آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے…


\"ramish-fatima\" ریڈیو پہ اچانک نازیہ حسن کا یہ گانا چلا تو اس نے وہ چٹھیاں، چھلا اور ٹوٹی چوڑیاں اٹھا کر صندوق میں سنبھالیں اور آنکھوں میں آنسو صاف کرنے لگی۔ آج یہ بات طے ہو چکی تھی کہ اپنے محبوب کی یادوں کو الوداع کہنا تھا اور روایت نبھانی تھی، جس کے سنگ جینے کی خواہش تھی وہ پوری نہیں ہو سکتی تھی، پچھلے ایک ماہ میں جب سے شادی طے ہوئی تھی اس نے ہزار بار سوچا تھا کہیں ایسی جگہ چلی جائے جہاں کوئی اس تک نہ پہنچ سکے، وہ اپنے خواب جینا چاہتی تھی، چھوٹے چھوٹے سے خواب تھے اس کے، صبح آنکھ کھلے تو محبوب کے چہرے پہ نظر پڑے، رات ہو تو محبوب کی بانہیں میسر ہوں، زندگی گزرے تو اسی کے سنگ گزرے۔ اس کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھوئے، اس کے لیے کھانا بنائے۔ خوابوں کا ایک گھروندا جو ہر لڑکی سجاتی ہے اس نے بھی سجا لیا۔ پھر ایک روز اسے احساس ہوا کہ رسم و رواج اس کے خوابوں سے زیادہ اہم ہیں اس روز اس کا جی چاہا کہ وہ مر جائے مگر موت اس کے سامنے کھڑی مسکراتی رہی۔

لاکھ چاہا اس نے کہیں دور چلے جانے کا مگر نہیں جا سکی، وہ جانتی تھی اس کے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے، اپنی نہیں لیکن اپنے محبوب کی زندگی کی پروا تھی کہ اگر وہ یوں بن بتائے چلی گئی تو اس کے باپ بھائیوں کو ان دونوں کی جان لینے سے روئے زمین کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ ۔

ایک آخری بار اس نے خود کو آئینے میں دیکھا، دلہن بنے یہ وجود اسے زندہ لاش جیسا لگا، اس ایک روپ کی خاطر کتنے ارمان سجائے تھے ان آنکھوں نے جو سب بکھر گئے، زندگی اس کی ہے جو وہ اپنی مرضی سے گزار نہیں سکتی، جسم اس کا ہے مگر عزت کا تصور کسی مرد کے نام کے ساتھ جڑا ہے۔ اپنا ہی جسم اپنی مرضی سے کسی کو سونپنا بدکاری ہے اور کسی اور کی مرضی سے سونپنا جائز ہے، ایسا کیوں ہے ؟ ہاتھوں میں ڈلے پھولوں کے گجرے سے پھول نوچتے ہوئے ریڈیو کی آواز بلند کی تو یہ بول سنائی پڑے

پھلاں دے رنگ کالے سرخ گلاباں دے موسم وچ پھلاں دے رنگ کالے عمراں لنگیاں۔ ۔ ۔

پلو سے بندھی محبوب کی یادیں، آخری ملاقات کے آنسو، کندھوں پہ باپ بھائی کی عزت کا بوجھ اور سینے پہ دھرا ہجر کا روگ۔ پھر بھی اس نے یہ آگ کا دریا پار کیا اور چلی آئی اس شخص کے سنگ جسے اس کے سر کا سائیں بنایا گیا تھا۔ بند کمرے میں بیٹھے وہ رات اسے کاٹ رہی تھی، اس رات پہ صرف اس کے محبوب کا حق تھا، کتنے ہی خواب سجائے تھے اس رات سے متعلق جو بکھر گئے۔ کسی اور کو اپنے اتنے قریب برداشت کرنے کا حوصلہ وہ کہاں سے لاتی؟

اس کا شوہر ان سب باتوں سے بےنیاز تھا۔ اپنی خدائی کے نشے میں مخمور اس نے اس عورت کو تسخیر کرنے کا سوچا۔ ان لمحوں میں آج پھر ایک بار اس لڑکی نے اپنے جسم کو روح کی قید سے آزاد ہوتے دیکھا تھا، آج وہ شخص اس کی روح کو چھو نہیں سکا تھا اور چھوتا بھی کیسے؟یہ حق تو بس اس کے محبوب کا تھا جو ہاتھ بھی تھامتا تو لگتا جیسے سارا وجود سمٹ کر اس بند مٹھی میں قید ہو گیا ہو۔

اس کے شوہر کو احساس ہوا کہ وہ لڑکی درد سے کراہ نہیں رہی، کوئی آنسو نہیں، کوئی آہیں نہیں، اس نے لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ دور کہیں خلا میں مرکوز تھیں، بالکل بےجان، احساسات سے عاری چہرہ۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ وہ صرف جسمانی طور پہ یہاں موجود ہے لیکن اصل میں کہیں اور ہے، اپنی اس توہین پہ وہ غصے پر قابو نہیں رکھ سکا۔ وہ چاہتا تو اسے چھوڑ سکتا تھا، وہ چاہتا تو زندگی بھر اسے طعنے مار مار کے جی جلا سکتا تھا، لیکن اس لمحے اپنی توہین کا احساس اس پہ غالب تھا۔ اپنی مردانگی کی یہ توہین وہ برداشت نہیں کر سکا اور اس لڑکی کو کٹہرے میں کھڑا کیئے سوال پہ سوال کرنے لگا۔ ۔ اس لڑکی نے نظریں اٹھائیں اور سوچا ان مردوں کی عزت کے پیچھے پہلے خوابوں کا قتل ہوا اور آج ؟ آج شاید ایک اور مرد کی عزت اسے ہی قتل کرنا چاتی تھی۔ ۔ اس نے خامشی کو ترجیح دی اور موت کی جانب دیکھا، آج موت اپنی آنکھوں میں آنسو سجائے کرب ناک مسکراہٹ کے ساتھ اس کو اپنی بانہوں میں بھرنا چاہتی تھی کہ ابھی اس رات میں اس نے اس لڑکی کو مرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، جس لمحے اس لڑکی کا موت سے ملن ہوا باہر ریڈیو پہ عابدہ پروین کی آواز بلند ہوئی ارے لوگو تمہارا کیا میں جانوں میرا خدا جانے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments