بسوں میں سفر کرنے والی عورتیں


کراچی کی تاریخ جاننے والے بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کراچی کی سڑکیں روزانہ رات کو دھلا کرتی تھیں۔ دن میں ان سڑکوں پر ٹرامیں، وکٹوریہ اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ شروع میں سائیکل رکشہ بھی چلتے تھے مگر رکشہ چلانے والوں کی صحت پر مضر اثرات کی وجہ سے انہیں بند کر دیا گیا۔ تب سرکاری بسیں عوام کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتی تھیں پھر ان کے ساتھ پرائیویٹ بسیں بھی چلتی تھیں۔ اس کے بعد سڑکوں پر پیلی ویگنیں دوڑنے لگیں جن کی تیز رفتاری اور حادثوں میں اضافے کی بدولت لوگ انہیں YELLOW DEVILکہتے تھے۔ کوئی حکومت عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم نہیں کر سکی۔ متوسط طبقے نے اس کا حل یہ نکالا کہ بنکوں کی اسکیموں کے تحت یا پھر اپنی بچت سے مہران گاڑیاں خرید لیں لیکن محنت کش طبقہ آج بھی بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر بسوں کے اندر ٹھنس کر یا دروازے پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہے۔

بہرحال اب ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اورنج لائن، گرین لائن، ریڈلائن جیسے منصوبے شروع کئے ہیں جن کے بارے میں سول سوسائٹی کا نقطہ نظر سامنے آتا رہتا ہے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے عارف حسن برسوں سے عوام دوست ٹرانسپورٹ منصوبے پیش کرتے رہے ہیں لیکن ارباب اختیار نے کبھی ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ سرکلر ریلوے آج تک فعال نہیں ہو سکی، بسوں کے ڈپو بنانے اور ان کی دیگر مفید تجاویز پر کبھی عمل نہیں ہو پایا۔ ارباب اختیار کے پاس ان سے ملنے کا وقت نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ورلڈ بینک کے مشیروں نے ریڈ لائن منصوبے کے بارے میں شہری منصوبہ بندی کے ماہر کی حیثیت سے ان سے رابطہ کیا تو بسوں میں سفر کرنے والی خواتین کے مسائل جاننے کے لئے انہوں نے ان کو ہمارے پاس بھیج دیا۔

جب ہم بسوں میں خواتین کے لئے مخصوص محدود نشستوں کا رونا رو رہے تھے تو آسٹریلیا سے آنے والی صنفی امور کی ماہر نے فخریہ کہا ’’ہمارے ہاں تو بسوں میں مرد اور عورت ساتھ بیٹھتے ہیں‘‘ اور ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں تو مرد عورتوں والے حصے کے پیچھے بیٹھ کر پیروں یا ہاتھوں کی انگلیوں سے عورتوں کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عورتیں بس کے انجن پر بنی ہوئی سیٹ پر بھی بیٹھتی ہیں جو کہ بہت گرم ہوتی ہے۔ اسٹاپس پر دیر تک بس کا انتظارکرنا پڑتا ہے اور کبھی تو زنانہ حصے میں بھی مردوں کو بٹھا لیا جاتا ہے۔ مرد حضرات بس سے اترتے وقت عورتوں کے حصے والا دروازہ بھی استعمال کرتے ہیں اور دانستہ خواتین کو چھوتے ہوئے اترتے ہیں۔ اور گھورنا تو خیر وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات بلند آواز میں گھٹیا گانے لگائے رکھتے ہیں۔

بین ا لاقوامی ادارہ محنت بھی ایک عرصہ سے عورتوں کے لئے محفوظ ٹرانسپورٹ کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے کیونکہ بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ محفوظ ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا بھی ہے۔ کراچی میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو ملازماؤں کی حیثیت سے کام کر کے اپنے شوہروں کا مالی بوجھ ہلکا کرتی ہیں لیکن جنسی ہراسانی اور ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے وہ نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صنعتی مزدوروں، ہوم بیسڈ ورکرز کی طرح ڈومیسٹک ورکرز کے لئے بھی پالیسی اور قانون بننے کی اشد ضرورت ہے۔ کاریم، اوبر اور پیکسی جیسی ٹیکسی سروسز سے متوسط طبقے کی خواتین کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن غریب محنت کش خواتین اور طالبات کے لئے سستی بسیں چلانا ضروری ہے۔ گھنٹوں بس کا انتظار کرنے اور پھر راستا بھر کھڑے ہو کر سفر کرنے سے عورتوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ کمر درد اور دیگر عوارض کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ان سب مسائل کو حل کرنا ضروری ہے لیکن ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل ایسا نہ ہو کہ اس سے ماحولیاتی آلودگی اور حرارت میں اضافہ ہو۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ ماہرین FOSSIL FUELیعنی کوئلہ اور تیل وغیرہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور شمسی توانائی اور RENEWABLE ENERGYکے استعمال کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں۔ ایک ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم وقت کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).