بہادر بچہ، پیرنی اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لاچار پارلیمنٹ


 آپ ٹی وی آن کریں تو شہ سرخیوں میں جو خبریں دیکھنے کو ملیں گی، وہ اسی حوالے سے ہوں گی جو اس تحریر کا عنوان رکھا گیا ہے۔ ملک میں آج کل جن خبروں پر سب سے زیادہ بحث مباحثہ جاری ہے اور اگلے کچھ روز بھی جاری رہے گا اس میں سر فہرست پیرنی اور پھر بہادر بچہ ہوگا، بہادر بچے کی روپوشی، عمران خان کی شادی کی گرم جوشی اور اس کا ولیمہ یہ سب اس موقع پر ایک ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے ملک میں اس وقت یہی اہم واقعات رہ گئے ہیں یا ان واقعات کے پس پشت کچھ اور بھی چل رہا ہے جو زیادہ اہم ہے؟

آپ نے چند سال پہلے ایک شام کئی گھنٹوں تک ٹی وی سکرینوں کو ایک شخص کے ارد گرد گھومتے دیکھا۔ جی بالکل حافظ آباد کے سکندر کی بات ہو رہی ہے۔ واقعے کو انتہائی ڈرامائی انداز میں شروع اور ختم کیا گیا۔ بعد میں چند خبریں آئیں کہ کچھ تابوت اس روز ائر پورٹ پہنچے تھے۔ شیخ رشید نے بھی پارلیمنٹ میں یہ نقطہ اٹھایا تھا اور قومی اسمبلی کے فلور پر ان تابوتوں اور داعش کے حوالے سے کچھ کلمات کہے تھے۔ اس کے بعد قطر اور سعودی عرب کی آپسی لڑائی میں الزامات سرعام رہے کہ سعودی عرب جیسا اسلامی ملک داعش کا مددگار رہا ہے۔

پچھلے چند روز میں بہادر بچے کی آوازیں اور اس کے کارناموں سے متعلق خبریں میڈیا کی وساطت سے آپ تک پہنچی ہوں گی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس پر زرداری صاحب نے بھی کہہ دیا کہ وہ ایک بہادر بچہ ہے جبکہ وہ بہادر بچہ اس وقت سپریم کورٹ کو انتہائی مطلوب ہے اور سپریم کورٹ اسکی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہی ہے جبکہ بہادر بچے کے خلاف اسلام آباد میں قبائلی عوام کا دھرنا بھی ہوا جو کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ختم کر دیا گیا۔

تیسری شادی کا اعلان ہو گیا ہے۔ عمران خان نے اگلے چند روز میں دعوت ولیمہ کے اہتمام کے حوالے سے بھی اعلان کر دیا ہے اور یہ ولیمہ جب تک نہیں ہو جاتا، میڈیا پر آپ کو یہی سب سے بڑھ کر نظر آئے گا۔ کہیں پر مبارکبادیں تو کہیں پر تنقید کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے عمران خان کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے یا ساتھ دینے پر ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے یا یہ سفید جھوٹ ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جو بھی ہے، دھرنے سے لے کر اب تک عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

یہ واقعات بظاہر تو عام نظر آ رہے ہیں لیکن ان سب واقعات کے ساتھ ایک واقعہ اور ہوا جس کو میڈیا پر انتہائی اہم خبر کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں غیر جانبداری کی بات کی تھی اور کسی کا ساتھ بھی نہ دینے کو کہا گیا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔ اب پاکستان اپنی فوج سعودی عرب بھیج رہا ہے۔ پاکستان کی فوج سعودی عرب کی حفاظت کےلئے جا رہی ہے۔ ملکی سرحدوں کے محافظ اب غیر ملکی سرحدوں کی حفاظت کےلئے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگلی حکومت مخلوط حکومت ہوگی۔ مخلوط حکومت کا سب سے بڑا فائدہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کو ہوتا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے لئے فوج کی روانگی سے پاکستان کی خآرجہ پالیسی پر کئی سوالات اٹھ سکتے ہیں اور کئی دوست ممالک عالمی فورمز پر پاکستان کا ساتھ بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ عالمی حالات اس وقت پاکستان کےلئے ساز گار نظر نہیں آ رہے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی لسٹ میں ڈالنا چاہتا ہے اور دوست ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات روز بروز بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اراکین عمران خان کو مبارکباد یا تنقید کا نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ رہے کہ عالمی سطح پر آئندہ چند برسوں میں پاکستان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کو”سب سے پہلے پاکستان” کےلئے اہم اور ضروری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یمن جنگ کے موقع پر فوج نہ بھیجنے کا کریڈٹ عمران خان نے راحیل شریف کو دیا تھا اور اب فوج نے خود ہی فوج بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اب کوئی فوج کو روکنے کا کریڈٹ لے سکتا ہے؟ شاید کوئی نہیں کیونکہ اب تو زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کو پیاری ہو گئی ہے اور انھیں بھی فوج کے جانے پر کوئی اعتراض نہیں تو حکومت تو پہلے ہی دودھ کی جلی ہے، چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے کوئی طویل دھرنا اب افورڈ نہیں کیا جا سکتا۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider