بابر کی سر زمین اور ریشم کے کیڑے (1)


\"surayyaکہا جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی ابدی جنت میں سے کچھ ٹکڑے اس فانی دنیا میں ہمارے لئے اتار رکھے ہیں۔ کیونکہ انسان اپنی فطری صفات میں سب سے زیادہ پاکیزگی اور حسن کو پسند کرنے والا ہے۔ فرغانہ وادی انہی ٹکڑوں میں سے ایک ہے۔ فرغانہ وسطی ایشیا کی جنت نظیر وادی شہنشاہ ظہیرالدین بابر کی جائے پیدائش ہے۔ یہ وسطی ایشیا کا سب سے بڑا صحت افزا مقام ہے اور  خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ فرغانہ شہر کی آبادی سوا دو لاکھ ہے۔ وادئ فرغانہ میں فرغانہ کے علاوہ نمگان، اندجان اور قوقند بڑے شہر ہیں۔ اند جان بابر کی جائے پیدائش ہے۔ بابر کا شجرہ نسب ایشیا کو متاثر کرنے والے دو عظیم معماران سلطنت تموچن عرف چنگیز خان اور تیمور لنگ سے ملتا ہے۔ اپنے والد کی طرف سے پانچویں پشت میں وہ براہ راست تیمور کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا نسب چودھویں پشت میں چنگیز خاں سے ملتا تھا۔ روایت کے مطابق بابر اندجان میں 14فروری 1483 میں عمر شیخ مرزا کے گھر پیدا ہوا۔ عمر شیخ مرزا اندجان کے علاقے کا حکمران تھا۔ بابر نے اپنا بچپن اور لڑکپن اسی پھولوں، پھلوں، جھرنوں، خوشبوؤں کی وادی میں گزارا۔ بابر نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھڑ سواری، تیراندازی، فن سپہ گری اور دیگر ہنرِ حرب و کمان اپنے والد کے زیرِ نگرانی حاصل کیے۔

\"12900221_1005156419563808_704956234_n\"1498ء میں باپ کی وفات کے بعد تقریباً 14 سال کی عمر میں بابر کو علاقے کا امیر بنا دیا گیا۔ خوشبوؤں، رسیلے پھلوں اور جھرنوں کی وادی میں نازو نعم سے پلنے والے ظہیرالدین بابر کو کم عمری سے ہی شدید جدوجہد اور سخت جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی کڑی جدوجہد کے نتیجے میں بابر نے 42 سال کی عمر میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں عظیم مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے پورے برصغیر پر دو صدیوں سے زیادہ حکومت کی۔ آج بھی ازبک اور خاص طور پر وادئ فرغانہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کی دھرتی نے عظیم شہنشاہ پیدا کیا جس نے جنوبی ایشیا میں مغلیہ حکومت کی بنیاد رکھی۔

میرے حسن ذوق کی تصوراتی آنکھ جب بھی کھلتی ہے تو میں وادیء فرغانہ کے لاجواب و بےمثال نظاروں میں کھو جاتی ہوں۔ مجھے بے اختیار وہ ایام یاد آجاتے ہیں جب میں اور معزہ ( میری بیٹی) تاشقند میں پاکستانی سفارت خانے کی قریبی دوستوں خاص طور پر میری انتہائی پیاری دوست نبیلہ ایوب کے ساتھ اس حسن و جمال سے بھرپور وادی میں گھوم رہی تھیں۔ جولائی 2003ء  میں ہم تین خاندان تاشقند سے روانہ ہوئے تو سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک اور سرسبز پہاڑی سلسلہ سفر کو دلچسپ بناتا چلا گیا۔ تاشقند سے فرغانہ 325 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس پہاڑی سفر میں سب سے دلچسپ چیز جس نے ہمیں بہت متاثر کیا وہ پوری سڑک کو لینڈ سلائیڈ سے محفوظ بنانے کے لئے \"12939084_1006239806122136_1394054185_n\"سڑک کے دونوں اطراف میں ضروری بلندی تک مضبوط دیوار تھی جس پر مضبوط لوہے کے جنگلے بنے ہوۓ تھے۔ لہٰذا کسی بھی شدید موسم میں راستہ بند ہونے کا امکان نہیں تھا۔ ہمارا قافلہ راستے میں مختلف جگہوں پر بنے ہوئے چائے خانوں سے انواع و اقسام کے ازبک کھانوں سے لطف اندوز ہوا۔ ازبک بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ چائے خانوں کی میزبان خوبصورت چہروں اور جاذبیت سے بھرپور مسکراہٹ والی خواتین کھانوں کے ساتھ ساتھ اپنی محبت بھی نچھاور کرتی رہیں، شہر کے قریب پہنچ کر پہاڑی سلسلہ کچھ دیر کے لئے منقطع ہوا تو دل و دماغ حیرانی کی حد تک مسرور ہونے لگے۔ سڑک کے دونوں طرف سیب، آڑو، چیری، خوبانی، فالسہ، آلو بخارے اور انگور کے باغات اپنے رسیلے پھلوں کی تازگی جیسے ہمارے اندر انڈیلنے لگے۔ انگور کی ایسی ایسی اقسام نظر آئیں جو ہم نے تاشقند میں بلکہ کبھی کہیں نہ دیکھی تھیں۔ ہم ابھی پھلوں کے سحر میں تھے کہ دیکھا شہر کے میئر اور کچھ دیگر معززین ہمارے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ ازبکوں کی یہ خاص روایت ہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے معزز مہمانوں کا اسی طرح استقبال کرتے ہیں۔ اسی روایتی انداز میں ایک بہترین ہوٹل میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام تھا۔ روایتی ڈھیر سارے ازبک کھانوں کے ساتھ خاص ازبک نان میز پر خصوصیت سے سجے تھے۔ وہاں کے خصوصی پھلوں سے تیار کیے ہوئے شربت ( کمپوت ) نے اپنی مہک سے کھانے کی اشتہا بڑھا دی۔

کھانے کے بعد فرغانہ کے جڑواں شہر مرغلان ( مارگلان ) میں معروف قدیمی سلک فیکٹری دیکھنے کا پروگرام تھا۔ فیکٹری میں داخل ہوتے ہی ہماری آنکھیں تو گویا کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انتہائی خوبصورت نوجوان لڑکیاں کھڈیوں پر اپنے دیدہ زیب پاؤں چلاتے ہوئے سلک کے دھاگے سے کپڑا بن رہی تھیں۔ فرغانہ کا اصلی قدرتی ریشمی کپڑا بہت خوبصورت اور نرم و ملائم ہے۔ اب جو ہمیں اصلی ریشم کو دکھانے لے جایا گیا تو ہم سراپا حیرت بنے کھڑے رہ گئے۔ بڑے بڑے گوداموں میں سفید ریشم کےکیڑے بھرے ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں بھی یہ کیڑا کبھی کبھی درختوں پر نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں کوئی کیڑا ہوتا ہے جو سفید رنگ کا گولا سا بنتا ہے۔ اس گولا نما کو ریشم کا کیڑا کہتے ہیں جس کے اندر سے ریشم کا دھاگا نکلتا ہے۔ اتنے زیادہ کہاں سے آ سکتے ہیں؟ ہماری حیرت پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں ریشم کے کیڑوں کے بڑے بڑے فارم ہیں جہاں یہ وافر مقدار میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں وہ جگہ دکھائی گئی جہاں پر ان گولوں کے اندر سے ایک مواد سا نکالا جا رہا تھا اور اسے دھاگے کی شکل دے کر گچھوں کی صورت میں لپیٹا جا رہا تھا۔ یہ بالکل قدرتی دھاگا تھا جس سے بعد میں کھڈیوں پر \"12939160_1005156222897161_1178476124_n\"کپڑا بنایا جاتا تھا۔ ایک ہال میں باہر سے آنے والوں کے لیےکپڑے کی خریداری کا ایک اسٹال بھی تھا۔ ہم نے یادگار کے طور بہت سارا کپڑا خریدا۔ کچھ کپڑا ہمیں تحفے کے طور پر بھی ملا۔

اگلے دن وادی میں آگے بڑھے تو وادی کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے چشم حیرت جیسے جھپکنا ہی بھول گئی۔ سڑک کے دونوں اطراف میں رس ٹپکاتے پھلوں کے خوشنما درخت تھے اور درختوں سے تازہ اترے ہوئے پھل بیچنے کے لئے ٹوکریوں میں بھر کر سروں پر رومال باندھے ادھیڑ عمر کی باوقار عورتیں ہونٹوں پر تبسم سجائے کنارے پر بیٹھی محنت کش ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کو سراہیں یا سڑک کے دونوں طرف اپنی روانیوں میں مست بہتی ہوئی ندیوں کو دیکھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی  دونوں ندیاں پہاڑوں سے آرہی تھیں اور دونوں کا آپس میں فاصلہ صرف ایک سڑک کا تھا لیکن ایک کا پانی سفید چاندی جیسا اور دوسری کا گھلے ہوئے سیمنٹ جیسا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ دونوں ندیاں ہمیشہ سے اسی طرح انہی دو رنگوں کے پانی کے ساتھ رواں دواں ہیں اور پانی کبھی گھٹتا بڑھتا بھی نہیں کہ سڑک پر چڑھ آئے اور یہ بھی پتا نہیں چل سکا کہ سیمنٹ کے رنگ والا پانی کس پہاڑ سے آ رہا ہے۔ آگے پہاڑوں کے درمیان پیالے کی طرح نظر آنے والی ایک گہری بے تھاہ جھیل تھی۔ سنا گیا ہےکہ سوویت یونین کے زمانے میں دنیا بھر سے غوطہ خوروں کو بلایا گیا تھا کہ اس کی سطح تک پہنچ سکیں لیکن کسی کو کامیابی نہ ہو سکی۔ آج تک کوئی اس کی گہرائی کو نہیں جان سکا۔

\"12966487_1006239682788815_452485162_n\"جھیل تک جانے کے لیے اس زمانے میں بہت ہی پرانی زنگ آلود لوہے کی چیئر لفٹ تھی۔ چیئر لفٹ کا نام شاید اسے نہیں دے سکتے بس پھنس کر دو بندوں کے کھڑے ہونے کے باکس تھے۔ باکس پر کس نے دھیان دینا تھا ہم تو جنت سے اترے ہوئے اس ٹکڑے کے سحر میں غوطہ زن تھے۔ فرطِ حیرت سے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دائیں طرف والے جھرنے اگلتے پہاڑوں کو دیکھیں یا بائیں طرف والے سرسبز منظروں کو۔ میرے پیچھے والے باکس میں میری دوست نبیلہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ تھیں۔ کبھی وہ فرطِ مسرت سے زور سے آواز لگاتیں بھابھی اس طرف دیکھیں، کبھی ہم چیختے ادھر دیکھو نبیلہ۔ ہماری چشم پر مسرت نے ایسےمناظر کبھی جاگتے سوتے خوابوں میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ جھیل پر پہنچ کر ذہن و دل دونوں کو ارد گرد کے انتہائی دلکش مناظر سے بھر لیا جو آج تک ذوقِ حسن کو نظارہ دے رہے ہیں۔ اسی وادی میں بلندی پر انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جو شاہ مرداں کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ شاہ مرداں اس لئے کہلاتا ہے کہ وہاں پر ایک صحابی کی طویل قبر ہے۔ پہلے زمانے میں ازبکوں کا دعوی تھا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر مبارک ہے۔ لیکن اب وہ جان چکے ہیں کہ وہ قبر ان کی نہیں۔ وہ مزار کافی بلندی پر ہے، ہم نے جا کر وہاں فاتحہ خوانی کی۔ اس سے نیچے پہاڑوں کے درمیان وادی کا حسن عروج پر تھا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments