عاصمہ جہانگیر ایک بہادر انسان تھی


پہلی رات کی پرفارمنس کتنی اہم ہوتی ہے، اس کا اندازہ ہم نے پہلے ایسے لگایا کہ اس رات چادر پہ لہو کا سراغ ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہو تو معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ پرفارمنس کتنی اہم ہوتی ہے، اس کا اندازہ ہم نے یوں بھی لیا جب اس پہلی رات ایک دلہا نے دلہن کو پیٹ ڈالا کہ لڑکی کو ماہواری کیوں تھی؟ کیا فائدہ ایسی رات کا جب پرفارمنس نہ دکھائی جا سکے۔ اس کا احساس تیسری بار رات سے جاری تبصروں میں ہوا۔ پہلی رات کے افسانوں کو تقویت دیتے سٹیٹس ڈالنے والوں نے ان لغو روایات اور افسانوں میں حصہ ڈالا جنہیں بدلنے کی خاطر ہم لکھتے ہیں۔ ہمیں پیڈ مین فلم اس لیے تو بری لگتی ہے کہ یہ ہماری اقدار و روایات کو ٹھیس پہنچاتی ہے لیکن ہمیں پیریڈز اس لیے برے لگتے ہیں کہ اس رات پرفارمنس دکھانے والے کے ذہن میں ناپاکی کا تصور ایسے جڑا ہے کہ وہ اب پرفارمنس بھی نہیں دکھا سکتا اور دکھائے تو ثبوت کہاں سے آئے کہ یہ خون اس کی بیوی کے ڈبہ پیک سیل بند زیرو میٹر ہونے کا ثبوت ہے ؟

ہمیں کچھ لوگوں نے بتایا اخلاقیات کا سارا ٹھیکہ انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے، ہم نے یہ اخلاقیات کبھی بستر کے نیچے کیمرہ لگانے کی خواہش میں دبی دیکھیں، کبھی ہم نے دیکھا وہ کہتے رہے ساری پرفارمنس تو ویرات نے رات انوشکا کو دکھا دی اس لیے اگلے میچ میں نہ چل سکا۔ اس کے بعد والی ویرات کی سنچریوں پہ البتہ انوشکا شرما کو خراج عقیدت پیش کرنے سے یہ سب لوگ قاصر رہے۔

کسی نے ہمیں بتایا ایک شادی شدہ عورت تب گھٹیا عورت ہوتی ہے جب وہ تین بچوں کی ماں ہو اور طلاق لے کر کسی اور سے شادی رچائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری زندگی اخبار میں یہ دو کالمی خبر پڑھتے گزر گئی کہ چار بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار۔ انہوں نے کبھی اخبار میں پڑھا ہی نہیں کہ چار بچوں کا باپ آشنائی لگائے تو اس کی خبر لگے گی؟ اور اگر لگائے تو بھی کیا اسے یہ حق حاصل نہیں؟

کسی نے ہمیں بتایا یہ مریم نواز کا مذاق اڑانے والے لونڈوں کو جواب دے رہے ہیں۔ مریم نواز اب سیاست میں آئی ہیں، انہیں یہ سب حملے سہنے پڑے کیونکہ وہ نواز شریف کی بیٹی تھیں۔ جنہیں نواز شریف کے طرزِ سیاست سے اختلاف رہا ان کے لیے مریم ہمیشہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی رہی۔ وہ یہ بھول گئے جو لڑکی اپنے لیے فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے کل کو ایسی ہی آواز وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی اٹھائے گی تو دوسرے تو چھوڑو اپنی ہی پارٹی کی بوٹ چاٹ بریگیڈ کو کہیں اور پناہ نہیں ملے گی۔

