ہم تو بھائی سچ بولیں گے


ہم تو بھائی ہمیشہ سچ بولیں گے، کسی کو برا لگتا ہے تو لگے۔ یہ والے کیریکٹر آپ کے آس پاس اتنے زیادہ ہوں گے کہ حد نہ حساب۔ بندہ سوچنے پہ مجبور ہو جائے گا کہ یار پھر جھوٹ کون لوگ بولتے ہیں؟ یہ لوگ اپنی عظمت کا چلتا پھرتا بلند مینار خود تعمیر کرتے ہیں، خود ہی اس کے اوپر چڑھتے ہیں اور پھر بیسویں منزل سے روزانہ کسی ایک مظلوم کو دھکا دے دیتے ہیں۔ یہ قربانی اس مینار کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں گھر، دفتر، کالج، سکول ہر جگہ دوڑتی پھرتی ہیں۔

سکول کا ماحول عام طور پہ دبا دبا ہوا ہوتا ہے، اگر ایک شرارت کرنے والا جلدی نہ پکڑا جائے تو پوری کلاس کی شامت آ جاتی ہے۔ شرارت یا غلط کام کسی بھی عمر میں کیا جائے وہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے، اسے کر لینا اتنا غلط نہیں ہوتا جتنا دوسروں کے آگے اس کا بھانڈا پھوڑنا، تو ٹیم ورک کا یہ چھوٹا سا ان کہا قانون فطرت خود بچے کے دماغ میں ڈال دیتی ہے۔ اب فرض کیجیے کہ کلاس میں سامنے بلیک یا وائٹ بورڈ پہ کسی بچے نے کوئی مزاحیہ سا کارٹون بنا دیا ہے۔ اس کارٹون کی آڑ میں سکول کے ہی کسی بندے پہ طنز کیا گیا ہے، تو ایک ٹیچر کا آئیڈیل ری ایکشن کیا ہو گا؟

کلاس میں آتے ہی سوال کیا جائے گا ”یہ حرکت کس نے کی ہے؟‘‘ کوئی نہیں بتائے گا، پھر گھر پہ شکایتی خط بھیجنے کی دھمکی دی جائے گی، کوئی نہیں بتائے گا، پھر سیٹوں سے کھڑے ہونے کی سزا دی جائے گی، کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ جل بھن کے ٹیچر جس وقت کلاس ختم کریں گے، پانی پینے کے بہانے ایک بچہ کلاس سے باہر جائے گا اور پپو، گڈو، بلو کسی کا بھی نام لگا دے گا۔

وہ بچہ اصل فنکار آدمی ہے۔ اس نے بڑے ہو کے بھی یہی کرنا ہے۔ اس وقت استاد نے شکایت سن کے اسے تھپکی دی، اسے سمجھایا کہ تمہارا نام نہیں بتائیں گے کسی کو، تفصیل سے بتاؤ واقعہ کب ہوا اور کون کون بچہ یہ شرارت کر رہا تھا۔ سب رپورٹ دے کے وہ جوان کلاس روم میں آ کے بیٹھ جائے گا اور ایسے نارمل رویہ رکھے گا جیسے اسے کچھ نہیں پتہ۔ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے جب وہی کارٹون بنانے والا الزام یافتہ بچہ پرنسپل آفس طلب کیا جائے گا‘ اس وقت پوری کلاس کو اندازہ ہو جائے گا کہ لو بھئی واردات ہو گئی ہے۔ اگلے دن غدار ڈھونڈا جائے گا۔

بچوں کی چھٹی حس پولیس سے زیادہ تیز ہوتی ہے، وہ حساب لگا لیتے ہیں کہ ہم میں سے پھٹو کون ہے۔ شکایت لگانے والا پکڑا گیا۔ اب اس سے پوچھا جائے گا کہ ہاں بھئی تم نے کیوں ایسے شکایت لگائی تو پیٹنٹ جواب یہی آئے گا، ”ہم تو بھائی سچ بولتے ہیں ہمیشہ، ٹیچر نے پوچھا تھا، بتا دیا، اب کسی کو برا لگے تو لگے۔‘‘ کوئی پوچھے کہ ابے تمہارا نام لے کے، تمہیں الگ سے بلا کے پوچھا تھا کہ ہاں بھئی الف جیم تم بتاؤ؟ انہوں نے ان جنرل پوچھا تھا، کسی نے جواب نہیں دیا، تم نے بھی نہیں دیا، بعد میں کارروائی ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟

نفسیاتی سطح پہ دیکھا جائے تو یہ لوگ اندر سے حد درجہ تلخ ہوتے ہیں۔ انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ غیر اہم ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے، وہ عام آدمیوں کی بھیڑ میں گم ہیں۔ تو اس ہجوم سے الگ ہونے کے لیے وہ سچائی کا جھنڈا بلند کرنے کی سوچتے ہیں، ہوتا بس یہ ہے کہ بلندی عمودی کے بجائے افقی رخ پہ ہونا شروع ہو جاتی ہے جو ہر کسی کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ اس ورائٹی کا تھوڑا سا موڈیفائڈ ورژن ہمیں دفتروں میں نظر آتا ہے۔ سرکاری یا غیر سرکاری کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، ایک دو کریکٹر ایسے ہوں گے جو صرف کام روکنے کے لیے بیٹھے ہوں گے۔ ”بھائی ساری عمر نہ ہم نے کبھی غلط کام کیا ہے، نہ کسی دوسرے کو کرنے دیں گے۔‘‘

یہ دعویٰ اپنی اصل میں احساس محرومی کا ایک عمدہ نمونہ ہوتا ہے۔ وہ بے چارے غلط کام اس لیے نہیں کر پاتے کہ ساری عمر انہیں کوئی ایسا عہدہ ملا نہیں ہوتا اور جب قسمت سے مل جاتا ہے تو عموماً ریٹائرمنٹ قریب ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے نیڑے تیڑے تو ویسے پرائیویٹ کمپنی کے ملازم بھی کوئی رسک نہیں لیتے کہ جاتے جاتے کہیں گریجویٹی یا پینشن میں کھنڈت نہ پڑ جائے۔ اچھا ایک بڑی باریک سی آبزرویشن ہے، کبھی موقع ملے تو دیکھیے گا کہ جب کوئی بندہ ایسی بات کر رہا ہوتا ہے تو یا اس کا ہاتھ اپنی داڑھی پہ ہو گا یا پھر وہ دونوں ہتھیلیاں سامنے کرکے یہ دعویٰ کرے گا کہ اس نے کبھی غلط کام نہیں کیا۔ یہ باڈی لینگوئج بنیادی طور پہ وہ جھوٹی قسم ہے جو دعویٰ کرنے والا نہیں کھا سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ غلط کام نہ کرنے والا، جھوٹ نہ بولنے والا، جینوئن بلند کردار آدمی کبھی اپنے منہ سے اپنی عظمت بیان نہیں کرتا، وہ الگ پہچانا جاتا ہے۔ اس کے کام گواہی دیتے ہیں، اس کی پیٹھ پیچھے سجن بیلی سب اس کی تعریف کرتے ہیں۔

گھروں میں یہ کردار سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنے اپنے دماغ میں ایسا بندہ سوچیں اور حساب لگا لیں وہ بے چارہ ساری عمر بہت مشکل میں رہا ہو گا۔ یا تو بچپن محرومی میں گزرا ہو گا یا جوانی میں کوئی ایسی آفت آئی ہو گی یا بڑھاپا سیاپا بن کے نازل ہوا ہو گا۔ رشتے بال سے بھی باریک اور شیشے سے نازک چیز ہوتے ہیں۔ منہ سے نکلا ہوا ایک غلط لفظ ساری زندگی کے کیے دھرے پہ پانی پھیر دیتا ہے۔ یہ لوگ جتنے محبتی ہوں گے، جتنے مدد کرنے والے، خیال رکھنے والے ہوں گے، اس سب پیار کا‘ الفت کا دو لفظ بول کے بیڑہ غرق کر دیں گے۔ ایسے کیسز شادی‘ غمی پہ زیادہ ایکٹیو نظر آئیں گے۔ جہاں چار لوگ جمع ہوں گے وہاں کوئی نہ کوئی ایسا فتنہ ضرور اٹھائیں گے‘ جس کی تپش اگلے ایونٹ تک متاثر کنندہ کی طبیعت صاف رکھے گی۔ جب پوچھا جائے گا یا گلہ کیا جائے گا تو وہی سو باتوں کی ایک بات ہو گی، ہم تو بھئی سچ بولتے ہیں۔

اے سچ بولنے والو اور بے ایمانی سے دور بھاگنے والو، یاد کرو وہ دن جب کسی عزیز دوست کا فون آیا تھا کہ میں گھنٹے بعد گھر آ رہا ہوں، دوپہر کے ایک بج رہے تھے، کھانے کا ٹائم تھا، تم نے حساب لگا کے ٹال دیا تھا کہ ”بھائی، تیری بھابھی کے ساتھ جانا ہے‘‘۔ یا وہ دن سوچو جب باس نے پوچھا تھا کہ چھٹی کیوں کی اور تم نے رقّت آمیز شکل بنائے کسی بزرگ کا قل کروایا تھا۔ یا پھر جب کیبل والا دروازے پہ آیا تھا اور دو سو روپلی دیتے ہوئے تمہاری جان جاتی تھی اور تم نے کہا تھا کہ یار، ابھی اے ٹی ایم سے پیسے نہیں نکالے۔

سب چھوڑو یار ابھی کل پرسوں کا سین یاد کر لو جب سڑک پہ فقیر مانگنے آیا تھا اور تم نے کہہ دیا تھا کہ ”معاف کرو بابا، کھلے نئیں ہیں‘‘۔ یہ بھی یاد نہیں؟ اوکے، کیا بیوی (یا شوہر) سے بھی ہمیشہ سچ بولا ہے؟ ہر سوال کے جواب میں؟ ایسا نہیں ہوتا بھائی، سلیکٹیو سچ اور من چاہا جھوٹ دنیا میں ہر طرف موجود ہے۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ اگر تھوڑا سا جھوٹ کسی کا دل رکھ سکتا ہے، کسی کی بڑی مصیبت ٹال سکتا ہے، تو اسے بولنے میں کیا حرج ہے؟ اگر تھوڑی سا آؤٹ آف دا وے کام کسی کو زحمت سے بچا سکتا ہے تو اس ”غلط‘‘ کام کو پہلی فرصت میں کر دینا کیا بری بات ہو گی؟

ایسی بہت سی ورائٹی ہمیں سیاست میں، انتظامی اداروں میں، پیران شہر میں، تجزیہ کاروں میں، لکھنے والوں میں، شاعروں میں، مطلب ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ان کا حل انہیں اگنور کرنا ہے یا بائے پاس کرنا ہے۔ سامنے سر جھکا کے بیٹھے رہیں گے تو کام کبھی نہیں ہونے والا، سائیڈ سے ہو کے کھسک جائیں، اک در بند تے سو در کھلے، مولا کرم کرے گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain