ہم اپنے بچوں میں سے کسی کو قابیل نہیں بننے دیں گے


جو سمجھو تو یہ دنیا ہمارے خاندان کی طرح ہے۔ اور ہمیں اپنے خاندان کے سب ہی لوگوں سے محبت کا رویہ اختیار رکھنا چا ہیے۔ مگر جو ظالم ہو ں ان کا مقابلہ کرنا چا ہیے۔ یہ جا نے بغیر کہ ظالم سے ہمارا خون کا رشتہ ہے یا مذہب کا۔ وہ ہمارے ملک کا ہے یا دشمن ملک کا، اسی طرح ہمیں مظلوم کے حق کے لیے اپنی تمام تر صلاحیت کو بروئے کار لانا چاہیے، وہ مظلوم چاہے ہمارے دشمن کے خاندان کا ہی فرد کیوں نہ ہو۔ زینب اور قصور کے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات کے بعد سب ہی والدین اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے بہت حساس اور کسی حد تک سرا سیمگی کا شکار ہیں۔ بچوں کی حفاظت سے متعلق ہر قسم کی تجاویز پر عمل در آمد کویقینی بنا نے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بچوں کو ان کی حفاظت سے متعلق چیزیں سکھا نے کے ساتھ ساتھ سیکس ایجوکیشن کو بھی اسکولوں میں متعارف کرانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ بچے اپنی حفاظت کیسے کریں اس کے لیے مختلف باتیں انہیں سمجھا ئی جا رہی ہیں۔

دیکھو بیٹا اگر کوئی تمہیں ایسے چھوئے کہ تمہیں برا لگے تو شور مچاؤ، اپنے امی ابو کو ہر بات بتا ؤ۔ دیکھو گھر کے باہر اور کبھی کبھی گھر کے اندر بھی کچھ انسان نما جانور ہو تے ہیں جنہیں بچوں کا خون چا ہیے ہوتا ہے، وہ آپ کے جسم کو کھود دیں گے۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، یہ لوگ گندے ہوتے ہیں کبھی ان پر اعتبار مت کرنا۔

چلو بھئی بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیا اب آپ کا بچہ محفوظ ہو گیا اب کوئی اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں کرے گا، کوئی اس کا گلہ دبا کر اس کے مردہ جسم کو کوڑے میں نہیں پھینکے گا، لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ حیوانیت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، منہ کو خون اسوقت ہی لگ جاتا ہے جب اس کا ذائقہ پہلی بار ہونٹوں کو محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ہی نہیں بچانا، ان سے بھی دوسرے بچوں کو بچانا ہے۔ پچھلے دنوں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی وارداتوں میں ایسے افراد بھی ملوث پائے گئے جن کی عمریں چودہ پندرہ برس کی تھیں۔ آپ کا خیال ہے کہ یہ ان کی پہلی واردات تھی نہیں وہ اس سے بہت پہلے سے یہ سب کرتے رہے ہوں گے لیکن اس بار ہو سکتا ہے جس بچے کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو وہ بچہ بہت دبنگ ہو اس نے اسے دھمکی دی ہوکہ وہ اپنے بڑوں کو بتا دے گا، اور اسی خوف نے اسے اپنا ایک جرم چھپانے کے لیے اس کی جان لینا اس کی مجبوری بن چکا ہو۔ یا اس سے پہلے اس کا قتل نظروں میں نہ آیا ہو۔

اپنے بچوں کو ایسے تربیت کریں کہ وہ ظالموں میں سے نہ ہوں۔ اپنے بچوں کو زندگی کی اہمیت بتائیں۔ دوسروں کی زندگی ان کی زندگی سے بھی اہم ہے، انہیں بتائیں کہ موت ایک دن ضرور آئے گی لیکن سب سے اچھی موت وہ ہے جو کسی کی جان بچاتے ہوئے آئے۔ اپنی جان کو بلاوجہ کی بہادری دکھانے کے لیے خطرے میں مت ڈالو اس کی حفاظت کرو اس وقت تک جب تک کسی کو تمہاری ضرو رت نہ پڑے کسی کی مدد آخری حد تک کرو لیکن بھکا ری بنا نے میں نہیں، اس کی زندگی کار آمد بنا نے کے لیے۔

خوشی اور سکون اہم ہے، لیکن اس کے لیے دوسروں کی زندگی سے خوشی ا ور سکون چھیننے کی ضرورت نہیں۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے، تمہاری خواہشات ضرور پوری ہوں گی لیکن چھپ کے غلط طریقے سے حاصل کی جانے والی لذّت عارضی ہوتی ہے، اپنے ساتھ دائمی وسوسے، پریشانیاں اور ذلّت لاتی ہے، ہماری ساری صلاحیتیں صرف اس ایک خوف کی نظر ہو جا تی ہیں کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو کیا ہو گا۔ اور غلط کام کبھی نہ کبھی ضرور پکڑا جا تا ہے اور ایسے کاموں کی سزا عمر قید یا پھانسی کی صورت میں ملتی ہے۔ ماں، باپ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہتے۔

