محترم فرنود عالم اور انتہاؤں کا تقابل؟


(محترم بخت محمد برشوری “ہم سب” کے قدیمی کرم فرما ہیں۔ گزشتہ دنوں “ہم سب” پر برشوری صاحب کی ایک تحریر “نفرتوں کی امین قوم” کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ برشوری صاحب کا خیال ہے کہ ہم سب کے ساتھی محترم فرنود عالم نے ایک فیس بک پوسٹ میں اس تحریر کا جواب دیا ہے۔ اگرچہ “ہم سب” فیس بک پر شائع ہونے والی کسی تحریر پر ردعمل شائع کرنے کا مکلف نہیں تاہم مثبت مکالمے کی روایت کے احترام میں بخت محمد برشوری صاحب کی تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ مدیر)

٭٭٭٭      ٭٭٭٭

انتہا پسندی کا بھی تقابل کیا جاتا ہے؟ ایسا بھی ایک پیمانہ موجود ہے جو انسانوں کے نفرتوں اور منفی رویوں کی پیمائش کرتا ہےاور اس کے حساب سے درجہ بندی بھی کرتا ہے؟ ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ مذمت بھی اپنے پرائے کی پہچان کر کے کی جاتی ہے اور باندازہ و بایست کی جاتی ہے؟ بالفاظ دیگر اصلاح کے لیے نشاندہی بھی اپنے پرائے کی بنیاد پر کی جاتی ہے؟ پہلی بار دیکھا ہے اور اچھا ہوا کہ دیکھ لیا۔

کہا گیا :”دو طرفہ شدت پسندی ایک حقیقت ہے مگر مذہبی شدت پسندوں کا لبرل شدت پسندوں سے تقابل کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی۔ بلکہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ والے معتدل مذہبی بیانیے کا بھی لبرل شدت پسندی سے کوئی تقابل نہیں بنتا “۔

 لبرل سے اگر میرے دوست کی مراد قبلہ وجاہت مسعود صاحب کی اقتداء میں صف آراء اپنے”ہم سب” کا قلم قبیلہ ہے تو ان سے اس بات کی توقع ہی غلط ہے کہ وہ مشال کیس میں بریت پر ملزمان کو دھمکائیں یا ججز کو قتل کی دھمکیاں دے کر ملک بدر ہونے پر مجبور کریں۔ یہ دانشوروں کا وہ طبقہ ہے جس کے پیش نظر ہمیشہ فکری میدان رہا ہے، ہتھیار اٹھانے اور جان لینے کی بات ان کی زبان پر کیا آنی، یہ سب میرے وہ دوست ہیں جو علم وادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ ان سے تقابل دیکھنا مقصود ہو تو بقول آپ کے “روایت پسند طبقے “کا ردعمل بھی دیکھ لیجیے مشال کے قتل پر۔ ہم اہل قلم تو نہیں، آپ ہی کے مستعار الفاظ میں گھسیٹا کار ہیں دیگر کالمسٹ دوستوں کی تحریریں ریکارڈ پر موجود ہیں۔

اس دنیا میں شدت کا نظارہ کرنا ہو تو وہ کمنٹ اور جملے دیکھ لیجیے جو ہماری گزشتہ تحریروں پر موجود ہیں۔ اور جوں کے توں موجود ہیں۔ شناخت چھپا کر دل کھول کر جن شدید گالیوں سے نوازا گیا ہے اور بے جا نوازا گیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں۔

آنجناب نے مذہبی طبقے میں سے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کےمردان مقامی رہنماوں اور ان کے تقریروں کی بات کی ہے۔ اگر سیاسی تنظیموں کی بات ہے تو پھر ہم بھی لبرل سیاسی جماعتوں کو بھی زیر بحث نہ لے آئیں؟ شدت پسندی اور انتہا پسندی ایسے الفاظ تو تب ہی بہتر سمجھ آتے ہیں جب ہم ان کے کردار کا آئینہ دکھائیں گے۔ سرفہرست جن میں سے اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم ہے۔ قتل، دھمکی، ہتھیار، تشدد کیا ہوتا ہے؟ کراچی والوں سے پوچھ لیں جو ان تینوں جماعتوں کا دور بھگت چکے ہیں۔ ٹارچر، نجی جیلیں، اغوا، مثلہ لاشیں، بھتہ، ٹارگٹ کلنگ یہ سب کراچی کو ان تینوں گروہوں نے نہیں تو کس نے دیے تھے؟ عیاں را چہ بیاں! اب ان لبرل تنظیموں کی کارستانیاں بھی بیان کرنی پڑیں گی ہمیں؟

کراچی کے کسی ایک شہری کو سر راہ پکڑ کر پوچھیے اور دو ہزار نو سے آگے کے چند برسوں کی روداد سنیے۔ چلیں رہنے دیجیے کسی سے نہیں، آپ ہی اپنے الفاظ میں نرم سے نرم لہجے میں ان تینوں لبرل تنظیموں کی روداد بیان کیجیے ۔ سہراب گوٹھ فلائی اوور سے ایدھی سینٹر کی جانب اترتے موٹر سائیکل سوار کو جب گولی لگی تو وہ اپنی موٹر سائیکل سمیت پھسلتا ہوا میرے قدموں میں آ گرا۔ مجھے یاد ہے جب اس کی لاش اٹھانے کے لیے ہم نے ہاتھ بڑھایا تو باچاخان کا وہ مسلح پیروکار مجھ سے کہہ رہاتھا “مولوی آگے بڑھو نہیں تو تمھیں یہیں پھڑکا دوں گا”۔ حالانکہ میں بھی پشتون ہی تھا۔ باہر حالات خراب تھے۔ اس لیے وہ رات بہت دیر تک میں نے اپنے ایک اردو سپیکنگ دوست کے گھر میں پناہ لے کر گزاری۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ فلائی اوور کے ٹاپ پر چند پشتون مظاہرین پر” حق پرستوں ” نے سامنے پلازے کی چھت پر سے فائرنگ کردی تھی۔ اس کے بعد ایدھی سینٹر کے سامنے کے علاقے میں بہت دیر تک لاشیں گرتی رہیں، پھر سناٹے کا راج رہا، شیطانیت کا طوفانی رقص برپا رہا۔ کیا کیا روداد سناوں۔ حق پرستی، باچاخانی اور امن لشکر کے نام پر کراچی پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے۔ یہ ایک تاریخ بن چکی ہے۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں لبرل تنظیمیں کیا کیا گل کھلاتی رہی ہیں۔ اس کی روداد بہت تفصیل کی متقاضی ہے۔ ہاسٹلوں کو جب ٹارچر سیلوں میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ پر چیخیں اور سسکیاں ریکارڈ کر کے مخالفین کو بھیجی جاتیں۔ اسلحہ کے زور پر ہاسٹلوں پر قبضے،مخالفین رہنماوں پر بم حملے، چرس، ہیروئن اور اسلحے کے اسمگلر اور قاتلوں کے گینگ جس پارٹی کی پہچان رہی، یہ لبرل تنظیم ہی تھی۔

جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے علاقائی رہنماوں کی تقریروں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ میں نے نہیں دیکھی یا سنیں، آپ ہی کے کہے پر یقین کرتا ہوں۔ سیاسی لیڈروں کی تقریریں آپ کو دھمکیاں اور شدت پسندی کی انتہا نظر آتی ہے مگر لبرل تنظیموں کی کارستانیاں آپ کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، فیا للعجب۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے سر ایک قتل، ایک دھمکی یا ایک فراڈ کا کیس کہیں سے ڈھونڈ کر دکھا دیجیے اور آ کر سزا مجھے دے دیجیے۔ لاہور میں جماعت کی طلبہ تنظیم جمعیت کے تشدد، دھمکیوں اور رعب ودہشت کا مجھے علم ہے مگر قتل کا کوئی الزام ان کے سر بھی نہیں۔ کراچی میں جمعیت کے جتنے کارکنوں پر تشدد ہوا ہے جتنے ان کے کارکن اور رہنما شہید ہوئے ہیں ان کے لاہور کا تشدد اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جے یو آئی کی طلبہ تنظیم “جے ٹی آئی”، کراچی کے ہر مدرسے میں ان کا یونٹ موجود ہے۔ کسی مذہبی طلبہ تنظیم (غالباً اسلامی جمعیت طلبہ) نے جے ٹی آئی کی قیادت کو پیش کش کی کہ ہم سے اتحاد کرلیں۔ کراچی کے تعلیمی اداروں سے لبرل جماعتوں کی قوت توڑ نے کے لیے ہم سے تعاون کریں ہم آپ کا “للہ الامر” کا پرچم ہر یونیورسٹی پر لہرا دیں گے۔ جے ٹی آئی کے لیڈر نے معذرت کرتے ہوئے کہا ہمارا شروع سے طریقہ جمہوری سیاست کا رہا ہے۔ ہم نے کبھی ڈنڈے کی سیاست نہیں کی۔ نہ ہم اس کے قائل ہیں نہ ہمارے مدارس کا تعلیمی نظام اس کی اجازت دیتا ہے۔

تشدد میں تقابل کرنا ہے تو پھر سیاسی تنظیموں کا قلم برداروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سے نہیں، سیاسی تنظیموں سے ہی کریں۔ فرق جو ہے وہ صاف نظر آجائے گا۔ انتہا پسندی کیا ہوتی ہے؟ یہ بھی واضح ہوجائے گا۔ لاش کس طرح گرائی جاتی ہے؟ خون کس طرح بہایا جاتا ہے؟ لاش کے ایک عضو کے چھ حصے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ یہ تو سیاسی لبر ل سے کوئی پوچھے۔ جے یو آئی اور جماعت کیا بتائے گی آپ کو، جن پر کبھی جھوٹا مقدمہ بھی نہیں بنا۔

بات کسی کے کردار کی نہیں۔ کوئی تنظیم کیا کرتی ہے؟ مردان میں کیا کرتی ہے اور کراچی میں کیا کرتی ہے؟ مجھے تو سردست اس پر بحث کرنی ہی نہیں تھی۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ مذمت بھی اپنے پرائے کی پہچان کر کے کی جاتی ہے اور باندازہ و بایست کی جاتی ہے۔ پہلی بار دیکھا ہے اور اچھا ہوا کہ دیکھ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).