ہمارے آس پاس بہت سے خواب بکھرے پڑے ہیں، بہت سی تشنہ خواہشات ہیں، کبھی کبھار ہم کسی عورت پر ہونے والے ظلم کی خبر شیئر کر کے یا اس پہ سٹیٹس لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم حقوق کے چیمپیئن ہیں۔ حقوق کے چیمپیئن بننے میں بڑا کشٹ اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک ذاتی حملہ، ایک ہلکا جملہ سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ہمیں روحانیت اور مزار میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن پھر ہماری شیما کرمانی مزار پہ دھمال ڈالنے جاتی ہے تو ہم اسے کنجری کا لاشوں پہ دھمال کہتے ہیں۔ ہم پسند کی شادی نہیں کر سکتے تو اس کا بدلہ پسند کی شادی کرنے والوں سے لیتے ہیں۔ ہم اپنے گھر والوں کے لیے احترام مانگتے ہیں لیکن دوسروں پہ ذاتی حملے کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمارے ساتھ غلط ہوا تو اس کا بدلہ ہم آپ پر ویسی ہی تنقید و تضحیک کے سہارے سے لیں گے۔

ہم نے ہر مردہ عورت کے لیے احترام مانگا ہے جو کہ غلط ہے اور اسی لیے آج ہم زندہ اور مخالف کیمپ کی عورتوں کے لیے احترام مانگ رہے ہیں۔ ہم زندہ عورتوں کو نوچنے کے قائل ہیں اور مردہ عورت پہ چادر چڑھانے کے۔ ہمیں کسی خاتون کی تعریف و توصیف میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ہم نے یہی سیکھا ہے جو ہمارے گھر وہ اچھی جو باہر وہ بری اور وہ تب تک بری جب تک ہمارے بستر پہ نہ آ جائے۔ یہ ذہنیت کالج کے لونڈوں کی دیکھی تھی جو کسی لڑکی کو تب تک گشتی گشتی کہتے تھے جب تک کہ وہ ان کے ساتھ سیٹ نہیں ہو جاتی تھی، اور پھر جونہی وہ بستر سے اٹھتی، لذت کا حصول اختتام کو پہنچتا تو وہ پاکیزہ پھر گشتی کے منصب پہ فائز ہو جاتی یا جو اتنا خیال رکھتے وہ بریک اپ ہوتے ہی “کنجری، اک بندے نال ایہدی پیاس نئیں بجھدی” وغیرہ کہتے رہتے۔

کیا بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو اس سلوک کی حقدار تھیں؟ کوئی آمر اتنا گھٹیا بھی ہو سکتا ہے اور اتنا ڈرتا ہے کہ ڈلیوری کی تاریخ پتا کرا سکے۔ کیا مریم نواز نے وہ جواب نہیں دیا جو ان کے پارٹی کے سورما بھی نہیں دے سکے؟ کیا بشری گوہر کے موقف میں کوئی ہلکا پن کہیں بھی دیکھنے کو ملا؟ کیا شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے والا لیپ ٹاپ ہی بانٹتا رہے گا یا دعوت نامے کے باوجود نہ جا سکے تو بتائے گا کہ کس نے روکا؟

عائشہ گلالئی کو عائشہ “گلےلائی” لکھنے والوں میں، مریم نواز کو “مریم بھاگی” لکھنے والوں میں ، بےنظیر کی ڈلیوری کی تاریخ کا کھوج لگانے والوں میں، عاصمہ جہانگیر کو “آثمہ بواسیر” لکھنے والوں میں کیا فرق ہے؟

ہم میں یہ اعتراف کرنے کا حوصلہ نہیں کہ عاصمہ ایک بہادر انسان تھی تو ہم لکھتے ہیں وہ مردانہ وار لڑی کیونکہ ہمارے اندر کہیں جڑوں میں گھس کر بیٹھا ہے مردانگی کا مطلب بہادری ہے۔ ہم یہ اعتراف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ عاصمہ کی پوری زندگی بہادری اور اصول پرستی کی زندگی تھی اور یہ اوصاف انسانوں میں پائے جاتے ہیں ان کا مرد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).