دوست، رشتے دار نفرت کرتے ہیں۔ زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے، سدھار کے لیے دوسری زندگی نہیں مل سکتی۔ اس لیے کوئی ایسا کام نہ کرنا جسے دنیا سے چھپانا پڑے۔ ۔ تم یقیناً یہ چاہو گے کہ دنیا میں تمہارا نام ہو، والدین تم پر فخر کریں۔ اس لیے ذہن میں آنے والے کسی بھی منفی یا انتقامانہ سوچ کو اپنے تعمیری مقصد کی طرف موڑ دینا۔ جو لوگ اپنے دماغ میں کسی مقصد کو رکھ کرہر دن کا نیا سورج دیکھتے ہیں، ان کا مستقبل روشن ہو تا ہے۔ اور کیسے بھی نامساعد حالات ہوں محنت اور لگن انہیں ایک دن کامیاب ضرور کرتی ہے۔

گھر کا ماحول بعض اوقات بچے کو ظلم کی جانب مائل کرتا ہے۔ گھر کے افراد کے ساتھ کوئی اختلاف ہو تو اس کا اظہار تشدد سے نہ کریں۔ بچے کو اظہارِ رائے یا احتجاج کا حق پوری طرح دیجیے، اس کی نفسیات، بدلتے رویے کو غیر جانب داری سے دیکھیے، اس کی ایسی شرارتوں کا سختی سے نوٹس لیں جن سے کسی جاندار کو تکلیف پہنچتی ہو۔ اپنے بچے کو ہر وقت یہ باور کراتے رہنا آپ کی اولین ذمے داری ہو نی چاہیے کہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس کے لیے آپ کو خود مثال بننا ہو گا۔

کچھ والد فخریہ محفل میں اس بات کو کا رنامے کی صورت میں بتاتے ہیں کہ میں نے بچے سے کہہ دیا ہے کہ کبھی روتے ہو ئے گھر مت آنا کہ فلاں نے مجھے مارا ہے۔ جس نے مارا ہے اس کا حساب چکتا کر کے آنا۔ مجھے ایسے سورما والد کے اس طرح کے فلسفے کی سمجھ نہیں آتی۔ اپنے بچوں کو درد مندی سکھائیں، بتائیں کہ اگر کو ئی تمہارے گال پر ایک تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال پیش کر دو، اور سب سے بڑھ کر قربانی، ایثار اور در گزر کے لیے بڑے لوگوں، انبیا اور ہمارے نبی ﷺ کی مثالیں موجود ہیں۔ اپنے بیٹو ں کے آنسووءں پر یہ کہہ کر بند نہ باندھیں کہ مرد نہیں روتے۔ آنسو حسا سیت کا جیتا جاگتا اظہار ہیں، ا نہیں مردانگی کا رومال مت پکڑائیں۔

اگر کوئی آپ کے بچے کی کسی غلط حرکت کا نوٹس دلاتا ہے تو اس کی بات کو در گزر نہ کریں، نہ ہی بچے کی باتوں میں آئیں کہ وہ کیوں کہ اس سے جلتا یا جلتی ہے اس لیے اس نے بکواس کی ہے۔ پڑوس، بچوں کے اسکول، بہن بھا ئیوں یا رشتے داروں کی جانب سے آپ کے بچے کی جب کبھی بھی کوئی شکائت آئے تو ایک پولس والے کی طرح تفتیش و تحقیق کریں، اور آپ کے بچے کی شکائت اگر درست ہو تو وہ خواہ کتنی ہی ضرر رساں یا بے ضرر ہو، نہ تو اسے ٹالنے کی کوشش کریں نہ ہی چھپائیں، اسے اہمیت دیں بچے سے با ز پرس کریں، اسے خطرناک نتائج کے بارے میں بتا ئیں، اسے کہیں کہ اگر کبھی اس نے کو ئی قانون توڑا، یا کسی کی زندگی یا عزت کو اس کی وجہ سے کو ئی نقصان پہنچا تو آپ نا صرف اپنے بچے کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ سب سے پہلے خود اس کے خلاف پولس میں شکائت کریں گے۔ اب ظالم، مظلوم کی طبقاتی تخصیص ختم ہو چکی ہے، کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا ظالم ہو سکتا ہے اور کوئی بھی مظلوم ہو سکتا ہے۔

اپنے بچے کی لاش کسی کوڑے میں نظر آنے کے خوف سے اپنے بچوں کو صرف دفاع مت سکھا ئیے، انہیں ظلم سے روکیے، ہر وہ راہ مسدود کیجیے، جو آپ کے بچے کو اس راہ سے روکے جہاں وہ کسی کی لاش اٹھائے کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھ رہا ہو۔ وہ بچہ جو کوڑے پر مردہ حالت میں پھینکا گیا ہے، وہ بھی کسی کا بچہ ہے، اور وہ بھی جس نے اس لاش کو کوڑے پر پھینکا ہے۔ ہمیں خود سے عہد کرنا ہے کہ اپنے بچوں میں سے کسی کو قابیل نہیں بننے دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).