سندھ کے بازاروں میں ہونے والی جنسی ہراسانی


ویسے تو پاکستان کے اکثر شہروں میں بازاروں کا حال ایک جیسا ہی ہے، مگر سندھ میں سکھر کا شاہی بازار ہو، حیدر آباد کی ریشم گھٹی، خیرپور کا حیدری بازار یا لاڑکانہ کا ریشم بازار یا کسی اور چھوٹے بڑے شہر کی بازار، سب میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں فیصل آباد کے ایک گارمنٹ اسٹور میں خواتین کے فٹنگ روم مں کیمرہ نصب ہونے کی خبر نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے مگر ہمارے ملک میں جنسی ہراسانی کے واقعات دن دہاڑے پورے ملک اور خاص کر سندھ کی بازاروں میں روزانہ ہوتے ہیں اور ان کی نہ کوئی داد نہ فریاد۔ سندھ کی اکثر بازاروں کی ایک ہی کہانی ہے مگر میں یہاں سکھر شہر کی مثال دیتا ہوں کہ وہاں پر اس طرح کی صورتحال کا میں آنکھوں دیکھا شاہد ہوں۔ سکھر کی بازاروں میں رش کے دوران اوباش افراد خاص کر کے موٹرسائیکل سوارنوجوان لڑکے عورتوں کے جسم کے ساتھ انتہائی نازیبا حرکتیں کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں جس پر بے بس اور مجبورعورتیں صرف خون کے آنسو پی کر رہ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ اگر بازاروں میں رش کو قراردیا جائے تو یہ سراسر نا انصافی ہوگی۔ مجبور کی فریاد کو ان سنا کرنا اور قانون کی بے بسی اس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے۔

سکھر قدرتی حسن سے بھرپورسندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے مگر سندھ کے ہر شہر کی طرح انتظامی طور پربدحال اور برباد ہے اور شہر کے بازار مکمل طور پر قبضہ مافیہ کے قبضے میں ہیں۔ مشرق میں پنجاب کی طرف رحیم یار خان، جنوب میں نواب شاھ اور شمال مغرب میں سبی بلوچستان تک کے عوام سکھر کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس شہر کے بازار کشادہ اور شاندار ہوتے تھے مگر آج کل یہ شہر مکمل طور پر قبضہ مافیا کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ منظر پیش کر رہا ہے۔ بازاروں میں ہر دکاندار نے اضافی قبضہ کیا ہوا ہے۔ دکان اتنی بڑی نہیں ہوتی جتنا سامان دکان کے باہر سڑک پر رکھا جاتا ہے۔ بہت سوں نے تو اپنی دکان کے سامنے ٹھیلے لگوا دیئے ہیں جن سے وہ باقاعدہ کرایہ بھی وصول کرتے ہیں۔ باقی جو جگہ بچی ہوتی ہے وہاں یہ لوگ اپنی موٹر سائیکل دائمی بنیادوں پر پارک کر لیتے ہیں۔ ہر بازار میں ٹھیلے والے، رکشہ والے یہاں تک کہ گدھے گاڑی والے بنا روک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ جس سے پیدل چلنے والے خریدار بازاروں میں پھنس جاتے ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہوتی ہے ایسی صورتحال میں دم گھٹنا، چیخ و پکارعام بات ہے۔ یہ ہی وہ وقت اور موقع ہوتا ہے جب کوئی کسی عورت کی کمر چھوتا ہوا گذرتا ہے، کوئی کہنی مارتا ہوا جاتا ہے، کوئی کسی لڑکی سے سائیڈ لگاتے ہوئے، دانت نکالتے ہوئے پاس سے گزرتا ہے، کوئی جملہ کستا ہوا جاتا ہے اور کوئی اس سے بھی آگے بڑہ کر بے غیرتی کی حدیں کراس کرجاتا ہے اور اپنی انگلی کا استعمال کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ایسی صورت حال سے گزرنے والی لڑکیوں،عورتوں کی روہانسی صورت، شرم سے پیلا پڑتا رنگ اور چہرے پر بے بسی، لاچاری اور مجبوری کو دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کوئی بھی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہوتا، پولیس والے کھڑے بھی ہوتے ہیں اور ان کو یہ منظر نظر بھی آتے ہیں تو وہ بجائے تدارک کرنے کے بنت حوا کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے بسی کا خود بھی مزہ لیتے ہیں۔ اندرون سندھ کے ماحول میں توعورت اپنے خاندان کے کسی مرد کو اپنے ساتھ ہونے والی ایسی حرکت کا بتا بھی نہیں سکتی۔ یہاں پرعورتیں بچاری تو اپنے ساتھ چلنے والے مرد رشتے داروں کو بھی کچھ نہیں بتا سکتیں کہ ان کے نزدیک چلنے والے کسی بے غیرت نے کیا حرکت کی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ شکایت پر کچھ نہیں ہوگا، مردوں کا آپس میں جھگڑا ہوسکتا ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ اس عورت پر ہی بازار جانے اور خریداری کرنے پر پابندی لگنےکا امکان ہوتا ہے۔

یہ ساری صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ خاص کر ہر مہینے کے پہلے دس دن جب لوگوں کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ عید یا دیگر تہواروں پر اور اسکولوں کا نیا نصاب خریدنے کے وقت تو سکھر کے بازاروں میں ایک طوفان بدتمیزی ہو تا ہے، ایک ظلم ہوتا ہے۔ سکھر کا سب سے بڑا شاہی بازار نیم کی چاڑھی سے شروع ہوکر بی سیکشن تھانے سے ہوتا ہوا گھنٹہ گھر پر ختم ہوتا ہے۔ کوئی بھی آکے دیکھ سکتا ہے کہ ان بازاروں میں مظلوم عورت ذات کس اذیت سے گذرتی ہے، جنسی طور پر دن دہاڑے ہراساں ہوتی ہے اور اس کےجذبات مجروح ہوتے ہیں۔

 سکھرکی حد تک تو انتظامیہ کو چاہیئے کہ نیم کی چاڑھی سے لیکر گھنٹہ گھر تک شاہی بازار کو قبضہ گیر دکانداروں سے پاک کروائے، موٹر سائیکل، پر اس بازار میں داخلے پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے بلکہ رش کے ٹائم پر ہر قسم کا پہیہ اس بازار میں داخل ہونے پر پابندی ہونی چاہیئے جس طرح یورپ میں واکنگ اسٹریٹ ہیں جن پر صرف اور صرف پیدل داخلے کی اجازت ہوتی ہے۔

بظاہر یہ شاید ایک چھوٹی سی بات لگے مگر حقیقت میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراسان کرنے کے واقعات ان بازاروں سے زیادہ کہیں نہیں ہوتے۔ جنسی طور پر ہراساں ہونے والی ان ہزاروں عوتوں کی خاموش فریاد اور آنکھوں میں سمایا ہو دکھ اور بے بسی انتہائی درد ناک ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).