی عدالتی تاریخ میں عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے دائمی شہرت ملنے والی تھی۔

یہ فیصلہ اُن دو پیٹیشنوں کے ضمن میں ہوا جن میں ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی اور الطاف گوہر کی اہلیہ زرینہ گوہر نے اپنے والد اور شوہر کی نظر بندی کو لاہور ہائی کورٹ اور سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں الگ الگ چیلنج کیا تھا۔

چونکہ اُس مرحلہ تک ملکی حالات پر جنرل یحییٰ خان کا فوجی اقتدار سایہ فگن تھا، اِس لئے ہائی کورٹ نے کہا کہ دونوں کے خلاف کارروائی چونکہ مارشل لا کے حکم کے تحت ہوئی، سو عدالت عالیہ یہ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں۔ خیر، سپریم کورٹ نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا اور بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کو سویلین مارشل لا کی بساط بھی لپیٹنا پڑی۔

اِس خیال سے کہ کئی اہم مگر غیر معروف واقعات قوم کے اجتماعی حافظہ کا حصہ بنے رہیں، یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ الطاف گو ہر، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہدِ اقتدار میں سیکرٹری اطلاعات کے طور پر اثر و رسوخ کے مالک رہے، اپنے حراست میں لئے جانے کے وقت روزنامہ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر تھے۔

نئے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکرٹری خالد حسن نے صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ الطاف گوہر کے خلاف اقدام سے پیپلز پارٹی کی حکومت اور پریس کے باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ بھٹو صاحب کا ردعمل مثبت نہیں تھا۔ چنانچہ خالد حسن نے زبانی گفتگو کے بعد ایک تحریری نوٹ صدر کو بھجوایا جس میں یہی دلائل دہرائے۔ اِس پر خالد کے بقول، بھٹو مرحوم نے اپنے اسپیشل اسسٹنٹ رفیع رضا سے کہا کہ خالد حسن زیادہ عرصہ چل نہیں سکے گا، وہ میرے فیصلوں کو چیلنج کرتا ہے۔

رواں صدی شروع ہونے سے پہلے لندن سے لاہور آ جانے پر بی بی سی کے نامہ نگار کی حیثیت سے میری ملاقاتیں اپنے اپنے شعبوں کی جن سرکردہ شخصیات سے رہیں، اُن میں عاصمہ جہانگیر بہت نمایاں ہیں۔ پھر بھی ’شاہ جی‘ ٹائپ کے چند ایک دوستوں کو چھوڑ کر اکثر عدالتی، سیاسی اور انتظامی شخصیات سے میرے رشتہ کی طرح یہ تعلق بھی پیشہ ورانہ نوعیت کا تھا۔

چند موقعوں پر باضابطہ دعوت موصول ہونے کے باوجود اُن کے گھر جانے کا اتفاق بس ایک مرتبہ ہوا، وہ بھی خبر کے سلسلے میں۔ اُن کے مین بلیورڈ والے دفتر میں چائے کئی بار پی ہو گی، کھانا ایک ہی دفعہ کھایا۔ وہ بھی ایک انٹرویو نے طول کھینچ لیا تھا۔ عاصمہ صاحبہ نے اپنے لئے بازار سے قیمہ آلو کی پلیٹ منگوائی اور ساتھ سلاد لانے کے لئے کہا۔ مجھ سے پوچھا تو مَیں نے بھی ’ہاں‘ کر دی اور اُن کی مہمان نوازی کا سادہ قرینہ پسند آیا۔

فوجداری وکلا جیسی جرح کے عادی بعض دوست جاننا چاہیں گے کہ بطور صحافی مجھے مرحومہ تک کتنی رسائی حاصل تھی۔ عرض کروں گا کہ انسانی حقوق کے مسائل ہوں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت ہو یا کسی اہم مقدمہ کی سماعت، ہمارا ہر مرحلہ پہ بارہا ساتھ رہا اور اِس میں نازک مقامات بھی آئے، لیکن خبر کے لئے درکار معلومات حاصل کرنے میں کبھی کوئی باہمی رکاوٹ نہیں ہوئی۔

یہاں تک کہ اپریل 1999ء میں جب اے جی ایچ ایس کے دفتر میں 29 سالہ سمیہ سرور کو غیرت کے نام پہ گولی مار دی گئی تو اِس ہولناک منظر کو دیکھنے والا اولین رپورٹر مَیں ہی تھا۔

البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اُس شام، اُس سے پہلے یا بعد، میری طرف سے نشر ہونے والی کسی خبر کے ضمن میں عاصمہ جہانگیر نے مجھ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کبھی نہ کی۔ وہ زندہ ہوتیں تو مَیں اِس پر اُن کا شکریہ ادا کرتا، مگر کیا کریں، شاہ جی، بس یادیں رہ جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).