مادری زبانوں کو صرف اشتہار نہیں بچا سکتے



اسلام آباد میں ”ہماری زبانیں ہماری پہچان“ کے نام سے دو روزہ پاکستان کی مادری زبانوں کے ادبی میلے کا انعقاد انڈس کلچرل فورم، حکومت سندھ، لوک ورثہ، غیر سرکاری تنظیم اور دیگر کے تعاون سے ہوا۔ مادری زبانوں کے ادبی میلے کے انعقاد کا مقصد پاکستان میں بولی جانے والی مادری زبانوں کا بچاؤ، ترقی اور ترویج کے لیے کام کرنا تھا۔ اس میلے میں شریک دانشوروں ادیبوں اور لکھاریوں کو سندھ حکومت کے مالی تعاون سے اسلام آباد میں مدعو کیا گیا تھا۔

اس میلے میں شریک دانشوروں ادیبوں نے مادری زبانوں کو درپیش مسائل، مردم شماری اور دیگر ثقافتی مسائل پر تو روشنی ڈالی مگر پاکستان میں علاقائی زبانوں کے وجود کو لاحق شدید خطرات سے بچانے کے لیے کسی کے پاس کوئی خاص تجویز اور تحقیق موجود نہ تھی۔ اس میلے میں شریک دانشوروں میں سے کچھ اس بات پر متفق نظر آئے کہ پاکستان کی مادری زباںوں کو قومی درجہ دینے کے حوالے سے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، اور پاکستان تحریک انصاف کو مادری زبانوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اور بقول ان کے پارلیمنیٹرین سمجھتے ہیں کہ علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے سے وفاقیت کو نقصان ہوگا۔

اس میلے میں شریک لوگوں کا کہنا تھا کہ میلے نے اسلام آباد میں مقیم افراد کو تفریح کا ایک اچھا ذریعہ فراہم کیا ہے مگر کچھ لوگ اس میلے سے زیادہ خوش نظر نہ آئے ان کا کہنا تھا کہ تین سالوں سے سندھ سے وہ ہی لوگ بلوائے جاتے ہیں جن میں سے ایک بھی ماہر لسانیات نہیں ہے۔ دوسری طرف سندھ میں بولی جانے والی ماں بولی مثلاً ڈھاٹکی، اوڈھکی وغیرہ کے وجود کو درپیش شدید خطرات کے باوجود ان کے نمائندوں کو کیوں نہیں مدعو کیا گیا؟ اور پورا سندھ ایسے دانشوروں، تحقیق دانوں اور لکھاریوں سے بھرا پڑا ہے جو زبان اور ثقافت کی بے لوث خدمت میں مصروف ہیں ان کو کیوں نہیں بلایا جاتا؟

اس مادری زبانوں کے میلے کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے جب سندھ کے نامور دانشور، تحقیق دان اور لکھاری ڈاکٹر دُر محمد پٹھان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ادبی میلے صرف اور صرف مادری زبانوں کی نمائش کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹردُر محمد پٹھان نے بتایا کہ صرف اس طرح کے میلو سے مادری زبانوں کو نہیں بچایا جا سکتا ہے۔ سندھ میں مادر ربانوں کے حوالے سے سراج الحق میمن، ڈاکٹر محبت برڑو، غلام علی الانا، ایم ایچ پنھور اور ڈاکٹر الھداد بوہیو صاحب نے بہت کام کیا ہے اور اس حوالے سے زبانوں کے اس میلے میں ان کی تحیقیق کے حوالے سے کوئی بھی نشست ہی نہیں رکھی گئی اور نہ ہی سندھ میں بولی جانے والے مختلف لہجوں کے بچاؤ سے متعلق کوئی تجاویز زیر غور آئیں۔

مادری زبانوں کے میلے کے حوالے سے لسانیت کے ماہر ڈاکٹر احسن واہگہ کا کہنا تھا کہ زبان اور ثقافت سے محبت کرنے والے تحقیق دان کسی مالی تعاون کے محتاج نہیں ہوتے اور کبھی بھی مدد لے کر کسی بھی زبان کو نہ بچایا جا سکتا ہے نہ ہی کسی بھی ثقافت کو ترقی دلوائی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر احسن واہگہ نے بتایا کہ اگر زبانوں کو بچانا ہے تو اس کے لیے بے لوث لسانیت کے تحقیق دانوں کی ضرورت ہے۔ ابھی بھی ملک میں سینکڑوں نام موجود ہیں جو ثقافت اور زبان کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔ ایک لسانیت کا ماہر ہوتے ہوئے میں نہیں جانتا کہ دنیا کب ختم ہوگی مگر لسانیت کا ماہر ہوتے ہوئے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میری کسی بھی کوتاہی کی وجہ سے کسی بھی زبان کا وجود ختم نہ ہوجائے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری زبان تب تک زندہ رہے جب تک دنیا کی دوسری زبانیں قائم و دائم ہیں۔ اگر ہمیں مادری زبانوں کو بچانا ہے تو ہمیں چاہیے کہ پاکستانی کی وہ علاقائی زبانیں جن کے وجود کو خطرات لاحق ہیں ان زبانوں کی کتابیں، رسالے چھپوا کر لوگوں میں مفت تقسیم کریں اور ان زبانوں پر مزید تحقیق کر کے ان کو زندہ رکھنے پر غور و فکر کریں۔

پاکستان میں صرف اور صرف انگریزی زبان کا بول بالا ہے۔ ہمارے ملک میں شہری رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ مادری زبانوں کو بھلاتے جا رہے ہیں۔ انگریزی کا تلفظ کہیں خراب نہ ہو جائے اس وجہ سے اکثر لوگ شہروں میں اپنے بچوں کو مادری زبانوں میں بات چیت کرنے سے گریز کراتے ہیں۔ زبانوں کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ جانا جائے کہ ہمارے ملک میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان میں وہ زبانیں کون سی ہیں جن کے وجود کو خطرات لاحق ہیں اور کس طرح ہم ان زبانوں کا تحفظ کر سکتے ہیں اور ان کو ناپید ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ملک کے سیاستدان صرف اور صرف جمہوریت کی بقاء اور سیاسی استحکام میں الجھے رہے اور زبانوں کے تحفظ کے نام پر قائم اداروں پر نظر نہ رکھ سکے اور وہ ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔ جس کے نتیجے میں ثقافت اور زبان کے تحفظ کے نام پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں آگے آئیں اور ان حکمرانوں سے مالی امداد بھی لیتی رہیں بل بھی پاس کراتی رہی اور وقت آنے پر انہی سیاستدانوں کو نا اہل کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).