عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ اور عورتیں


آج سے کوئی اسی سال قبل جب وہ پیدا ہوئی تو گھر میں وہ لگاتار تیسری لڑکی کی آمد تھی، جب کہ لڑکا کوئی بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے اس موقع پر ہر طرف سوگ کا سماں تھا۔ گھر کی عورتیں دھاڑیں مار کے روئیں۔ گاؤں کے لوگ افسوس کا اظہار کرنے اور غم میں شریک ہونے کی خاطر ان کے گھر قطار اندر قطار آئے۔ غم بھلانے میں مدد کے علاوہ کچھ ہو نہیں سکتا تھا، لڑکی تو بہرحال اس دنیا میں تشریف لا چکی تھی۔ لڑکی کی پیدائش کا معاملہ بھی موت جتنا ہی اٹل نکلا۔ لڑکی جوں جوں بڑی ہوتی گئی اسے یہ علم ہو گیا کہ لڑکیوں کی پیدائش پر کیا سماں ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اس کی آمد کا کیسا استقبال ہوا ہو گا۔ کئی دفعہ اس پر بات بھی ہوئی کہ اس کی پیدائش پر کس طرح کا کیا ردعمل تھا۔ لیکن لڑکی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کبھی شکایت کی نہ کبھی کسی کو شکایت کو موقع دیا۔ کام کاج ہی اس کے بس میں تھا اور وہ اتنا کیا کہ بس رہے نام خدا کا۔ گھر، کھیت، چراگاہیں اور جنگل سبھی روند ڈالے۔ چولہے چوکے سے لے کر کھیتی باڑی تک ہر کام باقاعدگی سے کیا، پہلے اپنے باپ کے ساتھ مل کر، جب تک وہ زندہ رہا، اور پھر اپنے نانا کے ساتھ مل کر، جو عمر میں باپ سے تھوڑے کم ہی تھے۔

ستو صرف ایک بات سے ناواقف تھی اور وہ یہ کہ اس کے کام کا کوئی معاوضہ بھی ہے۔ یہ اجنبیت مادی معاوضے کے ساتھ ساتھ پیار کے ایک بول یا شکریے کی ایک مسکراہٹ سے بھی اتنی ہی تھی۔
دلیر تھی، بے دھڑک اور شرارتی تھی اور ساری زندگی ایسی ہی رہی۔ گفتگو میں مٹھاس تھی اور سبھی کا دل موہ لیتی تھی۔ چھوٹے بڑے سبھی کی ہمدرد اور مددگار تھی۔

گاؤں میں دو مواقع ایسے ہوتے ہیں جب گاؤں کے لوگ خاص طور پر عورتیں بہت تکلیف میں ہوتے ہیں اور انہیں مدد کی اشد ضرورت ہو تی ہے۔ ایک جب عورت زچگی کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے اور دوسرا جب گھر میں کوئی بڑھاپے یا شدید بیماری کی وجہ سے بستر مرگ پر ہوتا ہے۔ ستو ان دونوں مواقع کی ماہر ہو گئی۔ ایسے موقع پر ستو اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر بستر مرگ پر پڑے شخص اور اس کی نرسنگ پر مامور عورتوں کا سہارا بن جاتی۔ اسی طرح زچگی کے درد سے چیختی چلاتی عورت کی دائی اور سہارا بن جاتی۔ ستو ان دونوں کاموں کے لیے پچھلے پچاس سال سے آن کال ہے۔ کبھی رات دن نہیں دیکھا۔ کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کام کے لیے دوست اور دشمن میں کبھی فرق نہیں کیا۔ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس سارے کام کا معاوضہ لوگ دعاؤں اور پیار کی صورت میں ادا کرتے ہیں اور وہ یہ سب خوشی سے قبول کرتی ہے۔

ٹین ایج میں اس کی شادی اپنے جیسے ہی ایک غریب، مخلص، محنتی، سادہ لوح اور اچھے آدمی سے ہو گئی۔ وہ بھی ستو کے ساتھ مل کر محنت کرتا رہا۔ خدا نے انہیں کوئی درجن بھر بچے دیے اور اس میں سے ایک تہائی ساتھ ہی واپس لے لیے۔ دونوں نے مل کر باقیوں کی اپنے تئیں بھرپور پرورش کی۔ کھلایا پلایا، بڑا کیا، جو پڑھ سکتا تھا پڑھایا اور سبھی کی شادیاں کر کیں۔ گاؤں کے والدین کی اتنی ہی ذمہداری ہوتی ہے۔

ستو کبھی بیمار نہیں پڑی۔ کوئی ساٹھ سال کی عمر تک تو اس نے شیر والی گولی (اسپرو کی گولی جو گاؤں کی دکان سے ملتی تھی) سے زیادہ کبھی کوئی دوائی نہیں کھائی تھی۔ خوش اور تیار، ہمہ وقت جدوجہد جاری ہے۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک بیمار ہو گئی۔ دل کا دورہ پڑنے کی نشانیاں تھیں۔ اسے لگا کہ وہ مرنے لگی ہے۔ وہ فکر مند ہو گئی اور رونے لگی۔ ستو نماز کی پابند نہیں تھی۔ اسے لگا کہ وہ اگلے امتحان کے لیے تیار نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے لاکھ سمجھایا کہ تمھاری ساری زندگی کی محنت، دوسروں کی بے لوث خدمت اور حلال روزی کمانے کی تگ و دو بھی عبادت ہی تھی، لیکن ستو کی فکر ختم نہ ہوئی۔ کہتی رہی کہ اگلے جہاں کے امتحان کے لیے میری تیاری اچھی نہیں ہے۔ میرا تھیلا خالی ہے۔

خوش قسمتی سے یہ دل کا دورہ نہیں تھا۔ ستو کی جان بچ گئی لیکن اب ستو اپنے اگلے جہان کے امتحان کے لیے اپنا تھیلا بھرنے کی فکر کرنے لگی۔ نماز پڑھنا شروع کر دی اور عمرہ کرنے کی خواہش اور نیت کر لی۔ مرغیاں، بکریاں، اور کھیتی باڑی، اپنی محنت مزدوری اور بڑھا لی۔ دودھ بیچ، انڈے بیچ، بکری بیچ اور فالتو اناج سبھی کو او ایل ایکس کر کے کوئی ایک دو سال میں ہی دو لاکھ روپے جمع کر لیے اور عمرے کی سعادت حاصل کر لی۔ اب وہ تسلی میں ہے۔ اگلے جہان کے امتحان کے لیے اس کا تھیلا بھر گیا ہے۔ عمرہ کر لیا اور نماز بھی پڑھتی ہے۔

ستو نے عاصمہ جہانگیر کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔ ٹی وی پر عورتوں کو نماز جنازہ ادا کرتے دیکھ کر وہ چونک گئی اور پوچھنے لگی کہ یہ جنازہ ہے کس کا۔ یہ تبدیلی کا لمحہ تھا۔
عاصمہ جہانگیر کی زندگی کی جدوجہد کا سن کر ستو کو بڑی تسلی ہوئی۔ اس نے اپنی زندگی کے پہلے 80 سالوں کی محنت مزدوری اور انسانیت کی خدمت کو بھی اگلے جہان لیے تھیلا میں ڈال لیا ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik