دنیا پاکستان کا سچ تسلیم کیوں نہیں کرتی؟


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے میونخ کی سیکورٹی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا مقدمہ بڑی حوصلہ مندی اور مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس وقت دنیا کو جہاد کے نام پر جس دہشت گردی کا سامنا ہے، اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ جہاد کی یہ توجیہ پاکستان کی اختراع نہیں ہے بلکہ 1979 میں افغانستان میں سوویت افواج کی مداخلت کے بعد امریکہ اور اس کے سب حلیفوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر جہادی گروہ کھڑے کرنے کے لئے کام کیا جس میں پاکستان نے بھی ان کا پورا ساتھ دیا۔ کسی حکومت اور اتھارٹی کے بغیر جنگ کو جہاد کے نام سے جائز قرار دینے کے لئے سلیبس میں یہ بات شامل کی گئی کہ خود حفاظتی Self Defence کے لئے افراد یا گروہ بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ جہادیوں کو امریکی صدر نے اپنے وقت کا ہیرو قرار دیا اور خلائی مشنز کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے اقدام بھی کئے گئے۔ چالیس برس پہلے جس عفریت کو پیدا کیا گیا تھا، وہ سب کا مشترکہ منصوبہ تھا اور اسے ختم کرنے کے لئے بھی سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تن تنہا پاکستان پر اس کا بوجھ ڈالنا یا الزام لگانا درست رویہ نہیں ہو سکتا۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ اس کام کا آغاز کرنے کے لئے سب سے پہلے تو موجودہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو دہشت گردی کے نام سے پکارنا اور سمجھنا ضروری ہے اور یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ جہاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے جہاد ازم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جنگ جیتنے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے اور باہمی انتشار کا مظاہرہ کرنے سے گریز کی ضرورت ہوگی۔ یہ جنگ صبر و تحمل اور عزم مسلسل سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔

جرمنی کے شہر میونخ میں سہ روزہ سیکورٹی کانفرنس میں نیٹو کے علاوہ دنیا کے اہم ممالک کے نمائیندے شریک ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہے اور اس وقت تک ان عناصر کے خلاف لڑتا رہے گا جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ لیکن انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پاکستان کی جنگ نہیں ہے اور دنیا کو بھی اس حوالے سے ایک ملک پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے۔ انہوں نے افغان جنگ کے حوالے سے بتایا کہ یہ مکمل سچ نہیں کہ وہاں امریکی اور اتحادی افواج کی ناکامی کی وجہ حقانی نیٹ ورک کی موجودگی یا طالبان قیادت کا پاکستان میں مقیم ہونا ہے۔ امریکہ کو اس بارے میں ان عوامل اور غلطیوں کا ادراک کرنا چاہئے جو اس ناکامی اور موجودہ مشکل صورت حال کا سبب ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ تو 2003 میں جیتی جا چکی تھی لیکن عراق پر حملہ کی وجہ سے افغانستان سے توجہ ہٹا لی گئی ۔ اس طرح وہاں جنگجو گروہوں کو منظم اور مستحکم ہونے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت داعش سمیت جو دہشت گروہ افغانستان میں قوت پکڑ رہے ہیں، ان سے پاکستان کو بھی شدید تشویش ہے۔ اسی لئے پاکستان اس جنگ میں امریکی منصوبہ کے مطابق سرگرم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو نا چاہئے کہ اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے سیاسی مذاکرات ضروری ہوں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پوری دنیا کے لیڈروں پر واضح کیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کسی دہشت گرد گروہ کے ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔ لیکن حقانی نیٹ ورک یا طالبان اگر پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ کہ پاکستان میں 27 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ دہشت گردہ عناصر پناہ گزینوں کے بھیس میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنا آسان کام نہیں ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے عالمی قیادت پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں جنگ پر سالانہ 46 ارب ڈالر صرف ہورہے ہیں لیکن اس رقم کا معمولی سا حصہ صرف کرکے افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے افغانستان واپس بھیج کر ان کی آباد کاری کا کام کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے یہ مؤثر اور بامقصد سرمایہ کاری ہوگی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ جس وقت میونخ میں دہشت گردی کے حوالے پاکستان کا مقدمہ مکمل پس منظر اور دلائل کے ساتھ پیش کررہے تھے ، اس سے چند گھنٹے بعد پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF کا چھ روزہ اجلاس شروع ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس اجلاس کی اہمیت یوں بڑھ گئی ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت میں سہولت کار کے طور پر واچ لسٹ میں شامل کرنے کی امریکی تجویز پر غور کیا جائے گا۔ اگرچہ پاکستان نے یہ خبر سامنے آنے کے بعد متعدد دارالحکومتوں میں ایلچی روانہ کئے اور صدر ممنون حسین نے ایک خصوصی آرڈی ننس کے ذریعے پاکستان میں بھی ان تمام تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری کیا جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرچکی ہے۔ اس آرڈی ننس کے تحت نشانہ بننے والی خاص طور سے حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت نامی تنظیمیں شامل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس آرڈی ننس کے بعد ان سب تنظیموں کے مراکز اور وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینے کے کام کا آغاز کردیا ہے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے یہ اچانک اور سخت اقدام ایف اے ٹی ایف FATF میں امریکی قرارداد کو ناکام بنانے کے نقطہ نظر سے کیا ہے۔ اس تنظیم نے اگر ایک بار پھر پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کرلیا تو اس کا پاکستان میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات پر منفی اثر مرتب ہوگا۔ کیوں کہ اس ٹاسک فورس کے 700 ارکان ہیں جن میں دنیا کے بیشتر ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے بااثر اور باختیار ادارے بھی شامل ہیں۔ تاہم اب تک موصول ہونے والی خبروں کے مطابق پاکستان کی سفارتی کوششوں اور ملک کے اندر کئے جانے والے اقدامات کے باوجود اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ پاکستان کو زیر نگرانی ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔ اگرچہ یہ تجویز امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے لیکن دنیا کے بیشتر طاقت ور ممالک اس تجویز کی حمایت کررہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف FATF میں اس وقت صرف چین کھل کر پاکستان کی حمایت کررہا ہے اور اس قرار داد کی مخالفت کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تاریخی حقائق پر استوار مدلل باتوں کے باوجود دنیا کے وہ سارے ممالک جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی اعانت اور تعاون کی خواہش رکھتے ہیں، پاکستان پر اعتبار کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں اور ایک اہم فورم سے کیوں ایسا اقدام کرنے کا امکان پیدا ہو چکا ہے جس کے پاکستانی معیشت اور سفارتی شہرت پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایک اہم سوال ہے لیکن اس کا جواب بھی اتنا ہی آسان ہے۔ پاک فوج کے سربراہ یا دیگر لیڈروں کی طرف سے تاریخی تناظر میں جو سچ بیان کیا جاتا ہے وہ درست اور واقعاتی طور سے ٹھیک ہونے کے باوجود معروضی حالات اور سچائیوں کے مطابق نہیں ہے۔ جنرل باجوہ کا یہ مؤقف تو بالکل درست ہے کہ جہاد کے نام سے دہشت گردی کا جو طوفان اس وقت دنیا میں برپا ہے، امریکہ سمیت سب مغربی ممالک نے افغانستان میں سوویت افواج کو نیچا دکھانے کے لئے خود ہی جہاد کے نام سے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس خطے کے نوجوانوں کو جہاد کا سبق پڑھاتے ہوئے نہ تاریخی تناظر کو ملحوظ خاطر رکھا گیا اور نہ ہی اس کے عواقب کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن دنیا سے یہ سوال کرنے سے پہلے ہمیں یہ جواب دینا پڑے گا کہ چالیس برس پہلے ہونے والی غلطی کا تدارک کرنے کے لئے ہم نے اپنے طور پر کیا کیا ہے۔ جس قومی ایکشن پلان کا ہر فورم پر ذکر کیا جاتا ہے، اس پر عمل درآمد میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے لئے کام نہیں ہو سکا۔ ملک میں انتہا پسندی اور منافرت کو فروغ دینے والے گروہ اور ادارے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور بااثر ہو چکے ہیں۔

دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ سے پہلے پاکستان اچھے اور برے طالبان کے نظریہ پر یقین رکھتا تھا۔ 2013 میں برسر اقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسی نظریہ کی بنیاد پر ’اچھے طالبان‘ سے مذاکرات کرکے انہیں مین اسٹریم کا حصہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا جو اے پی سی پشاور پر خوں ریز حملہ کے بعد ہی ختم ہوئی تھیں۔ دنیا اس لئے بھی پاکستان کی بات کا یقین نہیں کرتی کہ پاکستان کے لیڈر یہ تو کہتے ہیں کہ موجود حالات چالیس سال پہلے شروع کی گئی غلطی کا نتیجہ ہیں اور دنیا سے اس کا ’خمیازہ‘ بھگتنے کا تقاضہ بھی کرتے ہیں لیکن پاکستان نے خود ماضی میں کی گئی اس غلطی کا تدارک کرنے کے لئے کوئی مؤثر اقدام نہیں کئے ہیں۔ صدر مملکت کی طرف سے ہفتہ عشرہ قبل جاری ہونے والا آرڈی ننس اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ قدم صرف اس وقت اٹھایا گیا جب یہ واضح ہو گیا کہ عالمی ٹاسک فورس FATF پاکستان کے خلاف اقدام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ورنہ جماعت الدعوۃ اور دیگر گروہ تو کئی برس سے دہشت گردوں کی عالمی فہست میں شامل ہیں۔ حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر اس کی گرفتاری کے لئے دس ملین ڈالر کا انعام مقرر ہے لیکن پاکستان کی عدالتوں کو انہیں گرفتار کرنے یا انہیں جرائم کی سزا دینے کے لئے ثبوت نہیں ملتے۔ پاکستان اب تک چین کی مدد سے مولانا اظہر مسعود کو دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز کو رکوانے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان کو دنیا میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے اپنے رویہ پر غور کرنا ہوگا۔ جن گروہوں کو دنیا دہشت گردی کا سبب سمجھتی ہے، پاکستان اگر انہیں اپنے اثاثے قرار دے گا، جس جہاد کو اب جنرل قمر جاوید باجوہ دہشت گردی قرار دینے پر اصرار کررہے ہیں، اس کے علمبردار اگر اسلام آباد کی مسجد اور مدرسہ میں محفوظ ہوں گے اور اپنے زہر آلود نظریات کا پرچار کرنے میں آزاد ہوں گے تو دنیا کیسے اور کیوں پاکستان کا اعتبار کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali